"KDC" (space) message & send to 7575

عام انتخابات‘ خدشات میں کمی

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے23اگست کو ایک خط کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر کو عام انتخابات کی تاریخ کے تعین کے لیے مشاورت کی دعوت دی تھی لیکن اگلے ہی روز چیف الیکشن کمشنر نے اپنے جوابی خط میں یہ کہتے ہوئے کہ ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ انتخابی قوانین میں تبدیلی کے بعد عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے‘ملاقات سے انکار کر دیا تھا۔ بعد ازاں ایوانِ صدر نے الیکشن کمیشن کے خط پر وزارتِ قانون کی رائے مانگی تھی۔ وزارتِ قانون نے تین روز قبل صدر کو اپنی رائے پر مبنی جو خط ارسال کیا ہے‘اس میں لکھا ہے کہ الیکشن ایکٹ کی شق 57میں ترمیم کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کی مجاز اتھارٹی الیکشن کمیشن ہی ہے۔ آرٹیکل (5)48صدر کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار تب دیتا ہے جب صدر (2)58 کے تحت اسمبلی تحلیل کرے‘ اگر فرض کریں کہ صدر(5) 48پر انحصار کر بھی لیں تو بھی صرف قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں‘لیکن صدر اگر قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دیں گے تو ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات ممکن نہیں ہوں گے۔ صدر کے تاریخ دینے کا اختیار تسلیم کیا جائے تو صوبوں میں تاریخ گورنرز دینے کے مجاز ہوں گے‘ ایسے میں گورنر کے پی‘ سندھ‘ بلوچستان اور پنجاب صوبوں میں الیکشن کی الگ الگ تاریخ دے سکتے ہیں۔ وزارتِ قانون و انصاف نے کہا کہ موجودہ اسمبلی آرٹیکل (1)58کے تحت وزیراعظم کی ایڈوائس پر تحلیل ہوئی ہے‘ صدر کو دی جانے والی آرٹیکل (1)58 کے تحت ایڈوائس آرٹیکل 48 سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ آرٹیکل (1)48کے تحت صدر کے پاس ایڈوائس واپس بھیجنے کا اختیار ہوتا ہے جبکہ آرٹیکل (1)58 صدر کو ایڈوائس واپس بھیجنے کی اجازت نہیں دیتا۔
اس سارے عمل میں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ وزارتِ قانون نے آئین کے آرٹیکل (1)58اور آرٹیکل (5)48کے فرق کو پس پشت ڈالتے ہوئے صدرِ مملکت کے موقف کی تائید کردی جبکہ صدر نے 9اگست کو وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی آئین کے آرٹیکل (1)58کے تحت تحلیل کی تھی جس میں صدر کے الیکشن کی تاریخ دینے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ شنید ہے کہ وزارتِ قانون کے جوابی خط پر صدرِ مملکت نے ایوانِ صدر کی آئینی و قانونی ٹیم سے مشاورت کی ہے۔ جسٹس(ر) زاہد بخاری ان کے آئینی ایڈوائزر ہیں جو کہ 2008ء کے لگ بھگ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے اور بعد ازاں کچھ ماہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج بھی رہے لیکن وہ دیگر جج صاحبان کے ہمراہ افتخار محمد چودھری کی عدلیہ بحالی تحریک کی نذر ہو گئے کیونکہ انہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا ۔ جسٹس(ر) زاہد بخاری ملک کے مایہ ناز قانون دان محترم ایس ایم ظفر کے قریبی رشتے دار ہیں۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ جسٹس(ر) زاہد حسین بخاری نے پاکستان کے معروضی حالات کے پیش نظر صدرِ مملکت کو ریاست کے مفاد کے مطابق ہی اپنی آئینی و قانونی رائے دی ہو گی۔ صدرِ مملکت کو چاہیے کہ ملک اس وقت جن نازک ترین حالات سے دوچار ہے‘ ایسے میں صرف ریاست کے مفاد کو ہی پیشِ نظر رکھیں۔
الیکشن ایکٹ کی شق 57میں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن کو ملک میں ایک ساتھ انتخابات کی تاریخ دینے کا استحقاق حاصل ہو چکا ہے اور یہی ملکی مفاد میں بہتر ہے کیونکہ انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے کے لیے ان کا پورے ملک میں ایک ساتھ انعقاد ضروری ہے۔ گوکہ آرٹیکل (5)48صدر کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار دیتا ہے لیکن یہ بھی اُسی صورت میں ممکن ہے جب صدر (2)58 کے تحت اسمبلی تحلیل کرے‘اور اگربا لفرض صدر(5) 48پر انحصار کر بھی لیں تو بھی صرف قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں۔اس صورت میں صوبوں کے گورنر صاحبان کو آگے آ کر آئین کے آرٹیکل 105کے تحت صوبوں میں انتخابات کی تاریخ دینا ہو گی جو کہ قومی اسمبلی کی تاریخ سے مختلف بھی ہو سکتی ہے۔ اور اگر ملک میں ایک ہی دن انتخابات کا انعقاد نہیں ہو پاتا تو حالات مزید گمبھیر ہو جائیں گے۔ ملک مزید خلفشار کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔حیرانگی ہے کہ ایوانِ صدر ان پہلوؤں پر اپنی توجہ مرکوز کیوں نہیں کر رہا۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت اور ان کی آرا کی روشنی میں حلقہ بندی کے کام کو جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے حلقہ بندیوں کی حتمی اشاعت 30 نومبر 2023 تک کرنے کا اعلان کیا ہے اور اُمید ہے کہ اسی تاریخ کو انتخابی فہرستیں بھی جاری کر دی جائیں گی۔اگرچہ حلقہ بندیوں کی مدت میں کمی کے باوجود بھی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کے انعقاد سے متعلق آئینی شق کی خلاف ورزی ہوگی‘ تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے سامنے آنے والے اس فیصلے سے انتخابات میں کئی ماہ تک تاخیر کے خدشات میں کمی ضرور آئے گی۔ الیکشن کمیشن کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ حلقہ بندیوں کے دورانیے کو کم کرنے کا مقصد جتنا جلدی ممکن ہو سکے الیکشن کا انعقاد ہے‘ اس تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کے شیڈول کا بھی اعلان کر دیا جائے گا۔الیکشن ایکٹ کی شق 57کے تحت حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کی اشاعت کے بعد انتخابی شیڈول کے لیے 50روز کا دورانیہ درکار ہوتا ہے‘ اگر حلقہ بندیوں کی تکمیل کے فوراً بعد الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول بھی جاری کر دیتا ہے تو آئندہ عام انتخابات جنوری کے آخری ہفتے‘ یعنی 24یا 25جنوری 2024ء تک منعقد ہو سکتے ہیں۔
اُدھر نگران حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافے کا اعلان کردیا ہے جس کے بعد ملکی تاریخ میں پہلی بار پٹرول اور ڈیزل کی قیمت 300روپے فی لٹر سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ عوام پہلے ہی بجلی کے بلوں کی وجہ سے سراپا احتجاج ہیں۔نگران حکومت کو آئے ابھی ایک ماہ کا عرصہ بھی نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود لگاتار دوسری مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے ۔نگران حکومت تقریباً دو ہفتوں کے دوران پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 35 روپے فی لٹر کا اضافہ کر چکی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات میں ایک ماہ سے بھی کم وقت میں اتنے زیادہ اضافے سے روزافزوں مہنگائی میں مزید اضافے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے جبکہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی کی وجہ سے اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں پہلے ہی مسلسل اضافہ جاری ہے۔روپے کی قدر میں کمی سے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ یہ مرکزی بینک کو بھی مجبور کر رہی ہے کہ وہ مقامی کرنسی کی بے قابو گراوٹ کے اثرات کو کم کرنے کے لیے شرحِ سود میں اضافہ کرے۔ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کی وجہ سے بھی صارفین مشکلات کا شکار ہیں۔چینی کی برآمد اور سمگلنگ کے بعد مقامی سطح پر چینی کی قیمت کو جو پر لگے ہیں‘اُس پر قابو پانے کے لیے اب چینی کی درآمد کا منصوبہ زیر غور ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی یہ کیسی انوکھی حکمت عملی ہے کہ پہلے ملکی ضروریات کو پس پشت ڈال کر مقامی اجناس سستے داموں برآمد کرتے ہیں اور پھر ملک میں اُس اشیا کا بحران پیدا ہونے پر مہنگے داموں درآمد کرتے ہیں۔ نگران حکومت کو چاہیے کہ انتظامی معاملات چلانے کے ساتھ ساتھ عوام کو روز افزوں مہنگائی سے ریلیف دلانے کی بھی کوئی سعی کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں