"KDC" (space) message & send to 7575

صدرِ مملکت اور الیکشن کمیشن

گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن کا یہ بیان سامنے آیا کہ ایک اعلیٰ عہدیدارالیکشن کی شفافیت کومشکوک بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔نام لیے بغیر بیان میں کہا گیا کہ ملک کے اعلیٰ عہدیدار کا یہ طرزِعمل مناسب نہیں ہے جبکہ الیکشن کمیشن صاف وشفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے پُرعزم ہے۔بادی النظر میں الیکشن کمیشن کا اشارہ صدرِ مملکت کی طرف ہو سکتاہے جنہوں نے آٹھ نومبر کو نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے نام ایک خط میں لکھا تھا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے بنیادی حقوق اور سیاسی لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے خدشات پر غور کریں۔لیول پلیئنگ فیلڈ کا آئین کے آرٹیکل 218 کے مطابق بظاہر یہ مطلب ہے کہ آزادانہ‘ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ صدرِ مملکت کا ایسے حساس ترین معاملے پر وزیراعظم‘ جو خود بھی صدرِ مملکت کی طرح عبوری وزیر اعظم ہیں‘ کو خط لکھنا مناسب نہیں تھا۔ اس سے قبل صدرِ مملکت نے گزشتہ ماہ‘ جب الیکشن کا آٹھ فروری کو انعقاد کا اعلان نہیں ہوا تھا اور الیکشن کمیشن کی طرف سے جنوری کے آخری ہفتے کا اعلان کیا گیا تھا ‘ ایک انٹر ویو کے دوران کہا تھا کہ مجھے یقین نہیں کہ جنوری کے آخری ہفتے میں الیکشن ہوں۔صدرِ مملکت کو الیکشن نہ ہونے کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اب چونکہ الیکشن کمیشن عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر چکا ہے‘ ایسے میں اگر صدرِ مملکت کی طرف سے ہی الیکشن نتائج کے بارے کوئی منفی تبصرہ سامنے آتا ہے تو الیکشن کے مجموعی عمل پر اس کے شدید منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ صدرِ مملکت کے طرزِ عمل سے ایسا ظاہر نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کسی ایک سیاسی جماعت کے نمائندہ ہیں۔ 2013ء میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے پہلے اُس وقت کے صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے 2013ء کے انتخابات کو آر اوز کا الیکشن قرار دیا تھا۔ جس عہدے پر متمکن رہتے ہوئے انہوں نے یہ بیان دیا‘ اُس نے اس بیان کی حساسیت میں کافی اضافہ کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 2013ء سے 2018ء تک اس پانچ سالہ مدت میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا تھا جب اپوزیشن میں موجود سیاسی جماعتوں کی طرف سے 2013ء کے انتخابات کی شفافیت پر سوال نہ اٹھایا گیا ہو۔
صدرِ مملکت کو الیکشن کمیشن پر بھروسا رکھنا چاہیے۔آٹھ فروری کے انتخابات شفاف اور غیر جانبدارانہ ہی ہوں گے۔ انتخابی ضابطہ اخلاق پر عمل در آمد کرواناالیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔فروری 2024ء کے انتخابات کے انعقاد کے دوران ڈسکہ رپورٹ کی فائنڈنگز کو بھی مدِنظر رکھا جانا چاہیے۔ دراصل اس وقت ملک میں شدید انتخابی تنائو شروع ہو چکا ہے‘ ایسے حالات میں انتخابی عمل سے متعلق سیاسی جماعتوں میں تشویش پیدا ہو نا کوئی غیر معمولی امر نہیں لیکن اس ضمن میں بہتر یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابات کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات کی خود الیکشن کمیشن کے سامنے نشان دہی کریں۔ سیاسی جماعتیں ایسے افراد کو ٹکٹ ایوارڈ کریں جو اچھی شہرت کے حامل اور ووٹروں کیلئے قابلِ قبول ہوں۔ ان نہیں ٹکٹ دینے سے گریز کریں جو 1985ء سے اب تک کسی نہ کسی لبادے میں ہر پارٹی میں موجود رہے ہیں۔ اس بار ساڑھے پانچ کروڑ ووٹرز ایسے ہیں جو 35 سال سے کم عمر ہیں‘ پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ انہوں نے ہی آئندہ الیکشن میں پولنگ سٹیشنوں پر جا کر کرنا ہے۔
سابق نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اعظم خان کے انتقال کے بعدجسٹس (ر)ارشد حسین شاہ کو نیا نگران وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا تعینات کر دیا گیا ہے۔جسٹس(ر) ارشد حسین پشاور ہائی کورٹ کے جج اور گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس بھی رہ چکے ہیں۔ وہ آئین و قانون کے ماہر‘ غیر جانبدار اور نیک شہرت کے حامل ہیں۔ ان کی بطور نگران وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا تقرری کے بعد صوبے میں گورننس کا معیار بہتر ہو گا اور انتخابات میں بھی الیکشن کمیشن کو ان کی غیر جانبدارانہ حکمت عملی سے معاونت حاصل رہے گی۔ ویسے اگر گورنر کے پی ان کی تقرری سے پہلے آئین کے آرٹیکل 267 کا سہارا لیتے ہوئے صدرِ مملکت سے رائے حاصل کرلیتے تو حرج نہیں تھا۔ یہ تعیناتی گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی‘سابق وزیراعلیٰ محمود خان اور سابق اپوزیشن لیڈراکرم خان درانی کے درمیان اتفاقِ رائے کے بعد عمل میں لائی گئی کیونکہ آئین میں منتخب وزیراعلیٰ کی برطرفی یا انتقال کی صورت میں نئے وزیراعلیٰ کی تقرری کے حوالے سے تو واضح شقیں موجود ہیں لیکن نگران وزیراعلیٰ کے انتقال کی صورت میں آئین خاموش ہے۔اس لیے الیکشن کمیشن نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اس حوالے سے سابقہ طریقہ کارہی اختیار کیا جائے گا‘ یعنی آئین کے آرٹیکل 224 اور 224 اے کے تحت نگران وزیراعلیٰ کا انتخاب دوبارہ ہوگا۔اس طریقہ کار کے مطابق گورنر سابق وزیر اعلیٰ اور سابق اپوزیشن لیڈر کو خط لکھ کر تین‘ تین نام مانگتا ہے۔ ناموں پر اتفاقِ رائے نہ ہونے پر معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں جاتا ہے جس کا تقرر سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کرتے ہیں۔ کسی نتیجے پر نہ پہنچنے پر حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن کرتا ہے‘لیکن گورنر‘ سابق وزیراعلیٰ اور سابق اپوزیشن لیڈر کے پی میں اتفاقِ رائے کے بعد یہ معاملہ پہلے مرحلے میں ہی طے پا گیا۔ آئین کی خاموشی کے تناظر میں اس حوالے سے میری رائے یہ تھی کہ اس موقع پر سینیٹ کے قائدِ ایوان اور قائدِ حزب اختلاف کو اعتماد میں لیاجاتا کیونکہ آئینی طور پر سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختوخوا اور قائدِ حزب اختلاف کا عہدہ تو کب کا تحلیل ہوچکا ہے جبکہ سینیٹ کا ادارہ فعال ہے‘بہرحال یہ میری ذاتی سوچ تھی۔ مرحوم اعظم خان کو نگران وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ زمینی حقائق کے برعکس تھا۔ موصوف2018ء کے انتخابات میں نگران وزیر داخلہ تھے۔ 2018ء کے الیکشن میں آرٹی ایس فلاپ ہونے پر انہوں نے بطور نگران وزیرداخلہ اصل حقائق جاننے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اسی طرح جسٹس (ر)ناصر الملک نے بھی بطور نگران وزیراعظم کوئی مثالی کارکردگی دکھانے کے بجائے زیادہ تر وقت وزیراعظم ہائوس میں بیٹھے بیٹھے ہی گزار دیا۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کیلئے کہ وہ 14 اگست کو قومی سلیوٹ لے سکیں‘ انہوں نے انتخابات کے حتمی نتائج کے اعلان میں تاخیر سے کام لیا۔ الیکشن کمیشن نے بھی ان کی اس خواہش کی تکمیل میں ان کا ساتھ دیا تھا کیونکہ موصوف چند مہینوں کیلئے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر بھی رہ چکے تھے۔ آئندہ انتخابات میں وفاقی اورصوبائی نگران حکومتوں کو الیکشن کے ایک ایک مرحلے پر گہری نظر رکھنا ہوگی کیونکہ اگر اس بار الیکشن میں بے قاعدگی ہوئی تو عوام کا ردِ عمل کافی شدید ہوسکتا ہے۔
جب بھی عالمی سطح پر کوئی جنگ یا تصادم ہوتا ہے تو دنیا کی نظریں اقوامِ متحدہ کی جانب ہی اٹھتی ہیں کہ یہ عالمی ادارہ جنگ بندی میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس وقت بھی حماس‘ اسرائیل جنگ کے حوالے سے یہی صورت حال درپیش ہے۔ یہ یکطرفہ جنگ اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے ۔ غزہ میں جس طرح مظلوم نہتے فلسطینیوں کا قتلِ عام ہورہا ہے‘ اس پر انسانیت غمگین اور شرمسار ہے۔اسرائیلی بربریت کی ہر ملک میں مذمت کی جارہی ہے لیکن یہ جنگ کسی بھی طرح رُکنے میں نہیں آرہی۔ جب فلسطینیوں کے ایک الگ وطن کے حوالے سے قرارداد موجود ہے تو پھر اقوامِ متحدہ اس پر عملدرآمد کیوں نہیں کروا پا رہی۔ اقوامِ متحدہ کو اب کھل کر اور مضبوط ہاتھوں سے غزہ میں جنگ بندی اور فلسطینیوں کے آزاد وطن کے قیام کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ غزہ کی صورتحال پر عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے مشترکہ سربراہی اجلاس میں اسلامی ممالک کے سربراہان نے اسرائیل کے حقِ دفاع کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیاہے لیکن بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ مسلم ممالک کے سربراہان کا یہ اقدام اسرائیلی جارحیت کے آگے بند نہیں باندھ سکے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں