"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابات 8فروری کو ہی ہوں گے

گزشتہ روز سپریم کورٹ میں ملک میں آئندہ عام انتخابات 90 روز میں کرانے کیلئے دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات کیلئے 11 فروری کی تاریخ دے دی تھی‘جس پر چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ وہ آج ہی اس معاملے پر صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے مشاورت کرکے کل (آج)عدالت میں الیکشن کی تاریخ سے متعلق آگاہ کرے۔بعد ازاں سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے صدر عارف علوی سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان نے ملاقات کی جس میں الیکشن کمیشن کے ارکان بھی موجود تھے۔یہ ملاقات ایک گھنٹے سے زائد جاری رہی جس کے حوالے سے پہلے یہ خبر آئی کہ اس دوران فریقین کی جانب سے کسی تاریخ پر اتفاق نہیں ہو سکا لیکن بعد ازاں ایوانِ صدر کی جانب سے یہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ تفصیلی بحث کے بعد اجلاس میں متفقہ طور پر ملک میں عام انتخابات 8 فروری 2024ء کو کرانے پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔
اس سے قبل چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے پیر کے روز پنجاب کے وزیراعلیٰ آفس کا دورہ کیا جہاں اُن کی اور نگران وزیراعلیٰ پنجاب سید محسن رضا نقوی کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں الیکشن کمیشن کے چاروں صوبائی ممبران اور پنجاب کابینہ نے شرکت کی جبکہ اجلاس میں آئندہ عام انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کے انتظامات اور پنجاب حکومت کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا۔چیف الیکشن کمشنر نے نگران حکومت کے انتخابات کے حوالے سے اقدامات سے مکمل طور پر اطمینان کا اظہار کیا۔ نگران پنجاب حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات کے پُرامن‘ آزادانہ اور منصفانہ انعقاد کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار بھی کیا جبکہ چیف الیکشن کمشنر نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ 30نومبر تک حلقہ بندیوں کا مرحلہ مکمل ہو جائے گا اور عام انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوں گے۔نگران پنجاب حکومت کو فری اینڈ فیئر الیکشن کیلئے مکمل سپورٹ کریں گے۔چیف الیکشن کمشنر نے 30نومبر تک حلقہ بندیوں کا مرحلہ مکمل ہونے کا جو عندیہ دیا ہے اُس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے سامنے آنے والی عذرداریاں‘ جو کہ 1328ہیں‘ مقررہ تاریخ تک سماعت کے مرحلے سے گزر جائیں گی اور بعدازاں بلاتاخیر الیکشن کا شیڈول جاری کردیا جائے گا۔پنجاب کابینہ نے آئندہ چار ماہ کے عبوری بجٹ کی آئین کے آرٹیکل 122‘ 123‘ 124 اور 126کے تحت منظوری دے دی ہے۔ اس سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ 8فروری تک انتخابات کرا دیے جائیں گے ۔یہ بہت اچھا‘ آئینی اور قانونی فیصلہ ہے۔چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے دیگر اراکین نے اس اجلاس کے دوران نگران پنجاب حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کا بھی جائزہ لیا۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب آئین کے آرٹیکل224اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 230کی روح کے مطابق نگران حکومت کے سیٹ اپ کو چلا رہے ہیں۔ انہوں نے صوبے میں تعمیر و ترقی کی ایک عمدہ مثال قائم کی ہے۔ امید ہے کہ آئندہ آنے والی حکومت بھی ان کے مثالی کاموں کو آگے بڑھائے گی۔
شفاف انتخابات یقینی بنانے کیلئے الیکشن کمیشن آف پاکستان ہر ممکن اقدامات کررہا ہے۔ آرمی اور رینجرز کے ایک لاکھ 50 ہزار جوان الیکشن کے دوران سکیورٹی ڈیوٹی پرآئین کے آرٹیکل220اور245کے تحت مامور ہوں گے۔ پنجاب میں 50 ہزار میں سے سات ہزار پولنگ سٹیشن حساس قرار دیے گئے ہیں اور یہ تمام اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ انتخابات مقررہ تاریخ پر ہی ہوں گے اور مزید التوا کا کوئی خدشہ نہیں۔ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل کرنے کا پابند ہے‘ عدالت میں تاریخ کا اعلان کرنا بڑا فیصلہ ہے‘ اب اس سے پیچھے ہٹنا ناممکن ہوگا۔8 فروری کو جمعرات ہے۔ تب تک موسم بھی بہتر ہو جائے گا کیونکہ بعض سیاسی جماعتوں نے جنوری میں سخت سرد موسم سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن فروری کے پہلے ہفتے تک اس موسم کا زیادہ تر حصہ ختم ہو جاتا ہے۔یوں جمہوریت کے لازمی تقاضے یعنی عوام کے ووٹوں کے ذریعے اگلی قومی و صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب وقتِ مقررہ پر ہو جائے گا۔ اب سیاسی پارٹیوں کو انتخابی ٹکٹ ایوارڈ کرنے کیلئے اپنے ایسے امیدواروں کا انتخاب کرنا چاہیے جو عوامی سطح پر اچھی شہرت کے حامل ہوں کیونکہ عوام باشعور ہو چکے ہیں اور ان کو گزشتہ حکومتوں کی کارکردگی کا مکمل طور پر ادراک بھی ہے۔ اگر سیاسی پارٹیوں نے انتخابی ٹکٹ عوام کے شعور کے برعکس ایوارڈ کیے تو ووٹر ان امیدواروں کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کریں گے۔
میڈیا ابھی سے مخصوص انداز میں کسی ایک جماعت کی کامیابی کے اندازے لگارہاہے۔ میرے اندازے کے مطابق انتخابی نتائج اس کے برعکس آئیں گے۔ مخالف سیاسی جماعتوں نے ایسی حکمت عملی تیار کر رکھی ہے جس کے تحت 1970ء کے انتخابی نتائج کی تاریخ دہرائی جائے گی۔ آزاد امیدوار ہی کامیاب ہوں گے اور ان کی معاونت سے ہی لیڈر آف ہائوس کا انتخاب ہوگا ۔ سیاسی پارٹیوں کو چاہیے کہ تجزیہ کاروں پر تکیہ نہ رکھیں‘ ووٹوں کی گنتی بھی بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے لہٰذا گنتی کے عمل پر نگاہ رکھیں۔ انتخابی بے یقینی ختم ہونے سے ہی ملک میں جمہوریت اور سیاسی استحکام آگے بڑھے گا۔مارچ کے پہلے ہفتے میں‘ 5 یا 6 مارچ کو‘ سینیٹ کی 51سیٹوں پر انتخابات ہوجائیں گے اور 12 مارچ 2024ء سے پیشتر چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات بھی ہو جائیں گے۔ پھر سینیٹ کے انتخابات کے فوراً بعد 15مارچ کے لگ بھگ صدرِ مملکت کے انتخاب کیلئے آئین کے آرٹیکل41 کے تحت شیڈول جاری ہوجائے گا اور 20 مارچ تک نئے صدرِ مملکت حلف اٹھا کر 23 مارچ 2024ء کو یومِ پاکستان کے موقع پر افواجِ پاکستان سے سلامی لیں گے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ جاری ہے۔ غزہ میں ہر گزرتے لمحے کے بعد صورت حال مزید سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ اسرائیل نے غزہ پر زمینی اور فضائی حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ اب تک قریب نو ہزار فلسطینی اسرائیلی بربریت کا نشانہ بن چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ اسرائیل کے مغربی اتحادیوں کی حمایت فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کا بنیادی موجب ہے جس کے نتیجے میں نہ غزہ میں کوئی ہسپتال محفوظ رہا ہے اور نہ پناہ گزینوں کے کیمپ محفوظ ہیں۔ القدس ہسپتال کو خالی کرانے کی تنبیہ اسرائیل کئی روز سے کررہا ہے۔ اس سے بڑی جارحیت کیا ہو سکتی ہے کہ جنگ کے دوران زخمیوں سے بھرے ہسپتالوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسی بربریت کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔ القدس ہسپتال کے اطراف میں بمباری اسرائیل کا ایک بڑا جنگی جرم ہے جبکہ غزہ کے اکلوتے کینسر ہسپتال کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔ ہسپتالوں پر بمباری کے بعد اب فلسطینی مہاجرین کے کیمپ اسرائیلی وحشت کا ہدف بنے ہوئے ہیں۔ اب تک جبالیہ کیمپ پر کم از کم دو حملے کیے جا چکے ہیں۔ دوسری طرف حماس کے جنگجوؤں نے جوابی حملوں میں اسرائیل کی خفیہ جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔ گوکہ اسرائیلی ڈیفنس فورسز غزہ کی پٹی میں زمینی کارروائی شروع کر چکی ہیں لیکن حماس نے غزہ میں سرنگوں کا ایک ایسا جال بچھا رکھا ہے کہ اسرائیلی فورسز چکرا کر رہ گئی ہیں۔ اگر یہ جنگ یونہی طول اختیار کرتی رہی تو یہ مشرقِ وسطیٰ کے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی‘جس کے براہِ راست اثرات پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی صورت میں پوری دنیا پر پڑیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں