"KDC" (space) message & send to 7575

صدر مملکت عبوری صدر ہیں؟

سابق اتحادی حکومت کی شراکت دار جماعتیں الیکشن کمیشن پر دبائو ڈال رہی ہیں کہ انتخابات بے شک 90 دنوں میں کرائیں یا 120 دنوں میں لیکن الیکشن کی تاریخ کا واضح اعلان کردیا جائے۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ وکلا بھی الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے احتجاجی تحریک کا آغاز کر چکے ہیں اور مستند خبر ہے کہ صدر مملکت بھی الیکشن کی تاریخ دینے کیلئے اپنا آئینی اختیار یعنی آرٹیکل (5)48کو بروئے کار لانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق آئندہ کچھ دنوں میں وہ ایسا قدم اٹھانے کی سوچ رہے ہیں کیونکہ صدر مملکت کو اپنی پارٹی کے دبائو کا بھی سامنا ہے۔
صدر مملکت ریاست کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہیں اور پارٹی کو عموماً ترجیح نہیں دیتے لیکن ماضی میں کم از کم دو ایسے صدور کی روایات موجود ہیں جنہوں نے اپنی پارٹی کے مفادات کو برقرار رکھا اور ریاست کے اصولوں کو پس پشت ڈال دیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست کمزور ہوتی چلی گئی اور ایوانِ صدر بھی اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا۔ آج جن حالات سے ملک عزیز گزر رہا ہے‘اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ صدر مملکت نے ریاست کے مفاد کی خاطر قدم نہیں اٹھایا۔
صدر مملکت اگرچہ نئے صدارتی انتخاب تک اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے اور آئین کے آرٹیکل (1)44 کے مطابق وہ اپنے عہدے پرقائم رہیں گے لیکن بادی النظر میں ان کی حیثیت سٹاپ گیپ انتظامات کے زمرے میں آتی ہے۔ اس طرح وہ کسی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں نہیں۔ ریاست کے انتظامات کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ روز مرہ کے معمول کے کاموں میں وفاقی حکومت کی معاونت کرتے رہیں گے لیکن ازخود اپنی جانب سے الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کو پالیسی دینے‘ریفرنس بھیجنے اور الیکشن کی تاریخ دینے کے مجاز نہیں۔ اسی طرح بادی النظر میں آئین کا آرٹیکل (5)48 کا اختیاربھی 9ستمبر کے بعد غیر فعال ہوچکا ہے اور صدر اس آرٹیکل کا سہارا لیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو الیکشن کی تاریخ دینے کے بارے میں احکامات جاری نہیں کرسکتے۔9 ستمبر کے بعد صدر مملکت سے غیر ملکی وفود‘ سربراہانِ مملکت‘ سفارتی نمائندے اور غیر سرکاری حیثیت کی حامل شخصیات ملتی رہیں گی مگر عملاً وہی منظر رہے گا جیسے 18 فروری 2008ء کے انتخابات کے بعد صدر پرویز مشرف عملاً ایوانِ صدر میں تھے مگر وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کی اجازت کے بغیر وہ ایوانِ صدر سے باہر نہیں آسکتے تھے اور نہ ہی کسی تقریب میں شرکت کر سکتے تھے۔
صدر مملکت پر آئین سے متصادم اقدامات کا الزام بھی عائد کیا جارہا ہے۔بادی النظر میں ان سے جو آئین سے متصادم فیصلے سر زد ہوئے ان کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ انہوں نے 7 اپریل 2022ء کو وزیر اعظم کی ایڈوائس پر آئین کے آرٹیکل(1)58 کے تحت قومی اسمبلی اُس وقت تحلیل کر دی جب وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر قومی اسمبلی میں قرارداد پر بحث ہو رہی تھی۔ صدر مملکت نے اپنی دانش کو بروئے کار لانے کے بجائے پارٹی کے مفادات کو مدِنظر رکھا اور بعد ازاں سات اپریل کو رات گیارہ بجے سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی اسمبلی بحال کر دی اور صدر کے احکامات کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے اقدام کو آئین سے انحراف قرار دیا اور ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل6 کے تحت مقدمہ دائر کرنے کا اشارہ بھی دیا۔ صدر مملکت نے اپنے پانچ سالہ دورِصدارت میں وزیر اعظم کی ایما پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کیا جسے سپریم جوڈیشل کمیشن نے بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے مستردکر دیا۔صدر مملکت نے اپنے پانچ سالہ دورِ صدارت کے دوران آرٹیکل213کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 2019ء میں الیکشن کمیشن کے دو ارکان کا تقرر کر دیا‘ جسے اُس وقت کے چیف الیکشن کمیشن سردار رضا نے صدارتی احکامات کو مسترد کرتے ہوئے غیر آئینی قرار دیا اوربعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ صدر نے آئین کے آرٹیکل58(2)B کو بحال کرنے کی کوشش کی جو آئین کو سبوتاژ کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 89کے تحت جو آرڈی نینس جاری کئے وہ سینیٹ نے مسترد کردئیے اور ایسے ریمارکس دیئے کہ صدر دانش مندی سے آرڈی نینس جاری نہیں کررہے اور اس اقدام کو ذہانت کا فقدان قرار دیا۔ صدر مملکت نے 12 اپریل 2022ء کو وزیر اعظم شہباز شریف سے حلف لینے سے انکار کیا اور دو دن کی رخصت پر چلے گئے‘ قائم مقام صدر نے شہباز شریف سے حلف لیا اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا حلف لینے کے متعلق بھی صدر کے اقدام نے ابہام پیدا کیا۔ صدر مملکت نے پارلیمنٹ کے منظور شدہ بلوں پر دانستہ دستخط نہ کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی جس سے مذکورہ مسودے متنازع ہوتے چلے گئے۔ ان حوالہ جات کو دیکھا جائے تو صدر مملکت کے پانچ سالہ دور میں ان کی طرف سے آئین سے متصادم فیصلے ہوئے‘توسوال پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح امریکی صدر ٹرمپ کو آئین سے متصادم فیصلے کرنے پر ان کے خلاف مقدمات درج کرائے گئے‘ کیا اسی طرح صدر عارف علوی کے خلاف بھی ریفرنس سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر کیا جاسکتا ہے ؟
صدرا سکندر مرزا کے دورِ صدارت میں1955ء میں ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کیلئے اُس وقت کی مرکزی حکومت نے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا تھا‘ جس کی کامیابی کو دیکھ کر بعض ترقی پذیر ممالک نے اسے بطور رول ماڈل اپنایا‘ جیسے صدر ایوب خان کے دور حکومت میں دوسرا پانچ سالہ منصوبہ 1960ء میں شروع کیا گیا اور اس کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے 1965ء میں تیسرا پانچ سالہ منصوبہ شروع کیا گیا اور پاکستان ترقی پذیر ممالک کی اولین صف میں کھڑا ہوگیا۔ صدر ایوب خان کے 11سالہ دور حکومت میں ڈالر چار روپے سے آگے نہ بڑھ سکا اور مہنگائی پر بھی مکمل کنٹرول رہا۔ اُن حالات کو دیکھتے ہوئے نگران حکومت طویل مدتی منصوبے بنانے کے عزم پر قائم ہورہی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ 90 روز میں انتخابات کیسے ہوں گے؟مقتدر حلقوں کو ملک کی معیشت کی بحالی اور 1960ء کی ترقیاتی دہائی کی سطح پر لے جانے کے لیے ملک کے انتخابی سسٹم اور سیاسی نظام کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ ان حالات میں جبکہ معیشت ڈوب چکی ہے اور ملک عملاً دیوالیہ ہوچکا ہے تو کیا الیکشن کی تاریخ دینے سے ملک مزید اندھیرے میں نہ ڈوب جائے گا؟ضروری ہے کہ درمیانی راستہ نکالتے ہوئے سب سے پہلے انتخابی سسٹم کو درست کیا جائے‘ حلقہ بندیاں‘ مردم شماری اور انتخابی فہرستوں کو درست کیا جائے‘ اسی طرح انتخابی نظام میں شفافیت لائی جاسکتی ہے جس کی ہمارے انتخابی نظام کو اشد ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں