"KDC" (space) message & send to 7575

ایک اور وعدہ معاف گواہ

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف سائفر کیس میں ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان وعدہ معاف گواہ کے طور پر اعتراف کر چکے ہیں کہ عمران خان نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سائفر کی راز داری کوملحوظِ خاطر نہیں رکھا۔ عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے بعد اب سابق فارن سیکرٹری اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید بھی سائفر کیس میں وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے تحریری بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے امریکہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لُو کے ساتھ اپنی ملاقات کا احوال سائفر کے ذریعے معمول کے مطابق رپورٹ کیا۔ یہ ایک سادہ اور معمول کی خط و کتابت تھی لیکن کوڈڈ تھی۔ میرے سائفر میں کسی دھمکی اور سازش کا لفظ سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ سازش اور دھمکی جیسے معنی یہاں کی سیاسی قیادت نے خود سے اخذ کیے۔ چیئرمین تحریک انصاف کے سائفر معاملے نے پاکستان کے مواصلاتی نظام کی سالمیت‘ پاکستان کے سفارت کاروں کی ساکھ اور سفارت کاری کو نقصان پہنچایا ہے جس کے مستقبل کے سفارتی رپورٹنگ کلچر پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ سابق امریکی سفیر اور خارجہ امور کے سیکرٹری اسد مجید کے سائفر کے حوالے سے اعترافی بیان نے عمران خان کے مبینہ جرم کی سنگینی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ اسد مجید کے 161کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کے بھیجے گئے سائفر میں عمران خان کی حکومت کے خلاف کسی سازش کا معاملہ نہیں اٹھایا گیا تھا۔ عمران خان نے سیاسی فوائد کے لیے سائفر کو اپنے مفادات میں استعمال کیا تاکہ پی ڈی ایم کی عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو جائے۔ وزارتِ خارجہ کے سابق بیورو کریٹس نے بطور گواہ بتایا ہے کہ انہوں نے عمران خان کو آگاہ کیا تھا کہ سائفر افشا نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی طرف سے 161کے تحت جو بیان ریکارڈ کروایا گیا ہے اُس کے تناظر میں چیئرمین تحریک انصاف بند گلی میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اعظم خان نے مجسٹریٹ کے سامنے دیے گئے اپنے تحریری بیان میں بتایا کہ چیئرمین تحریک انصاف نے پاکستان آرمی کی ہائی کمان کے خلاف سائفر کو اپنے سیاسی مقاصد اور تحریک عدم اعتماد میں ریسکیو کیلئے خاص پلان کے تحت استعمال کیا۔ چیئرمین تحریک انصاف ریاستی اداروں پر تحریک عدم اعتماد میں مدد کے لیے دباؤ ڈالنا چاہتے تھے جبکہ سائفر کے حوالے سے سپیکر نے غیرقانونی رولنگ بھی چیئرمین تحریک انصاف کی ہدایات پر ہی دی تھی۔
سائفر کیس کی عدالت میں سماعت جاری ہے اور عدالتِ عظمیٰ قانون کے مطابق اس کیس کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس سننے والے جج کی تعیناتی اور جیل ٹرائل کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کردی ہے اورجج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین کی بطور آفیشل سیکریٹ ایکٹ خصوصی عدالت جج کی تعیناتی درست قرار دے دی ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج کی تعیناتی میں کوئی قانونی سقم نہیں ہے‘چیئرمین پی ٹی آئی کی جیل سماعت ان کی زندگی کو درپیش خطرناک کے پیش نظر کی گئی‘ یہ کہنا درست نہیں کہ این او سی جاری کرتے ہوئے اختیارات کا غلط استعمال ہوا جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی جیل ٹرائل کے خلاف خصوصی عدالت میں درخواست دائر کر سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے 27 جون 2023ء کا معزز جج ابولحسنات ذوالقرنین کی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت میں تعیناتی کا نوٹیفکیشن چیلنج کیا تھا۔ دراصل یہ تحریک انصاف کی حکمت عملی رہی ہے کہ کیس میں دلائل کے ساتھ پیش ہونے کے بجائے یا تو عدالتوں سے حکمِ امتناع حاصل کرنے کی کوشش کی جائے یا معزز جج صاحبان کے خلاف عدم اعتماد کی پٹیشن دائر کر دی جائے۔ فارن فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف نے تقریباً چار سال سے زائد عرصہ تک حکم امتناع حاصل کیے رکھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی اب ممنوعہ فنڈنگ کیس اور توہینِ الیکشن کمیشن کیس کو جلد منطقی انجام تک پہنچانے کا خواہاں نظر آتا ہے۔
وطن واپسی پر نوازشریف کی فوری گرفتاری کا خطرہ کسی حد تک ٹل گیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں گرفتار نہ کرنے کا حکم دے دیا ہے جبکہ احتساب عدالت نے بھی توشہ خانہ کیس میں سابق وزیراعظم کے وارنٹ گرفتاری 24اکتوبر تک معطل کردیے ہیں۔ بادی النظر میں یہی نظر آ رہا ہے کہ 24اکتوبر کو نوازشریف کی حفاظتی ضمانت ختم ہونے کے بعد آئندہ عام انتخابات کے تناظر میں سیاست میں توازن برقرار رکھنے کیلئے انہیں جیل جانا پڑ سکتا ہے۔بعد ازاں دائمی ضمانت کے حصول کیلئے وہ عدالتوں کے روبرو پیش ہو سکتے ہیں۔ میاں نواز شریف کیلئے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے الیکشن ایکٹ کی دفعہ232کا سہارا لینا کافی نہیں ہوگا۔اس تناظر میں میاں نوازشریف اپنے ان وکلا سے مشورہ کریں جن کے مفادات پارٹی سے منسلک نہیں ہیں اور ان کی نگاہیں صرف آئین کے مندرجات پر ہیں۔ یہ حقائق ایسے ہیں جن پر ان کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ میاں نوازشریف کو چاہئے کہ اپنے خلاف مقدمات کے خاتمے کیلئے ٹھوس دلائل کے ساتھ عدالت میں پیش ہوں۔
آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے متحرک ہونے کیساتھ ساتھ عدالت عظمیٰ نے بھی الیکشن کیس مقررہ تاریخ کو سننے کا عندیہ دیا ہے۔ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ عام انتخابات اورخصوصی عدالتوں میں ٹرائل کے کیس مقرر ہونے والے ہیں‘ جس دوران دیگر کیسز سننا مشکل ہو گا۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آئندہ انتخابات کے حوالے سے چیف الیکشن کمشنر کو عدالتِ عظمیٰ میں بلا کر انتخابی شیڈول کے بارے میں ان کی حتمی رائے بھی لی جائے۔ چیف جسٹس آف پاکستان بننے سے پیشتر بھی جسٹس فائز عیسیٰ نے مقامی حکومتوں کے الیکشن کے حوالے سے چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف سنا تھا اور چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان نے انتہائی غیر جانبدارانہ انداز میں بتا یا تھا کہ صوبائی حکومت مقامی حکومت کے الیکشن کرانے میں سنجیدہ نہیں ہے جس پر سابق حکومت ان سے ناراض ہو گئی تھی اور ان کے خلاف مہم شروع کردی تھی۔
اُدھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا ہے کہ میرا وعدہ ہے کہ اگلی پارلیمنٹ میں بھٹو کیس دوبارہ کھولنے کے لیے بل لاؤں گا اور جنہوں نے ان کے خلاف فیصلہ دیا تھا ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ بیرسٹر ظفر اللہ ممتاز قانون دان‘ سابق بیورو کریٹ اور علامہ اقبال ؒ کے شیدائی ہیں‘ ان کو ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے ہر دل عزیز سیاستدان تھے‘ ان کے خلاف مقدمہ جس نیت کے تحت بھی دائر کروایا گیا لیکن فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے دیا تھا۔ بیرسٹر ظفر اللہ خان کو مقدمے کی مندرجات اور فیصلہ پڑھ کر ہی اس حوالے سے کوئی بیان جاری کرنا چاہیے تھا۔ اس مقدمے میں لاہور ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق کا فیصلہ‘ جو انہوں اپنے کولیگ جسٹس آفتاب شیخ سے لکھوایا تھا اور آٹھ سو صفحات پر مشتمل تھا‘ میرے پاس ریکارڈ میں موجود ہے۔ اسی طرح سابق چیف جسٹس انوار الحق نے بھٹو صاحب کی سزائے موت کو برقرار رکھتے ہوئے جو فیصلہ لکھا تھا‘ اس کی تفصیل بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔ بیرسٹر ظفر اللہ خان کو ایسے کسی بھی بیان سے پہلے اس فیصلے کا جائزہ لینا چاہیے کہ آیا اس فیصلے میں قانونی تقاضے پورے کیے گئے تھے یا نہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں