"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کی طرف پیش رفت

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک میں آئندہ عام انتخابات کی طرف مثبت پیش رفت کرتے ہوئے‘ نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نئی حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرستیں الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 18‘ 19اور 20کے تحت جاری کر دی ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 272سے کم ہوکر266ہو گئی ہے جبکہ ایک حلقے میں ووٹروں کی تعداد 8لاکھ سے زائد رکھی گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی کی کل جنرل نشستوں کی تعداد 297 ہی برقرار رکھی گئی ہے۔ سندھ اسمبلی کی کل جنرل نشستوں کی تعداد 130 ہے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں کل جنرل نشستوں کی تعداد 115جبکہ یہاں حلقوں میں ووٹروں کی تعداد تین سے پانچ لاکھ کے درمیان ہے۔ بلوچستان اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد 51جبکہ حلقوں میں ووٹروں کی تعداد دو سے چار لاکھ کے درمیان رکھی گئی۔ پنجاب میں گوجرانوالہ سے ایک جبکہ مظفر گڑھ سے قومی اسمبلی کی دو نشستیں کم کی گئی ہیں۔ کراچی کے ضلع جنوبی میں قومی اسمبلی کی ایک نشست کا اضافہ ہوگیا ہے جبکہ سانگھڑ کی قومی اسمبلی کی نشستیں تین سے کم ہوکر دو رہ گئیں ہیں۔صوبائی اسمبلی سندھ کی نشستوں میں بھی ردوبدل ہوا ہے جس کے مطابق کراچی شرقی‘ وسطی اور ملیر کی ایک ایک نشست بڑھ گئی ہے جبکہ خیر پور‘ سانگھڑ اور ٹھٹھہ کی ایک ایک نشست کم ہوگئی ہے۔خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں آئین کے آرٹیکل 106کے مطابق حسبِ معمول برقرار رہیں گی لیکن پختونخوا میں پشاور اور ہنگو کا ایک ایک صوبائی حلقہ ختم کر کے چترال اور باجوڑ کا ایک ایک حلقہ بڑھا دیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن آئندہ عام انتخابات جنوری کے آخری ہفتہ میں کرانے کے لیے متحرک ہو چکا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کی طرف سے 17 اگست کو جاری کردہ شیڈول کے مطابق حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست سات اکتوبر کو مکمل کی جانی تھی جبکہ حتمی فہرستیں 14دسمبر تک شائع کی جانی تھیں ‘تاہم یکم ستمبر کو الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کی تکمیل کا وقت 14 دن تک کم کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ اس عمل کو 14 دسمبر کے بجائے 30 نومبر تک مکمل کیا جا سکے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق متعلقہ حلقے کے ووٹرز حلقہ بندیوں پر تجاویز اور اعتراضات 28 ستمبر سے 27 اکتوبر تک دائر کرواسکتے ہیں جن پر 26 نومبر تک فیصلہ کردیا جائے گا اور پھر 30 نومبر کو حتمی حلقہ بندیوں کی فہرست جاری کی جائے گی۔حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرستوں کا مقررہ تاریخ پر اجرا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن آئندہ عام انتخابات کے جنوری میں انعقاد کے لیے کسی قدر سنجیدہ ہے۔ الیکشن کمیشن نے وفاق اور صوبوں کی عبوری حکومتوں کی نگرانی میں آئین و قانون کے مطابق آئندہ عام انتخابات کا انعقاد کروانا ہے۔ اس دوران الیکشن کمیشن کو آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت تمام اداروں کی معاونت حاصل رہے گی۔ بین الاقوامی مبصرین ان انتخابات کو بہت ہی قریب سے دیکھیں گے اور پھر اپنی مطالعاتی رپورٹ تیار کریں گے۔ وفاقی کابینہ میں ایسے مؤثر سیٹ اَپ کی ضرورت ہے جو مقامی اور بین الاقوامی مبصرین کو الیکشن رُکنیت‘ رولز اور ضابطہ اخلاق کے حوالے سے مطمئن کر سکے۔حکومت کو ادراک ہونا چاہیے کہ بھارت دیگر معاملات کی طرح انتخابی جائزہ کے لیے بلائے جانے والے بین الاقوامی مبصرین پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے اور پاکستان کے انتخابی عمل کو متنازع بنانے کے لیے اُن سے اپنی مرضی کی رپورٹ بنوا سکتا ہے۔حکومت کو اس امر کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔قومی مفاد اور مستحکم سیاسی و جمہوری مستقبل کا تقاضا ہے کہ ہمارے تمام طبقات انتخابی ہار جیت سمیت تمام حقائق کو جمہوری اندازِ فکر کے مطابق تسلیم کریں۔ اس کے لیے سیاستدانوں‘ مبصرین اور صحافی حضرات کو ذہنی کشادگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔اگر کسی سیاسی جماعت کی طرف سے آئندہ عام کی شفافیت پر کوئی سوال اٹھتا ہے تو خدانخواستہ قومی اسمبلی کے اگلے ٹینیور کے دوران بھی ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار رہے گا۔ اور یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ جب تک ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار رہے گا تب تک معاشی استحکام ایک خواب ہی رہے گا۔ اگر معیشت یوں ہی زبوں حالی کا شکار رہتی ہے تو آئندہ عام انتخابات کے بعد بھی عوام کے معاشی حالات ایسے ہی دگرگوں رہیں گے۔ الیکشن کمیشن اپنے تئیں آئندہ عام انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھ رہا۔ دیکھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی یہ کوشش کس حد تک ثمر بار ثابت ہوتی ہیں۔
اب بات کرتے ہیں ایک حالیہ سروے کی۔ جولائی میں کرائے گئے اس سروے کے مطابق ملک میں دیگر تمام اداروں کے مقابلے میں فوج کی مقبولیت سب سے زیادہ 88 فیصد ہے۔سروے کے مطابق عوام کو میڈیا اور عدالتوں پر 56 فیصد تک بھروسا ہے‘ تاہم عمومی طور پر سیاستدانوں پر لوگوں کے بھروسے کی سطح صرف 39 فیصد‘ پارلیمنٹ پر 47 فیصد‘ الیکشن کمیشن پر 42 فیصد اور پولیس پر 54 فیصد ہے۔ دیکھا جائے تو بھروسے کے لحاظ سے میڈیا اور عدالتوں کی ریٹنگ اور سکور بہتر ہے۔ سروے میں یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ آپ سرکاری اداروں کے کام کرنے کے انداز سے کس حد تک مطمئن یا غیر مطمئن ہیں۔ صوبائی سطح پر دیکھیں تو پنجاب میں فوج کی مقبولیت کی سطح 90 فیصد‘ سندھ میں 88 فیصد‘ خیبرپختونخوا میں 91 فیصد جبکہ بلوچستان میں 66 فیصد ہے۔ پنجاب میں سیاستدانوں کی مقبولیت کی سطح 43 فیصد‘ سندھ میں 34 فیصد‘ خیبر پختونخوا میں 29 فیصد جبکہ بلوچستان میں 34 فیصد ہے۔ عمومی لحاظ سے دیکھیں تو سروے میں شامل لوگوں کی اکثریت نے سیاستدانوں کے لیے منفی رائے کا اظہار کیا ہے۔ میری سوچ اور تجزیہ اس سروے سے تھوڑا مختلف ہے۔ بہرحال سیاسی جماعتوں کو مستقبل کی حکمت عملی طے کرتے ہوئے اس سروے کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔
اگلے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم میٹا نے پاکستان میں آئندہ عام انتخابات سے متعلق اپنی فعال حکمت عملی کا اعلان کردیا ہے۔میٹا کی ایشیا پیسفک کے لیے مس انفارمیشن پالیسی کی سربراہ کا کہنا ہے کہ ان حکمت عملیوں میں الیکشن آپریشن ٹیم کی تشکیل‘ نقصان دہ مواد سے نمٹنے کے لیے مضبوط پالیسی‘ غلط معلومات کا سدباب‘ سیاسی اشتہارات کے لیے شفافیت میں اضافہ‘ ڈیجیٹل خواندگی اور شہریوں کے لیے تعلیمی پروگرام شامل ہیں جبکہ مضبوط پالیسیوں کی تشکیل‘ نیٹ ورکس اور شہریوں کے لیے تعلیم و تربیتی کے پروگرام بھی تیار کیے جائیں گے۔میٹا کی ایشیا پیسفک کے لیے مس انفارمیشن پالیسی کی سربراہ کے مطابق پاکستان کے آئندہ عام انتخابات کے لیے میٹا کے پاس متعلقہ موضوع کے ماہرین پر مشتمل ٹیم موجود ہے جو مقامی زبانیں بولنے والے پاکستانی شہریوں کے ساتھ مل کر ابھرنے والے خطرات کی نگرانی اور ردعمل دینے کے لیے ملکی قوانین اور حالات سے بہت زیادہ واقفیت رکھتی ہے۔بظاہر تو میٹا کے تربیتی پروگرام اور ووٹرز کی رہنمائی کی حکمت عملی مثبت دکھائی دے رہی ہے لیکن یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس کمپنی نے 2008ء‘ 2013ء اور 2018ء کے انتخابات میں اس حوالے سے کیا کردار ادا کیا تھا۔ ملکِ عزیز کے ایف آئی اے اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی جیسے متعلقہ اداروں کو بھی اس صورتحال کا بغور جائزہ لینا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں