"KDC" (space) message & send to 7575

گرینڈ مذاکرات کا اہتمام کریں

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے فیض آباد دھرنا ازخود نوٹس کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی نظرِثانی کی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کر دی گئیں اور 28 ستمبر کو چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں کیس کی سماعت شروع ہو رہی ہے۔ نظرثانی کے درخواست گزاروں میں وزارتِ داخلہ‘ پیمرا‘ آئی ایس آئی‘ آئی بی‘ تحریک انصاف‘ ایم کیو ایم اور شیخ رشید شامل ہیں۔امید ہے کہ اس کیس کی سماعت کے دوران اہم ریمارکس دیے جائیں گے۔ ادھر اسلام آباد کے حلقوں میں خبریں گردش کر رہی ہیں کہ بین الاقوامی میڈیا اس کیس پر گہری نظریں جمائے ہوئے ہے۔ اسی پس منظر میں قومی اداروں نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کے ذریعے فیض آباد دھرنا کیس کو چیلنج کیا ہے اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ ریاستی اداروں کی طرف سے سیاست میں ملوث ہونے کا الزام مبہم اور حقائق کے برعکس ہے اور وزارتِ دفاع کا مؤقف بھی یہی ہے کہ اس کیس کی ازسرِنو سماعت سے ملکی اداروں کی کارکردگی پر گہرا اثر پڑے گا اور مورال ڈاؤن ہوگا۔ بصد احترام چیف جسٹس آف پاکستان کو نظرِثانی کی اس درخواست کو ٹیکنیکل بنیاد پر اپنے ممبرز میں ہی فیصلہ کر کے داخل دفتر کرنا چاہیے تھا۔مجھے حیرانی ہے کہ تحریک انصاف کے رہنما قاسم سوری کی نااہلی کا کیس سپریم کورٹ میں ابھی تک زیر التوا ہے۔ قاسم سوری کو بلوچستان الیکشن ٹریبونل نے قومی اسمبلی کی نشست سے محروم کیا تھا اور سپریم کورٹ نے 2019ء میں حکم امتناعی جاری کیا تھا یوں قاسم سوری کی نشست بحال رہی اور وہ قومی اسمبلی کے ممبر اور ڈپٹی سپیکر رہے ۔ممکن ہے قابلِ احترام چیف جسٹس آف پاکستان 2019ء کے اس کیس پر توجہ دیں ۔ بہرحال اہم حلقے فیض آباد دھرنا کیس کی نظرثانی اپیلوں کی سماعت میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں اور قوی امکان ہے کہ 28ستمبر کو سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت کے دوران جو ریمارکس دیے جائیں بھارتی میڈیا ان کو اُجاگر کرے ۔
ملک میں آئندہ انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا اعلامیہ جاری ہو چکا ہے۔ نو اگست کو قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد نگران سیٹ اَپ اور الیکشن کمیشن کی طرف سے حلقہ بندیوں اور نئی ووٹرز لسٹوں کی تیاری کے فیصلے پر بعض سیاسی جماعتوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عام انتخابات ایک سال تک مؤخر ہونے کا جو تاثر لیا تھا‘ الیکشن کمیشن کے اس بیان کے بعد ان قیاس آرائیوں کا ازالہ ہو چکا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ27 ستمبر کو حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرستوں کا اجرا کر دیا جائے گا اور اس کے اگلے ہفتہ میں ان پر اعتراضات اور تجاویز کی سماعت کے مرحلے سے گزرتے ہوئے 30 نومبر کو حلقہ بندیوں کی فہرست حتمی طور پر شائع کر دی جائے گی۔ اس طرح 54 روز بعد جنوری کے آخری ہفتہ میں انتخابات کی تاریخ کا الیکشن کمیشن نے کہہ دیا ہے۔ غالباً 23 جنوری 2024ء کو انتخابات ہو سکتے ہیں ۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی جہاں نگران حکومت کی مدت کو غیرمعمولی طول دینے جیسی افواہیں دم توڑ گئی ہیں وہیں سماجی اور قانونی حلقوں میں یہ بحث بھی شروع ہوگئی ہے کہ آیا الیکشن کمیشن کا یہ اعلان آئین سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔ سامنے آنے والے خدشات کی وجوہات میں احتساب عدالتوں کا دوبارہ متحرک ہونا‘ سیاست دانوں کے سابقہ کیسوں کا دوبارہ کھلنا اور ماضی کی طرح ان کا احتسابی عمل سے گزرنا شامل ہے۔ انتخابات کی تاریخ سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جنوری کے آخری ہفتہ میں انتخابات کرانے کا عندیہ دیا ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں الیکشن کا معاملہ طول پکڑ سکتا ہے۔ تاہم دوسرے زاویے سے پارلیمنٹ سے ایکٹ کی منظوری کی روشنی میں انتخابات جنوری 2024ء کے آخر میں عین ممکن ہیں جبکہ مخالف حلقے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعلان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں مانتے کیونکہ بقول ان کے یہ آئین اور انتخابات کے شیڈول کا حوالہ دیے بغیر کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے معلق افواہوں اور قیاس آرائیوں کے خاتمہ کے لیے 30نومبر سے پہلے الیکشن شیڈول کے متعلق الیکشن کی تاریخ کا حتمی طور پر کہہ دیا ہے اور اسی حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابات کے مراحل سے گزر رہا ہے۔
پاکستان اس وقت معاشی لحاظ سے شدید دباؤ میں ہے‘ آج ایشیا کے 46ممالک میں پاکستان کی معیشت 43 ویں نمبر پر ہے۔ بھارت میں مہنگائی کی شرح 7.8 فیصد اور بنگلہ دیش میں تقریباً دس فیصد ہے جبکہ پاکستان میں مہنگائی 27فیصد سے آگے جا چکی ہے۔پاکستان میں مالیاتی خسارہ 7.5 فیصد اور جاری اخراجات کا خسارہ 1.5 فیصد ہے۔ بھار ت میں زرِمبادلہ کے ذخائر 600 ارب ڈالر‘ بنگلہ دیش میں 23 ارب ڈالر جبکہ پاکستان میں زرمبادلہ کے کل ذخائر سات ارب ڈالر ہیں۔ بھارت میں ڈالر کی شرح تبادلہ 83 بھارتی روپے اور بنگلہ دیش میں 109 ٹکہ کے برابر ہے جبکہ پاکستان میں انٹربینک میں ڈالر کی قیمت 300 روپے سے کچھ ہی کم ہے۔ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں ساڑھے نو کروڑ افراد کے خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ عالمی بینک نے یہ بھی کہا ہے کہ گزشتہ مالی سال میں غربت 39.4 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور مزید سوا کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں میں تقریباً چالیس فیصد بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں اور دو کروڑ سے زائد بچے اس وقت سکولوں سے باہر ہیں یہ تعداد پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ الغرض یہ کہ پاکستانی اس وقت چاروں طرف سے خطرات میں گھرے ہوئے ہیں اور انتخابات اگر منصفانہ اور آزادانہ نہ ہوئے اور سب سیاسی جماعتوں نے انہیں قبول نہ کیاتو انتخابات کی مشق پر خرچ ہونے والے ملک کے 50ارب روپے ڈوب جانے کا خطرہ ہے۔
ان حالات میں انتخابات سے بیشتر سیاسی جماعتوں میں مفاہمت اور اعتماد کا تعلق بحال کرنا ہوگا ورنہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا 82 نکات پر مشتمل ضابطۂ اخلاق انتخابی فساد میں ہوا میں اُڑ جائے گا۔ بیورو کریسی اور امن و امان کو برقرار رکھنے والے ادارے نگران حکومت کے محدود کردار کی وجہ سے خاموش تماشائی بنے رہیں گے اور عدالتیں ابھی پہلے سے زیر التوا کیسوں کے دباؤ میں ہیں۔ ان معاملات میں چیف جسٹس آف پاکستان جن پر قوم اعتماد کرتی ہے‘ آگے بڑھیں اور اپنی سربراہی میں عظیم تر ڈائیلاگ کے ذریعے درمیانی راستہ نکال کر انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان کر دینا چاہیے اور گرینڈ مذاکرات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اور چیئرمین سینیٹ‘ قومی اسمبلی کے سپیکر اور حساس اداروں کی نمائندگی بھی ہونی چاہیے اور اس مقصد کے لیے نگران وزیراعظم اور چاروں صوبائی حکومتوں کے نگران وزرائے اعلیٰ صاحبان کو بھی خصوصی طور پر مدعو کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں