"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن پلان پر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیے

پاکستان میں 18 سے 35 سال کی عمر کے ووٹروں کی تعداد میں 90 لاکھ سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح نوجوانوں کو اپنی انتخابی قوت کا اندازہ ہو گیا ہے‘ کہ ملکی آبادی میں ان کی نمایاں اکثریت نے انہیں ایک اہم طاقت میں تبدیل کر دیا ہے جو اگر پولنگ بوتھ آئے تو آئندہ انتخابات کے نتائج پر غیر معمولی اثرات مرتب کر سکتی ہے‘ لہٰذا سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ نوجوانوں کو سنجیدگی سے لیں اور اپنے انتخابی منشور میں ان کی دلچسپی اور مفادات کا خصوصی خیال رکھیں۔ ملک میں روزگار کے دروازے کھولنے کے علاوہ بیرون ممالک میں نوجوانوں کے روزگار کے لیے اُن ممالک سے خصوصی ریلیف کے معاہدے کریں‘ پاکستان میں بیمار صنعتوں کو مستحکم کریں اور پارٹی کے ٹکٹ بھی نوجوانوں کو ایوارڈ کیے جائیں۔انتخابی حمایت کے لیے عوام کو ان کی دہلیز پر ریلیف فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔ نوجوانوں کی انتخابی طاقت کا اندازہ سیاسی جماعتوں کو پولنگ کے دن بخوبی ہو جائے گا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ابتدائی حلقہ بندیوں کا غیرحتمی نوٹیفکیشن 27 ستمبر کو جاری کر دیا تھا البتہ عام انتخابات کی تاریخ کا باقاعدہ اعلان قانونی رکاوٹ کی وجہ سے نہیں ہوسکا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جنوری کے آخری ہفتہ کی نشاندہی کی ہے تاہم ممکن ہے کہ موسمی صورتحال کی وجہ سے الیکشن فروری کے پہلے ہفتہ میں ممکن ہو سکیں۔ بے یقینی کے اس عالم میں سیاسی جماعتوں نے باقاعدہ انتخابی مہم بھی شروع نہیں کی اور نواز شریف کی 21 اکتوبر کو پاکستان میں واپسی کا بھی انتظار ہے۔ ان کی پارٹی کی حکمت عملی یہی ہے کہ لاہور آمد پر نواز شریف کا10 اپریل 1986ء کو بے نظیر بھٹو جیسا استقبال ہو‘ اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) جلسے بھی کر رہی ہے لیکن دوسری سیاسی جماعتوں نے متحرک انداز میں سیاسی اجتماعات شروع نہیں کیے اور انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد انتخابی مہم کا قانونی طور پر پیریڈ 25دن سے زائد نہیں ہو گا لہٰذا سیاسی جماعتوں کی مہم کو اب باقاعدہ انتخابی مہم کی شکل اختیار کر لینی چاہیے۔ اس دوران یہ بحث بھی میڈیا کی زینت بن رہی ہے کہ بعض پارٹیاں یا ان کے لیڈر قانونی طور پر الیکشن میں حصہ لے سکیں گے یا ان کو غیر سرکاری طور پر'' ایبڈو‘‘ کر دیا جائے گا؟ نیز یہ کہ بین الاقوامی اور ملکی مبصرین ان سیاسی رہنماؤں کی غیر موجودگی میں انتخابات کے نتائج کو کس طرح دیکھیں گے؟ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے جس کے تبصروں پر اہم ممالک توجہ دیتے ہیںاور اس کے اثرات عدالتی حلقوں تک بھی محسوس کئے جاسکتے ہیں اور بین الاقوامی مبصرین بھی اس ادارے کی تاثرات کا بغور جائزہ لیتے ہیں۔
اس وقت کی انتخابی سیاست میں میاں نواز شریف اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا حوالہ خصوصی توجہ کا حامل ہے۔نواز شریف کی راہ میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے 27 جولائی 2017ء کے اہم فیصلے رکاوٹ ہیں جبکہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر سرکردہ رہنماؤں کے خلاف سنگین مقدمات درج کئے گئے ہیں جن کی موجودگی میں ان کے انتخابات میں شرکت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جونہی انتخابی شیڈول جاری کیا تو معاملات الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدلیہ کے دائرہ کار میں چلے جائیں گے۔ اگر کاغذاتِ نامزدگی داخل ہونے تک ان کے مقدمات کا فیصلہ نہ ہو سکا تو پھر اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی روشنی میں ہی عمل درآمد کیا جائے گا اور ماضی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اس بارے میں کئی اہم فیصلے صادر کر چکا ہے۔ 1988ء کے انتخابات میں غلام مصطفی جتوئی کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کیے گئے تھے اور ان کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے عبوری ریلیف دیا تھا جو بعد ازاں اگست 1990ء میں نگران وزیراعظم مقرر ہوئے تھے اور 1990ء کے انتخابی نتائج کی روشنی میں اسلامی جمہوری اتحاد کی جانب سے وزیراعظم بننا چاہتے تھے مگر کامیاب نہ ہو سکے اور نواز شریف ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ اس کا پس منظر پراسرار بھی ہے اور عبرت آموز بھی۔ مجھے غلام مصطفی جتوئی نے اس کی تفصیل بتائی تھی مگر اب اس کا دہرانا مناسب نہیں سمجھتا۔
پاکستان کے سخت سیاسی‘ معاشی و انتظامی اضطراب کے باوجود الیکشن جنوری کے آخری ہفتہ یا فروری کے پہلے ہفتہ میں منعقد ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور الیکشن میں آزاد امیدواروں اور دیگر سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی کامیابی کی صورت میں قومی اسمبلی میں اکثریتی جماعت کے تعاون سے حکومت سازی مکمل ہو سکتی ہے کیونکہ آزاد امیدوار سیاسی جماعتوں میں شمولیت کی ماضی کی روایت کو برقرار رکھیں گے۔تاہم یہ بھی واضح ہے کہ عوام نے مستقبل قریب کے عام انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہے‘ اس طرح ووٹنگ ٹرن آؤٹ میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہو سکتا ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بیلٹ بکسوں کی تعداد میں بھی اضافہ کرنا پڑ سکتا ہے۔اس طرح انتخابی دنگل پنجاب‘ سندھ اور خیبر پختونخوامیں حیرت انگیز طور پر نئی روایات کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ اگرچہ سیاسی جماعتیں غیر متاثر کن کردار ادا کر رہی ہیں لیکن نوجوان اپنے اپنے دائرہ کار میں متحرک ہو کر مستقبل کے الیکشن کی تیاری کر رہے ہیں۔دوسری جانب چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس بتا رہے ہیں کہ وہ اپنے تیرہ ماہ کے دور میں کچھ بڑے اور اہم فیصلے دے کر عدلیہ کی تاریخ میں اہم مقام حاصل کریں گے اور عدالتی نظام میں اہم اصلاحات کرکے جائیں گے۔ الیکشن شیڈول آنے پر ان کی توجہ ریٹرننگ آفیسرز کی کارکردگی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی غیر جانبدارانہ پالیسی پر بھی مرکوز رہے گی۔توقع کی جاتی ہے کہ پولنگ کے دن پر بھی ان کی خصوصی توجہ رہے گی اور نتائج آنے کے بعد عوامی ردعمل‘ ملکی میڈیا اور بین الاقوامی مبصرین کی رائے کو بھی مدنظر رکھیں گے‘ جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابی رٹ کو برقرار رکھنے کے لیے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ نو کے مطابق متحرک رہے گا اور ایسے نتائج کو کالعدم قرار دے دے گا جو الیکشن ایکٹ کی دفعہ نو کی زد میں آئیں گے۔ سیاسی جماعتوں کو انتخابی سرویز پر دارومدار نہیں کرنا چاہیے‘امریکہ میں بھی سابق خاتون اول ہیلری کلنٹن نے اپنے صدارتی الیکشن میں اس قسم کے سرویز کو رد کر دیا تھا کیونکہ سرویز کے برعکس انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پولنگ کے دن خصوصی سکیورٹی کا اہتمام کرنا ہو گا کیونکہ سوشل میڈیا پرپراپیگنڈے کے ذریعے انتشار کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے‘ لیکن شنید ہے کہ فیس بک کی کمپنی میٹا نے نفرت انگیز مہم کے ازالہ کے لیے خصوصی انتظامات کیے ہیں اور پولنگ کے نتائج آنے پر ہارنے والی سیاسی جماعت کے کارکنوں پر نظر رکھنا ہو گی۔ نگران حکومت کو بھی ان حالات میں سیاسی تبصروں اور سیاسی قیاس آرائیوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
پنجاب کی نگران حکومت کی توجہ گڈ گورننس کے اصولوں کے مطابق بیورو کریسی کی اصلاحات‘ تعمیر و ترقی کے کاموں‘ عوام کی سہولت کے لیے سرکاری ہسپتالوں کے معیار کی بہتری اور یونیورسٹیوں کے انتظامی امور میں اصلاحات کی طرف مبذول ہے۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے آنے والی حکومت کے لیے اچھی بنیاد قائم کر دی ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان آئندہ انتخابات کے لیے پُرعزم ہے۔ الیکشن کمیشن کو الیکشن پلان کے حوالے سے بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو بھی مدعو کر کرنا اور انہیں اعتماد میں لینا چاہیے اور لیول پلیننگ فیلڈ کو بھی واضح کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں