"KDC" (space) message & send to 7575

آئین کی تشریح اورسیاسی عدم استحکام

الیکشن کے روڈ میپ کے حوالے سے زمینی حقائق جاننے کے لیے چیف الیکشن کمشنر سے غیرملکی سفارت کاروں کی ملاقات معمول کا معاملہ ہے۔ ماضی میں بھی غیر ملکی سفارت کار الیکشن کمیشن کا دورہ کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا ان ملاقاتوں کا کوئی مخصوص نتیجہ اخذ کرنا درست عمل نہیں ہے۔ شنید ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں الیکشن کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہو سکتی ہے۔
اگر ملک میں عام انتخابات کے حوالے سے آئینی و قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے تو سب سے پہلے الیکشن کمیشن کے 22مارچ کے فیصلے کی بات کرنا ضروری ہے۔ 22مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے30اپریل بروز اتوار کو شیڈول پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات ملتوی کرتے ہوئے ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کے لیے آٹھ اکتوبر کی تاریخ مقرر کی تھی۔ الیکشن کمیشن نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابی شیڈول واپس لیا تھا۔کمیشن کی طرف سے جاری کردہ بیان میں یہ موقف اپنایا گیا تھا کہ اس وقت فی پولنگ سٹیشن اوسطاً صرف ایک سکیورٹی اہلکار دستیاب ہے جبکہ پولیس اہلکاروں کی بڑے پیمانے پر کمی‘ فوجی اہلکاروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ اس صورتحال میں الیکشن کمیشن انتخابی مواد‘ پولنگ کے عملے‘ ووٹرز اور امیدواروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے متبادل انتظامات کرنے سے قاصر تھا۔مزید یہ کہ وزارتِ خزانہ نے ملک میں معاشی بحران کی وجہ سے فنڈز جاری کرنے میں ناکامی کا اظہار کیا تھا۔الیکشن کمیشن نے یہ نشان دہی بھی کی تھی کہ الیکشن کمیشن کی کوششوں کے باوجود ایگزیکٹو اتھارٹیز‘ وفاقی اور صوبائی حکومتیں پنجاب میں آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں انتخابی ادارے کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل نہیں تھیں۔دیکھا جائے تو الیکشن کمیشن نے جن وجوہات کی بنا پر پنجاب کا الیکشن ملتوی کیا وہ ٹھوس تھیں لیکن پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا حکم دے دیا‘ لیکن سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ تاریخ پر بھی پنجاب میں عام انتخابات کا انعقاد یقینی نہ بنایا جا سکا۔اگر اُس وقت الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو کالعدم قرار نہ دیا جاتا تو الیکشن کمیشن اب آٹھ اکتوبر کو ملک بھر میں عام انتخابات کے انعقاد کا پابند ہوتا۔ اس دوران اگر مشترکہ مفادات کونسل نئی مردم شماری کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر بھی دیتی تو الیکشن کمیشن آٹھ اکتوبر کے انتخابی شیڈول کا پابند رہتا۔ اب چونکہ مشترکہ مفادات کونسل کی طرف سے مردم شماری کا گزٹ نوٹیفکیشن ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب کوئی انتخابی شیڈول موجود نہیں تھا لہٰذا الیکشن کمیشن اب آئین کے مطابق نئی حلقہ بندیاں کرانے کا پابند ہے۔ سیاسی وجوہات تو اپنی جگہ لیکن نظامِ انصاف اور الیکشن کمیشن کے آمنے سامنے آنے کی وجہ سے بھی الیکشن تاخیر کا شکار ہوئے کیونکہ الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کا تعین آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کا صوابدیدی اختیار ہے اور کوئی بھی شخص یا ادارہ اس حوالے سے اسے ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا۔سپریم کورٹ کی طرف سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے اور پنجاب میں الیکشن کیلئے 14مئی کی تاریخ دیے جانے کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو شکایتی خط بھی لکھا تھا جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ انتخابات کیلئے موزوں وقت کا انتخاب الیکشن کمیشن کا اختیار ہے‘ سپریم کورٹ کے فیصلے سے کمیشن کے اختیار پر حرف آتا ہے۔چیف الیکشن کمشنر کے خط میں کہا گیا کہ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن ایک آزاد اورخودمختار ادارہ ہے‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کا کام ہے۔خط میں یہ مؤقف بھی پیش کیا گیا کہ سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل(2)224کی تشریح میں کہا کہ 90 دنوں میں الیکشن آئینی طور پر ضروری ہے لیکن کسی مخصوص شق نہیں بلکہ آئین کو مجموعی طور پر دیکھا جانا چاہیے‘ آئین کے آرٹیکل (3)218 کو پورا وزن نہیں دیا گیا۔ اسی خط میں چیف الیکشن کمشنر نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 (ون) اور 58 میں ترامیم کی تجویز دی تھی جس کے بعد الیکشن ایکٹ میں ترامیم کرکے صدر کے انتخابات کی تاریخ دینے کی شق حذف کر دی گئی۔آئینی شقوں کی غلط تشریح کی وجہ سے بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام کو ہوا ملی جس کی واضح مثال آئین کے آرٹیکل (1)63 کی تشریح تھی۔ آئین کی اس شق کی تشریح کرتے ہوئے فیصلہ جاری کیا گیا کہ پا رٹی سے وابستہ ارکانِ اسمبلی اگر پارٹی قیادت کے فیصلہ سے انحراف کرتے ہوئے ووٹ کسی دوسرے فرد کو ڈالتے ہیں تو ان کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا۔اس فیصلے سے ملک میں سیاسی خلفشار پیدا ہوا۔میری نظر میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں کوئی ایسا فیصلہ سامنے نہیں آ یا جو تاریخ کے صفحات میں امر ہو سکے لیکن امید ہے کہ آنے والے چیف جسٹس قاضی محمد فائز عیسیٰ اپنے دور میں ایسے فیصلے ضرور کریں گے۔
مستقبل قریب میں ملک میں ہونے والے عام انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو یہ انتخابات ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ وفاقی نگران حکومت میں شامل وزرا تکنیکی اعتبار سے اپنے اپنے میدان میں ماہر ہیں لیکن ایک منتخب سیاسی حکومت ہی ملک کو درست سمت میں گامزن کر سکتی ہے۔ گو کہ وفاقی نگران حکومت میں شامل چند وزرا پر سیاسی وابستگی کا الزام عائد کیا جا رہا ہے لیکن اگر کسی بیوروکریٹ نے ماضی میں کسی حکمران کے ساتھ بطور بیوروکریٹ کام کیا ہے تو اسے سیاسی وابستگی تصور نہیں کرنا چاہیے۔ نگران حکومت کا حصہ بننے کے بعد اس کے طرزِ عمل پر نگاہ رکھنی چاہیے۔ موجودہ عہدے پر براجمان رہتے ہوئے اگر اس کے کسی عمل سے سیاسی وابستگی کا کوئی شائبہ ہوتا ہے تو ضرور آواز اٹھائی جا سکتی ہے۔ اُدھر دیکھا جائے تو پنجاب کی نگران حکومت نگران وزیراعلیٰ کی سربراہی میں گڈ گورننس کی عمدہ مثال قائم کر رہی ہے۔ پنجاب کی نگران حکومت ماضی کی حکومتوں کے ان تمام تعمیری منصوبوں کو جو سیاسی مصلحتوں اور دیگر خرابیوں کی وجہ سے موخر کردیے گئے تھے‘ پایۂ تکمیل تک پہنچا رہی ہے۔ عوام کو مستقبل قریب میں ہونے والے الیکشن پر نگاہ رکھنی چاہیے تاکہ وہ اپنے ووٹ سے ایسی قیادت کا انتخاب کر سکیں جو صحیح معنوں میں ان کی ہمدرد اور غمخوار ہو‘ جو عوام کے ساتھ ساتھ ملک کی حالت بھی بہتر بنا سکے۔ اگر آئندہ انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی قیادت سے بھی انہیں کوئی شکایت ہوئی تو اس کی تمام تر ذمہ داری عوام پر ہی عائد ہو گی جن کے ووٹ سے منتخب ہو کر وہ قیادت ایوانوں تک پہنچے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں