"KDC" (space) message & send to 7575

صدرِ مملکت کی ٹرم اور اختیارات

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک انٹرویو کے دوران نگران حکومت کی آئندہ انتخابات کے حوالے سے پالیسی اور ایجنڈے کو واضح کر دیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ مجھے امید نہیں یقین ہے کہ چار ماہ میں انتخابات ہو سکتے ہیں۔ انتخابات میں التوا کے حوالے سے قیاس آرائیاں ہیں کہ یہ التوا کا شکار ہو جائیں گے لیکن میری قیاس آرائی یہ ہے کہ انتخابات زیر التوا نہیں ہوں گے۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ تین سے چار ماہ میں ہم انتخابی عمل کی طرف جائیں گے۔ صدر کا منصب اس وقت تک جاری و ساری رہے گا جب تک ان کا متبادل منتخب نہیں ہوتا۔ اگر صدر اپنا عہدہ چھوڑتے ہیں تو چیئرمین سینیٹ صدر کے طور پر اپنا کردار ادا کریں گے۔
دوسری طرف الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کی طرف سے نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد وہ اب اس امر کا پابند ہے کہ پہلے نئی حلقہ بندیاں کرے اور ان کے مطابق انتخابی فہرستیں ترتیب دے اور پھر الیکشن کرائے۔ اب نئی حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کے اجرا میں میں چار ماہ لگ سکتے ہیں‘ چند روز قبل الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کی تکمیل کے لیے 30نومبر کی تاریخ کا اعلان بھی کر چکا ہے لیکن نئی حلقہ بندیوں کے بعد سیاسی جماعتوں کی طرف سے اُن پر اعتراضات اٹھائے جائیں گے جنہیں دور کرنے میں مزید وقت صرف ہو گا‘ اس لیے آئندہ عام انتخاباتفروری 2024ء تک مؤخر ہو سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن بیک وقت تین محاذوں پر کام کر رہا ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل‘ نئی حلقہ بندیوں کی بنا پر قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم اور انتخابی فہرستوں کی تشکیل۔اس کے باوجود بعض حلقوں کی جانب سے یہی تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات مئی 2024ء سے پہلے نہیں ہو سکیں گے‘ تاہم کچھ دیگر حلقے آرمی چیف کے تاجر رہنماؤں سے خطاب سے بھی یہی نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ الیکشن ملک میں معاشی استحکام کے قیام تک التوا کا شکار ہو سکتے ہیں تاہم اس ضمن میں عدالتِ عظمیٰ کے فیصلوں کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے نیب ترمیمی بل پر بھی فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو کسی بھی وقت سنایا جا سکتا ہے۔ اگر سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کا منظور کردہ نیب ترمیمی بل نامنظور کر دیا تو ملک کی کئی اہم ترین سیاسی شخصیات کے خلاف مقدمات دوبارہ کھل جائیں گے۔یہ مقدمات کسی نہ کسی طرح معیشت اور انتخابات سے اس لیے جڑے ہوئے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں نیب مقدمات سے بری الزمہ قرار پانے والی شخصیات حصہ لیں گی‘ جس سے ملک سے کرپشن کے خاتمے کا تاثر تقویت نہیں پا سکے گا جبکہ اب تو بیرونی حلقے بھی ان کی کرپشن کی طرف اشارہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ملک میں کرپشن کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اور اگر کرپشن کے خاتمے تک آئندہ انتخابات ملتوی رکھے جائیں تو یہ آئندہ کئی برس تک التوا کا شکار ہی رہیں گے۔ ایسے میں نگران وزیر اعظم کا انتخابات کا مقررہ مدت میں انعقاد کا وعدہ پورا نہیں ہو سکے گا جس سے ملک کے معاشی حالات مزید گمبھیر صورتحال بھی اختیار کر سکتے ہیں۔
ایک اور موضوع جو آج کل زیر بحث ہے وہ صدرِ مملکت کی مدت پوری ہونے کا ہے جو کہ نو ستمبر کوپوری ہورہی ہے لیکن آئین کے آرٹیکل 44 واضح طور پر انہیں اپنے جانشین کے انتخاب تک عہدے پر کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ موجودہ حالات میں نئے صدر کے انتخاب میں غیر معمولی وقت لگ سکتا ہے۔ ملک کے موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی آئین کے آرٹیکل 44(1) کے تحت اپنے فرائض جاری رکھیں گے‘ تاہم اگر وہ اپنی مدت پوری ہونے پر ازخود عہدہ چھوڑنے کا انتخاب کرتے ہیں تو ایسی صورت میں آئین میں ان کے متبادل کے لیے واضح رہنمائی موجود ہے۔اب تک صدرِ مملکت اس حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور انہوں نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ عہدہ چھوڑ دیں گے یا مسندِ صدارت پر فائز رہیں گے۔ اگر صدرِ مملکت نو ستمبر کو اپنی مدت پوری ہونے پر اپنا عہدہ برقرار نہیں رکھناچاہتے تو اس صورت میں چیئرمین سینیٹ یا سپیکر قومی اسمبلی قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں لیکن اگر صدرِ مملکت نے نو ستمبر کو سبکدوش ہونا ہوتا تو وہ اپنی الوداعی ملاقاتوں کا آغاز کر چکے ہوتے لیکن چونکہ ابھی تک صدرِ مملکت کی طرف سے الوداعی ملاقاتوں کا آغازنہیں ہوا اس لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ نئے صدر کی تعیناتی تک اس عہدے پر برقرا رہنا چاہتے ہیں۔
ملک میں مشکل معاشی حالات کے پیش نظر کاروباری طبقے اور عوام میں پھیلی مایوسی کو دور کرنے کے لیے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ملک کی چند بڑی کاروباری شخصیات سے ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں آرمی چیف کی طرف سے مختلف شعبوں میں آنے والی بڑی غیر ملکی سرمایہ کاری کے پیش نظر ملک کے روشن مستقبل کا عندیہ دیا بھی دیا گیا۔ تاجر برادری سے خطاب کے دوران اِس عزم کا اظہار بھی کیا گیا کہ کرپشن کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ میڈیا میں رپورٹ شدہ خبروں کے مطابق دو ستمبر کے روز کراچی میں تقریباً 50 تاجروں کے ساتھ 4 گھنٹے طویل ملاقات میں آرمی چیف نے بتایا کہ انہوں نے اپنے حالیہ دورۂ سعودی عرب کے دوران ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو آگاہ کردیا تھا کہ وہ پاکستان میں محض ایک‘ دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے وہاں نہیں آئے۔ بعد ازاں شہزادہ محمد بن سلمان نے آرمی چیف کو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت پاکستان میں زرعی شعبے میں 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی۔ آرمی چیف نے کہا کہ وہ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر اور کویت سے مجموعی طور پر 75 ارب سے 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لانے کی کوشش کریں گے۔ اجلاس میں شریک ایک تاجر کے مطابق آرمی چیف نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ مختلف فصلوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے پنجاب‘ سندھ اور دیگر صوبوں کے مختلف علاقوں میں زمینوں کی لیولنگ کی جا رہی ہے۔ آرمی چیف نے کسی بھی نئے پروگرام کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ کی طرف نہ جانے کا اشارہ بھی دیا کیونکہ آئی ایم ایف آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ بھی اس پروگرام کا حصہ ہے۔ اجلاس میں گیس‘ بجلی‘ برآمدات اور کرپشن کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کے کردار پر بھی بات چیت ہوئی۔ ایرانی پٹرول کی سمگلنگ پر انہوں نے کور کمانڈر سے کہا کہ ایرانی پٹرول کراچی نہیں پہنچنا چاہیے۔ اجلاس کے دوران سندھ میں کرپشن‘ ٹیکس چوری کا کلچر‘ ایس او ایز کی نجکاری‘ غیر قانونی افغانیوں کی وطن واپسی اور ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے سے متعلق امور بھی زیر بحث آئے۔ ایک کاروباری شخصیت نے اس اجلاس کو انتہائی حوصلہ افزا قرار دیا جس کے مثبت نتائج ایسے وقت میں سامنے آئیں گے جب ملک چینی اور گندم کے گہرے بحران کا سامنا کر رہا ہے اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل عاصم منیر مسلم ممالک سے بڑی غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کے لیے پُرعزم اور پُرامید نظر آتے ہیں اور اس سے معاشی امکانات پر یقینا فرق پڑے گا۔ اجلاس میں شریک ایک تاجر کے مطابق بیورو کریسی کے کردار پر بات کرتے ہوئے آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ترقیاتی منصوبوں میں اکثر و بیشتر بیوروکریسی کی طرف سے رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں‘لہٰذا ایف آئی اے کو ٹاسک دے دیا گیا ہے کہ غیرملکی سرمایہ کاری میں رکاوٹ پیدا کرنے والے عناصر کی سرکوبی کی جائے۔ آرمی چیف کے عزم سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں