"KDC" (space) message & send to 7575

عام انتخابات کی تیاریاں…(2)

علما و مشائخ کی طرح سیاسی جماعتوں کے نمائندہ وفد کو بھی ملکی سالمیت اور وحدت بارے بریف کرتے ہوئے مفاہمت کی طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے۔یہ بھی واضح کرنا چاہیے کہ جن سیاسی رہنماؤں کے خلاف عدالتوں میں مقدمات زیرِ سماعت ہیں‘ ان مقدمات کے حتمی فیصلے آنے تک وہ متبادل قیادت کے ذریعے اپنی پارٹی کے امور چلاتے رہیں۔ اگر پولنگ کے دوران کسی سیاسی جماعت کی طرف سے کوئی ہنگامہ آرائی کی جاتی ہے یا پولنگ کے نتائج سامنے آنے کے بعد انتخابات کو صرف سیاسی مفادات کشید کرنے کیلئے دھاندلی زدہ قرار دیا جاتا ہے تو اس سے ملکی نظام پر کاری ضرب لگ سکتی ہے۔ ملک کا آئین واضح ہے کہ ریاست کا مفاد اوّلین حیثیت رکھتا ہے جبکہ آئین کی حیثیت ثانوی ہے۔سیاسی جماعتوں کوبھی ملک کی وحدت کی خاطر یہ قربانی دینی چاہیے۔ جن رہنماؤں کو مختلف مقدمات بالخصوص کرپشن کے مقدمات میں سزائیں ہوچکی ہیں‘ وہ اب قانون میں موجود سقم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے الیکشن میں دوبارہ حصہ لینے سے گریز کریں۔
جمہوری ممالک میں عام انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے سامنے آتی ہیں اور ایک دوسرے کی کارکردگی‘ کرپشن‘ عیاشیوں‘ اقرباپروری اور اثاثوں کے بارے میں عوام کو آئینہ دکھاتی ہیں‘ لیکن اس مقصد کے لیے گالم گلوچ اور نفرت کا سہارا نہیں لیتیں۔ ہاں انتخابی مہمات کے دوران مخالفین پر سیاسی الزامات دنیا کے دیگر ممالک میں بھی لگتے ہیں لیکن اس کے اثرات اس قدر خطرناک نہیں ہوتے جس قدر ہمارے ہاں ہوتے ہیں۔ اس سے ایک طرف تو ملک میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران شدت اختیار کر جاتا ہے اور دوسری انتہائی خطرناک بات یہ بھی ہے کہ اس نفرت انگیز مہم سے ریاستی ادارے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس الزام تراشی کابڑا سبب یہ ہے کہ اب سیاسی جماعتوں کا سیاست کے لیے نہ صرف عوام پر انحصارکم ہو گیا ہے بلکہ اب تو وہ حقیقی مسائل کی سیاست بھی نہیں کرتیں اوراقتدار کیلئے صرف مقتدر حلقوں کی طرف دیکھتی ہیں۔بہرحال امریکی سفارت کار نے جن سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں‘ ان کو ملک کے سیاسی ماحول کا آئینہ بھی دکھا دیا ہے کہ وہ عوام کو کوئی نیا جھانسہ نہ دیں اور پارٹی منشور کے مطابق اپنی سیاسی مہم چلائیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد اپنے مؤقف کو بار بار تبدیل نہ کریں۔
جس طرح سٹیج پر فنکار مختلف روپ دھار کر ہنسی مذاق کرکے چلتا بنتا ہے‘ ہمارے ملک میں ویسے ہی سیاستدان الیکشن سے پہلے مختلف روپ دھارکر اپنی بھرپور انتخابی مہم چلاتے ہیں اور انتخابات کے بعد منظر سے غائب ہو جاتے ہیں‘ لیکن اب سیاستدانوں کو سیاسی اداکار نہیں بلکہ عوام کا حقیقی خدمت گار بننا ہوگا۔ یہ عوام ہی ہوتے ہیں جن کے ووٹوں سے سیاستدان اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے ہیں۔ اگر وہ انتخابات میں کامیابی کے بعد عوام سے ناتا توڑ لیں گے تو عوام بھی آئندہ اُن پر اعتماد نہیں کریں گے۔ پاکستان کے عوام سیاست کے حوالے سے اتنے باشعور ہو چکے ہیں کہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کون محض انتخابات کے انعقاد تک اُن کے درمیان رہے گا اور الیکشن جیتنے کے بعد انہیں یکسر بھول جائے گا اور کون الیکشن جیتنے کے بعد بھی نہ صرف ان کے درمیان موجود رہے گا بلکہ ان کے مسائل بھی حل کرے گا۔ گوکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں کی قیادت کا انتخابی جوڑ توڑ کے لیے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے‘ لیکن ابھی تک کسی سیاسی جماعت نے اپنے انتخابی منشور کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے۔ عوام کے سامنے اپنا انتخابی منشور رکھے بغیر سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم کیسے چلا سکتی ہیں۔ انتخابی منشور کسی بھی سیاسی جماعت کا وہ فریم ورک ہوتا ہے جس میں عوام کو بتایا جاتا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد اُن کے مسائل کو کیسے حل کیا جائے گا۔
سابق امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے ساؤتھ ایشیا رابن رافیل نے اپنے مختصر دورے کے دوران اسلام آباد میں ایسی غیر سرکاری تنظیموں کے سربراہوں سے ملاقات کی ہے جن کی پاکستان کے انتخابات پر گہری نظر ہے۔ میں نے ان سے ملاقات کے دوران انہیں پاکستان کے انتخابی عمل کی شفافیت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے الیکشن روڈ میپ بارے بریف کیا۔میں نے ان کے سامنے 2002ء‘ 2008ء‘ 2013ء اور 2018ء کے انتخابات کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا۔ بطور مشیر برائے قانون و پارلیمانی امور حکومتِ پنجاب میں نے رابن رافیل کو پنجاب حکومت کی کارکردگی پر بھی بریف کیا ۔میں نے انہیں بتایا کہ کس طرح پنجاب حکومت کی خصوصی کاوشوں سے آٹھ مہینے کے مختصر عرصے کے دوران وہ تمام ترقیاتی کام مکمل ہونے کے قریب ہیں جو سابقہ حکومتیں دس سال کے عرصے میں بھی مکمل نہ کر سکیں۔وہ میری الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پنجاب حکومت کی غیر جانبدارانہ پالیسی پر بریفنگ سے مطمئن نظر آئیں۔ میری اطلاع کے مطابق بعض دانشوروں نے رابن رافیل سے ملاقات کے دوران نگران وفاقی حکومت کی کارکردگی پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ بہرحال میں اس ملاقات کے بعد یہ کہہ سکتا ہوں کہ رابن رافیل پاکستان کومعاشی اور جمہوری لحاظ سے مضبوط اور مستحکم دیکھنے کی خواہاں ہیں۔
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ و سپیکر قومی اسمبلی اور ملک کے ممتاز سیاست دان گوہرایوب خان طویل عدالت کے بعد خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں۔ گوہر ایوب خان سے میرا دیرینہ تعلق تھا جوکہ میرے زمانۂ طالب علمی سے چلا آ رہا تھا۔ وہ انتہائی نفیس‘ محب وطن اور اعلیٰ وضع داری کے حامل سیاست دان تھے۔میں نے گوہر ایوب خان کے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد جنرل (ر) حمید گل سے ملاقات کے دوران گوہر ایوب خان کو وزیر اعظم بنانے کی تجویز دی تھی۔ اُن دنوں میری پوسٹنگ ملتان ڈویژن میں تھی اور جنرل (ر) حمید گل تب ملتان ڈویژن کے ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور کور کمانڈر ملتان تھے۔ جنرل (ر) حمید گل نے ضیاء الحق کو رام کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن ضیاء الحق صاحب پیر پگاڑا کے سحر میں مبتلا تھے اور انہوں نے پیر پگاڑا کی ایما پر محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم نامزد کر دیا۔ اگر گوہر ایوب خان وزیر اعظم بن جاتے تو ضیاء الحق صاحب کو 28 مئی 1988ء کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اگر وہ اسمبلی اپنی مدت پوری کر لیتی تو اگلے انتخابات مارچ1990ء میں اپنی مقررہ مدت پر ہوتے‘ اس سے ملک کا نقشہ ہی تبدیل ہوجاتا۔ اسی طرح جب 1992ء میں وزیراعظم نواز شریف کے اُس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوئے تو جنرل آصف نواز جنجوعہ نے تب کے سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب خان کو واضح طور پر یہ اشارہ دے دیا تھا کہ وہ سیاسی نظام لپیٹ رہے ہیں۔ تب گوہر ایوب خان کو نگران وزیر اعظم بننے کی پیشکش بھی کی گئی تھی جس سے گوہر ایوب خان نے انکار کردیا اور نواز شریف سے اپنی وابستگی ترک نہیں کی اور اپنے اس اقدام سے اپنے قریبی رشتہ دار صدر غلام اسحاق کو بھی ناراض کر دیا ۔بعد ازاں 1997ء میں مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں حکومت قائم ہوئی تو وہ ملک کے 20 ویں وزیرخارجہ مقرر ہوئے اور 7 اگست 1998ء کو ان کو وزارتِ خارجہ سے ہٹا کر وفاقی وزیر پانی اور بجلی مقرر کیا گیا ۔گوہر ایوب خان ایک بااصول سیاستدان تھے‘اللہ تعالیٰ ان کی لحد پر شبنم افشانی کریں۔آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں