"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کاطبل بج چکا

الیکشن کمیشن آف پاکستان الیکشن کا طبل بجا چکا ہے اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے الیکشن پلان کے تحت کارروائی کو قانون اور آئین کے مطابق آگے بڑھا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 233کے تحت عام انتخابات کے لیے اپنے مجوزہ ضابطہ اخلاق کا ابتدائی ڈرافٹ تیارکرلیا ہے۔ اس ڈرافٹ میں ماضی کی روایات کو برقرار رکھا گیا ہے یعنی صدر‘ وزیراعظم‘ وزرا اور عوامی عہدیدار انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکیں گے جبکہ سینیٹرز و بلدیاتی نمائندے انتخابی مہم چلاسکیں گے۔انتخابی مہم کے دوران ترقیاتی سکیموں کے اعلانات‘ عدلیہ اورنظریۂ پاکستان کے خلاف گفتگو اور مہم پرپابندی ہوگی۔الیکشن کمیشن نے اپنے ضابطۂ اخلاق میں سینیٹرز و بلدیاتی نمائندوں کو انتخابی مہم چلانے کی جو سہولت اس دفعہ دی ہے‘ 2008ء کے الیکشن کی انتخابی مہم کیلئے ایسی کوئی سہولت موجود نہیں تھی۔ الیکشن کمیشن نے نومبر2007ء میں ملک بھر کے ناظمین اور بلدیاتی اداروں کو معطل کر دیا تھا۔ سینیٹرز اور بلدیاتی نمائندوں کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت ملنے کے بعد یہ مہمات کافی ثمر آور ثابت ہوں گی کیونکہ بلدیاتی نمائندوں کا اثرو رسوخ گراس روٹ لیول تک موجود ہوتا ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مقامی حکومتوں کے بارے میں جو پالیسی نومبر2007ء میں اختیار اور نافذ کی تھی‘ 2024ء کے انتخابات کے لیے بھی اسی کو اختیار کرنے کے بارے میں غورو فکر کرنا چاہئے۔مجوزہ ضابطہ اخلاق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور امیدوار ووٹرز کو رشوت‘تحائف یا کسی قسم کا لالچ نہیں دیں گے۔ مجوزہ انتخابی ضابطہ اخلاق میں سیاسی جماعتوں کیلئے جنرل نشستوں پر پانچ فیصد خواتین امیدواروں کو ٹکٹ دینا لازمی قرار دیا گیا ہے۔سیاسی جماعتوں کے جلسے‘جلوسوں اور عوامی اجتماعات میں اسلحے کی نمائش پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ سرکاری خزانے سے سیاسی و انتخابی مہمات چلانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ فرقہ وارانہ‘ لسانیت پر مبنی گفتگو اور کسی شہری کے گھر کے سامنے احتجاج یا دھرنے کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔ الیکشن ایجنٹ کا متعلقہ حلقے سے ہونا لازمی ہو گا۔ دیکھا جائے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 2024ء کے عام انتخابات کیلئے ضابطہ اخلاق مرتب کرتے ہوئے ماضی کے تجربات کو ہی مدنظر رکھا ہے۔
ایک طرف ملک میں الیکشن کا طبل بج چکا ہے تو دوسری طرف دہشت گردی کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے سے اب تک دہشت گردی کے پے در پے واقعات امن و امان کی صورتحال کو در پیش خطرات کی نشاندہی کرتے اور قومی سلامتی کے تحفظ کیلئے خصوصی اقدامات کی جانب تو جہ دلاتے ہیں۔پچھلے دو سال کے دوران ملک میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے متعدد واقعات میں افغان نژاد شدت پسند ملوث پائے گئے ہیں جبکہ افغانستان میں حاصل سہولتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹی ٹی پی نے اپنی سرگرمیاں کافی حد تک بڑھا لیں اور اپنے جیسے دیگر انتہا پسند گروہوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے پاکستان کی سلامتی کیلئے سنجیدہ خطرات پیدا کر رہی ہے۔اگلے روز نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک پریس کانفرنس میں اس حوالے سے چونکا دینے والے اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ نگران وزیر اعظم کے مطابق افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 60 فیصد اور خود کش حملوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس دوران پاکستان میں 2200 سے زائد افراد دہشت گردوں کے حملوں میں لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ملکی امن و سلامتی کیلئے یہ خطرات غیر معمولی ہیں کیونکہ ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد امن و امان کا قیام یقینی بنانا پہلے سے بھی زیادی ضروری ہو چکا ہے تاکہ عام انتخابات دہشت گردی کے عفریت سے کسی طور متاثر نہ ہو سکیں۔ گوکہ افواجِ پاکستان بیک وقت ان دہشت گرد اور شدت پسند عناصر کے خلاف برسر پیکار ہیں لیکن 2024ء کے انتخابات کے پُر امن انعقاد کے لیے بھی تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے زائد سکیورٹی اہلکاروں کی خدمات درکار ہوں گی۔ کیا ایسے حالات میں‘ جبکہ ملک میں دہشت گردی کا عفریت زور پکڑ رہا ہے‘ اتنی زیادہ تعداد میں سکیورٹی اہلکارالیکشن ڈیوٹی کیلئے وقف کیے جا سکیں گے؟ شنید ہے کہ اعلیٰ قیادت اس حوالے سے رواں ماہ کے آخر میں اجلاس منعقد کر سکتی ہے۔
ان دنوں سابق خاتون ِاول بشریٰ بی بی کی دیرینہ دوست فرح شہزادی کے اثاثوں میں صرف تین سال کے دوران چار ارب 52 کروڑ روپے اضافے کی خبر میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔ فرح شہزادی کے غیر ظاہری اثاثوں میں تین برسوں میں 15 ہزار 300 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ فرح شہزادی نے پی ٹی آئی حکومت کی ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے بھی بھرپورفائدہ اٹھایا اور رشوت کے طور پرلیا گیا 489 ملین روپے سے زائد کا کالا دھن ریگولائز کروایا۔عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ سے سبکدوشی اور اتحادی حکومت کے قیام کے بعد ہی فرح شہزادی کی کرپشن کی خبریں سامنے آنا شروع ہو گئی تھیں۔اس لیے اس حوالے سے ایک اہم سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ اتحادی حکومت نے اپنے 16ماہ کے اقتدار میں فرح شہزادی کے خلاف کیسز عدالتوں میں پیش کرکے انٹر پول کے ذریعے انہیں طلب کیوں نہیں کیا۔ فرح شہزادی کے بارے میں جو حقائق سامنے آ رہے ہیں‘ وہ بادی النظر میں درست ہیں لیکن اتحادی حکومت نے نجانے ان کے خلاف کارروائی سے کیوں گریز کیا۔اتحادی حکومت کے پاس وسیع تر اختیارات موجود تھے جبکہ نگران حکومت کا مینڈیٹ محدودہے۔پاکستان تحریک انصاف نے فرح شہزادی کی کرپشن سے متعلق رپورٹ سامنے آنے کے بعدان سے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے۔ 2018ء سے 2022ء تک عمران خان کی حکومت کے دوران اور ان کی سبکدوشی کے بعد تک کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں ‘وہ کرپشن کے کیسز سے بھرے پڑے ہیں۔ آج بھی وہی سب کچھ ہو رہا ہے‘ فرق صرف اتنا ہے کہ کل نشانہ کوئی اور تھا‘ آج کوئی اور ہے۔ ماضی میں بنائے گئے کیسز اب آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں۔سابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے فرح شہزادی کی معاونت سے اپنے دورِ اقتدار میں بیورو کریسی میں تقرر و تبادلوں اور ترقی کیلئے بھاری رشوت کی شرائط عائد کر رکھی تھیں اور افسر شاہی میں ایسے بہت سارے افسر موجود ہیں جو یہ شرائط پوری بھی کرتے رہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان چیف سیکرٹری پنجاب سے اُن بیورو کریٹس کی فہرست حاصل کرکے‘جنہوں نے اُس دور میں رشوت کے بل پر ترقی حاصل کی‘ انہیں الیکشن کی ڈیوٹی پر مامور نہ کرنے کے احکامات جاری کرے۔
اگلے روز لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں جرمن پولیٹکل فاؤنڈیشن ہینس سیڈل پاکستان کی طرف سے دیے گئے عشائیہ میں خطاب کے دوران میں نے یہ مدعا اٹھایا کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت آئین میں شامل کی گئی شق (A)63 آئین کی روح کے منافی اور پارلیمانی روایات سے متصادم ہے۔ پارلیمانی اور صدارتی نظام کے ناکام ہونے کی بہت سی وجوہات میں سے ایک آئینی ترمیمی بل کے معاملے میں پارلیمان کے ممبران کو اپنے ضمیر کے مطابق سوچ سمجھ کر آزادانہ فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہ ہونا ہے۔ (A)63 کے تحت ہر ممبر کو پابند کردیا گیا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کی منشا کے مطابق ووٹ دے۔ اگر وہ پارٹی پالیسی سے انحراف کرے گا تو اسے رکنیت سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ حالانکہ یہ خود پارلیمان کے ممبران کے اس حلف کے خلاف ہے جس میں وہ اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ وہ ہر حال میں آئین کا تحفظ کریں گے۔ اب یہ حق ممبر پارلیمان سے چھین کے پارٹی سربراہ کو دے دیا گیا ہے۔ اٹھارویں ترمیم سے پہلے اس سے ملتی جلتی کوششیں تیرھویں اور چودھویں ترامیم میں بھی کی جا چکی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں