"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن کا ممکنہ انتخابی شیڈول

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بدھ کے روز الیکشن کمیشن کو تجویز دی ہے کہ آئین کے مطابق قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90روز کے اندر عام انتخابات کے انعقاد کے لیے یہ 6 نومبر کو ہوجانے چاہئیں۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے نام خط میں صدرِ مملکت نے انتخابات کی تاریخ تجویز کرتے ہوئے کہا کہ صدرِ مملکت نے 9 اگست کو وزیراعظم کے مشورے پر قومی اسمبلی تحلیل کی لہٰذا آئین کے آرٹیکل (5)48 کے تحت صدر کا اختیار ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ سے 90 دنوں کے اندر تاریخ مقرر کی جائے۔صدرِ مملکت کی طرف سے انتخابات کی تاریخ تجویز کرنے پر آئینی اور قانونی ماہرین کی رائے منقسم دکھائی دیتی ہے۔ کچھ ماہرین اسے صدر کا صوابدیدی اختیار قرار دے رہے ہیں جبکہ دیگر کا ماننا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ دیکھا جائے تو صدرِ مملکت آئین کے آرٹیکل (5)48کے تحت اسی صورت الیکشن کی تاریخ دینے کے مجاز ہیں جب وہ وزیراعظم کی ایڈوائس پر ایسا کریں۔ لیکن چونکہ صدرِ مملکت کو ایسی کوئی ایڈوائس موصول نہیں ہوئی اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 57میں ترمیم بھی ہو چکی ہے‘ لہٰذا اس ترمیم کے بعد الیکشن کی تاریخ کا تعین الیکشن کمیشن کا صوابدیدی اختیار ہے اس لیے صدرِ مملکت کو الیکشن کی تاریخ تجویز نہیں کر نی چاہیے تھی۔ چیف الیکشن کمشنر صدرِ مملکت کے نام اپنے ایک خط میں اس حوالے سے پہلے ہی اپنا مؤقف واضح کر چکے ہیں‘ وزارتِ قانون نے بھی چیف الیکشن کمشنر کے مؤقف کی ہی توثیق کی تھی۔ لہٰذا صدرِ مملکت کو پھر سے اس مشقِ لاحاصل میں نہیں پڑنا چاہیے تھا۔ اگست میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد ملک میں حلقہ بندیوں کا عمل بھی جاری ہے اور آئین کے آرٹیکل (5)51 اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 17 کے تحت یہ ایک لازمی شرط ہے کہ ملک میں عام انتخابات آخری شائع شدہ مردم شماری کے مطابق ہوں گے۔لہٰذا صدرِ مملکت کو آئین کے آرٹیکل (5)51 کے پیش نظر بھی الیکشن کی تاریخ تجویز کرنے سے احتراز کرنا چاہیے تھا۔
دیکھا جائے تو ملک میں آئین و قانون کی غلط تشریح اور توجیہات کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں۔ گزشتہ برس فلور کراسنگ کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل(1)63 کی تشریح کے حوالے سے یہ فیصلہ سامنے آیا تھا کہ پارٹی سے وابستہ ارکانِ اسمبلی اگر پارٹی قیادت کے فیصلہ سے انحراف کرتے ہوئے ووٹ کسی دوسرے فرد کو ڈالتے ہیں تو ان کا ووٹ کائونٹ نہیں کیا جائے گا۔اس فیصلہ سے ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوا۔ آئین کی اس شق میں پارلیمانی لیڈر کا کوئی تصور نہیں بلکہ اس میں پارلیمانی پارٹی اور پارٹی لیڈر کی اہمیت کا ذکر ہے‘اس کی غلط تشریح سے صوبائی اسمبلی میں قائم مقام سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دے کر پنجاب میں سپریم کورٹ کی رولنگ کے تحت حکومت بنائی گئی۔ اسی طرح ایک حالیہ فیصلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نظرثانی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی سرزنش کی گئی ہے اور آئین کے آرٹیکل 224کو مدنظر رکھتے ہوئے آرٹیکل 254 کو غیر فعال کر دیاگیاہے۔اس روایت سے ملک میں آئینی بحران مزید گہرا ہوگا۔
الیکشن کمیشن نے گزشتہ برس 22مارچ کو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ58کے تحت ناگزیر حالات کے پیش نظر پارلیمنٹ سے فنڈز کی عدم دستیابی اور پولنگ سٹاف کی سکیورٹی کے لیے مطلوبہ اہل کاروں کی خدمات نہ ملنے پر پنجاب اور خیبر پختونخوا کے الیکشن 8اکتوبر 2022ء تک موخر کر دیے تھے لیکن سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو کالعدم اور غیر آئینی قرار دے دیا تھا جس پر الیکشن کمیشن نے 4مئی کو نظر ثانی کی درخواست دائر کر دی تھی جسے سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا تھا۔ اب صدرِ مملکت نے الیکشن کی تاریخ تجویز کر دی ہے تو الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 220اور 222‘ (3)218اور (5)51 کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔ صدرِ مملکت کے اس عمل سے ایک نیا آئینی بحران سر اٹھائے گا جس کا ملک کسی صورت متحمل نہیں۔
دنیا بھر کے جمہوری ملکوں میں پارلیمنٹ کے انتخابات آئین میں طے شدہ نظام کے مطابق مقررہ وقت پر کرائے جاتے ہیں جس پر کسی حلقے کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ اگر ایوان کی مدت مکمل ہونے سے پہلے انتخابات کروانا پڑ جائیں تو بھی یہ قانون میں طے شدہ اصولوں کے مطابق ہی ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ملکِ عزیز میں ایسا کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ یہاں انتخابی عمل کسی تنازع کے بغیر مکمل ہوا ہو۔یہ انفرادیت بھی ہمارے ملک ہی کو حاصل ہے کہ یہاں برسراقتدار جماعت کی غیر جانبداری اور دیانت داری پر کسی کو اعتبار نہیں ہوتا اس لیے الیکشن کے انعقاد کے لیے عبوری حکومت قائم کی جاتی ہے۔ اس بار بھی ملک میں عام انتخابات ایک نگران حکومت کے زیر انتظام ہی کروائے جائیں گے۔
سیاسی جماعتوں میں الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے متضاد آرا موجود ہیں۔بعض جماعتیں مقررہ مدت میں الیکشن کا انعقاد چاہتی ہیں تو بعض دیگر پہلے معیشت کی بحالی پر زور دے رہی ہیں ۔ صدر عارف علوی اپنی جماعت کے دبائو کی وجہ سے عام انتخابات کے لیے چھ نومبر کی تاریخ تو تجویز کر چکے ہیں لیکن دوسری طرف نگران وفاقی حکومت کا مضبوط موقف یہ ہے کہ عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا مجاز الیکشن کمیشن ہے۔ الیکشن کمیشن بھی الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57 کے تحت اسی موقف پر قائم ہے۔ بعض حلقوں کی رائے ہے کہ 9ستمبر کے بعد سے صدرِ مملکت کی حیثیت ایک عبوری صدر کی سی ہے جسے معمول کے آئینی اختیارات حاصل نہیں ہوتے۔ لہٰذا وہ الیکشن کی تاریخ دینے کے مجاز نہیں۔ اسی طرح الیکشن کے شیڈول کا فیصلہ بھی الیکشن کمیشن ہی کر سکتا ہے۔ شنید ہے کہ الیکشن کمیشن 30 نومبر کو حلقہ بندیوں کی تکمیل کے ساتھ ہی الیکشن شیڈول کے اجرا کا ارادہ رکھتا ہے۔ الیکشن کمیشن اگر صدرِ مملکت کی تجویز کردہ تاریخ کو مسترد کر دیتا ہے اور اپنے اختیارات کے دفاع کے لیے یہ معاملہ عدالت میں لے کر جاتا ہے تو بھی اس کیس کے فیصلے تک نومبر آ ہی جائے گا اور یوں 90روز میں الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں رہے گا۔یہاں یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ اس وقت آئین کے کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی نہیں ہورہی ہے بلکہ ہم آئین کے مطابق الیکشن کی طرف سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔اگر الیکشن کمیشن آئین کے مطابق ہی تمام قواعد و ضوابط پورے کرتا ہے تو وکلا تحریک کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلے گا۔ملک میں انتخابات کے حوالے سے بے یقینی کی فضا دراصل تبھی پیدا ہو گئی تھی جب رواں برس جنوری میں عمران خان کی ایما پر پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ نے اپنے اپنے صوبے کی اسمبلی تحلیل کی تھی جبکہ دونوں صوبوں میں اسمبلیوں کے اجلاس بھی باقاعدگی سے جاری تھے‘ قانون سازی بھی ہورہی تھی اور تعمیر و ترقی کے منصوبوں کے لیے ریکارڈ رقوم بھی مختص کر دی گئی تھیں۔ جب دونوں صوبوں میں آئین و قانون کے مطابق کام کرہو رہے تھے تو عمران خان نے بلاوجہ اسمبلیوں کو تحلیل کرکے عدم استحکام کی بنیاد کیوں ڈالی تھی۔کیا تحریک انصاف کو اس سیاسی عدم استحکام کی ذمہ داری قبول نہیں کرنی چاہیے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں