"KDC" (space) message & send to 7575

صدرِ مملکت اور الیکشن کی تاریخ

گزشتہ روز صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے عہدۂ صدارت کی پانچ سالہ مدت مکمل ہوگئی ہے لیکن عارف علوی صاحب نئے صدر کے انتخاب تک فرائض کی انجام دہی جاری رکھیں گے کیونکہ آئین کے آرٹیکل (1)44 کے مطابق وہ اس عہدے پر اس وقت تک برقرار رہیں گے جب تک ان کے جانشین کا انتخاب نہیں ہو جاتا۔ڈاکٹر عارف علوی پانچ سالہ مدت پوری کرنے والے ملک کے جمہوری طور پر منتخب ہونے والے چوتھے صدر ہیں۔قانون کے تحت دونوں ایوانوں (قومی اسمبلی اور سینیٹ) اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی جانب سے صدرِ مملکت کو منتخب کیا جاتا ہے اور چونکہ عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے تاحال کوئی حتمی تاریخ سامنے نہیں آ سکی‘ اس لیے صدر کے انتخاب کے لیے ضروری الیکٹورل کالج کی عدم موجودگی میں ڈاکٹر عارف علوی کے غیر معینہ مدت تک عہدے پر رہنے کا امکان ہے۔ اس سے وہ ملکی تاریخ کے ان سربراہانِ مملکت میں شامل ہو جائیں گے جن کی مدت میں توسیع ہوئی۔شنید ہے کہ صدرِ مملکت آئندہ چند روز میں ایک اہم ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوانے والے ہیں جس میں وہ آئین کے آرٹیکل 48(5) کے تحت ملک میں 90روز میں انتخاب کرانے کی تاریخ دینے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔صدرِ مملکت کے اس ممکنہ اقدام سے ملک میں آئینی بحران پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کا مضبوط موقف ہے کہ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 220اور 222کے مطابق مکمل بااختیار ادارہ ہے۔ آئین کا آرٹیکل 48(5) محدود اختیار کا حامل ہے اور صدرِ مملکت اس آرٹیکل کے تحت الیکشن کمیشن کو وزیراعظم کی ایڈوائس کے بغیر الیکشن کی تاریخ تجویز کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن اپنے آئینی اختیارات کے پیش نظر ایوانِ صدر کے ایسے کسی بھی احکامات کو بجا لانے کا پابند نہیں ہے۔آئین کے آرٹیکل 222کے آخر ی پیرا گراف میں الیکشن کمیشن کے اختیارات کی واضح تشریح موجود ہے کہ ملک کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور لوکل گورنمنٹ کے الیکشن کرانے کیلئے الیکشن کمیشن کے معاملات میں کوئی ادارہ مداخلت نہیں کر سکتا۔لیکن ان حقائق کے برعکس صدرِ مملکت عارف علوی الیکشن کی تاریخ دینے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں جس کی وجہ شاید بعض طبقات کی طرف سے نوے روز میں الیکشن کے انعقاد کے لیے کیا جانے والا احتجاج ہے۔لیکن الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57میں ترمیم ہونے کی وجہ سے صدرِ مملکت کے فیصلے کو مسترد کر سکتا ہے۔ بالفرض صدرِ مملکت کوئی تاریخ دے بھی دیتے ہیں تو الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 58 کے تحت انتخابی شیڈول میں ردو بدل کرنے کا بھی اختیار رکھتا ہے۔
اُدھر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ عام انتخابات جنوری اور فروری سے پہلے بھی ہوسکتے ہیں ‘ہم نہ لانگ ٹرم کیلئے آئے ہیں اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ ہے لیکن چونکہ الیکشن کی تاریخ کا تعین الیکشن کمیشن نے کرنا ہے تو ہم بھی اس انتظار میں ہیں کہ جیسے ہی وہ تاریخ کا اعلان کرتے ہیں تو اس سے جڑی ہوئی جتنی بھی تیاری ہے وہ مکمل کرکے اپنا آئینی فریضہ ادا کریں اور گھر کو جائیں۔اگر سپریم کورٹ نوے دن میں انتخابات کا فیصلہ دے گی تو اس پر بھی عمل کیا جائے گا۔تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی اور کوئی ادارہ جاتی مداخلت نہیں کی جائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ عام انتخابات میں سب کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گا۔ پاکستان کے جتنے بھی ووٹرز ہیں‘ یہ ان کا اختیار ہے کہ وہ جس سیاسی رہنما کو چننا چاہتے ہیں چنیں۔معاشی حالات کے حوالے سے انوار الحق کاکڑ صاحب کا کہنا تھا کہ معاشی اقدامات کے نتائج دسمبرتک آنا شروع ہوں گے۔حکومت چندہفتوں میں مسائل حل نہیں کرسکتی ہے۔ اس کی وجہ آئی پی پیز سے معاہدے ہیں اور بجلی چوری روکنا بھی مشکل ہے۔
اُدھر جمعرات کے روز آرمی چیف کی زیر صدارت منعقدہ کور کمانڈرز کانفرنس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کی چھتری تلے سماجی و اقتصادی نمو میں بہتری کے لیے جاری کوششوں کی مکمل حمایت جاری رکھنے اور معاشی استحکام‘ ترقی اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متاثر کرنے والی تمام غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے میں حکومت کی بھرپور معاونت کی جائے گی جبکہ دوسری طرف نگران حکومت نے پلاننگ کمیشن کو طویل المدتی اقتصادی پلان تیار کرنے کی خصوصی ہدایات بھی جاری کی ہیں۔ گوکہ ملکی معیشت گمبھیر صورتحال سے دوچار ہے اور عوام مہنگائی سے ریلیف کے لیے نگران حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن بادی النظر میں نگران حکومت کوئی طویل المدتی اقتصادی پلان دینے کی مجاز ہی نہیں ہے اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 130 اس حوالے سے بالکل واضح ہے۔ موجودہ زمینی حالات کے پیش نظر ملک میں نوے روز میں عام انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ سیاسی اور معاشی عدم استحکام نے ملک کی بنیادی ہلا کر رکھ دی ہیں لیکن اب مختلف طبقات کی طرف سے ملک میں نوے روز میں انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ سپریم کورٹ بار کونسل کے زیر انتظام منعقدہ آل پاکستان وکلا کنونشن میں نوے روز میں انتخابات کے انعقاد کا پُر زور مطالبہ کیا گیا ہے اور یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ ملک میں آئین و قانون کے تحفظ اور بالادستی اور انسانی حقوق کے لیے 14 ستمبر کو وکلا کی جانب سے ہڑتال ہوگی۔وکلا ملک بھر میں بارایسوسی ایشنز کی حدود میں 14 ستمبر کو ریلیوں کی شکل میں پُرامن احتجاج کریں گے۔
ملکی معیشت کی ابترصورتحال پر قابو پانے کیلئے آرمی چیف کا نگران حکومت کی معاونت کرنے کا عزم قابلِ ستائش ہے۔ اگر ملکی معیشت کی بحالی کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر دیانتداری اور مستقل مزاجی کے ساتھ عمل ہوتا رہا تو امید کی جا سکتی ہے کہ تیزی سے بگڑتی ہوئی معیشت میں استحکام آجائے گا۔عوام اس وقت مہنگی بجلی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں لیکن آئی ایم ایف بمشکل ماہانہ 200یونٹ کے بجلی بل پر ریلیف دینے کیلئے تیار ہوا ہے۔ اب حکومت نے مہنگی بجلی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ہے کیونکہ ملک میں سالانہ 589ارب کی بجلی چوری ہوتی ہے جس کا بل بجلی صارفین سے وصول کیا جاتا ہے۔ دیکھتے ہیں اس اقدام سے کس حد تک بجلی صارفین کو ریلیف میسر آتا ہے۔ایک طرف ملکی معیشت ابتری کا شکار ہے تو دوسری طرف ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں۔اسی لیے گزشتہ روز ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ جو اسلحہ افغانستان میں چھوڑا گیا تھا وہ اب دہشت گرد گروپوں کے ہاتھ لگ چکا ہے اور ہمیں تشویش ہیں کہ وہ پاکستان سمیت خطے کے لیے خطرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم کسی پر الزام نہیں لگانا چاہتے مگر اس اہم مسئلے کے حوالے سے تمام ممالک کو مل کر کام کرنا چاہیے۔گوکہ نگران وزیراعظم جنوری‘ فروری یا اس سے بھی پہلے عام انتخابات کے انعقاد کا عندیہ دے چکے ہیں لیکن موجودہ ملکی حالات کے پیش نظر کیا ایسا ممکن ہے‘ یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں