"KDC" (space) message & send to 7575

تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن

الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو الیکشن رولز کی دفعہ 200کے تحت متنازع اور قابلِ اعتراض قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا ہے اور بلے کے انتخابی نشان کیلئے تحریک انصاف کو بیس روز میں الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 207اور 208اور الیکشن رولز کی دفعہ 200کی شق چار کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی ہدایت کی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اگر تحریک انصاف بیس روز میں انٹرا پارٹی الیکشن کرانے میں ناکام رہی تو اس کا انتخابی نشان ''بلا‘‘ واپس لیے جانے کیساتھ ساتھ ضابطے کے مطابق مزید کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔ دراصل تحریک انصاف میں اندرونی اختلافِ رائے کی وجہ سے چیئرمین تحریک انصاف نے غالباً 2022ء کے دوران پارٹی کا آئین معطل کرکے پارٹی کے تمام عہدیداران کو برطرف کر دیا تھا۔ ان کا یہ عمل الیکشن ایکٹ کی دفعہ 205کے خلاف تھا۔ مزید برآں تحریک انصاف کے چیئرمین نے الیکشن کمیشن کو بھی پارٹی کے آئین کو معطل کرنے کے بارے میں تحریری طور پر آگاہ نہیں کیا تھا۔ اس دوران میں نے ''روزنامہ دنیا‘‘ کے انہی صفحات اور الیکٹرانک میڈیا پر واضح کر دیا تھا کہ چونکہ تحریک انصاف نے پارٹی کا آئین معطل کر دیا ہے تو بادی النظر میں تحریک انصاف کی رجسٹریشن الیکشن ایکٹ کی دفعہ 202اور 203کے تحت مشکوک ہو گئی ہے کیونکہ جب پارٹی کا آئین ہی برقرار نہیں رہا تو پارٹی کی رجسٹریشن ہی ختم تصور کی جائے گی لیکن اس وقت الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے نرم رویہ اختیار کیے رکھا۔ 8جون 2021ء کو الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف میں انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر چیئرمین تحریک انصاف کو نوٹس جاری کیا تھا اور پارٹی کی رجسٹریشن اور انتخابی نشان واپس لینے کا بھی اشارہ دیا تھا۔ اس وقت عمران خان وزیراعظم تھے اور انہوں نے الیکشن کمیشن کے احکامات کو نظرانداز کر دیا اور بطور پارٹی چیئرمین الیکشن کمیشن کویہ تاویل پیش کر دی کہ کورونا کی وجہ سے جون 2021ء میں پارٹی کے انتخابات نہیں کرائے جا سکے اور ان کو ایک سال کی مہلت دی جائے‘ جس پر الیکشن کمیشن نے ان کی استدعا منظور کر لی۔
دیکھا جائے تو تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن ہمیشہ متنازع ہی رہے ہیں۔ 2011ء میں ہونے والے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو تحریک انصاف کے سینئر وائس چیئرمین جسٹس (ر)وجیہہ الدین نے متنازع اور قابلِ اعتراض قرار دیتے ہوئے پارٹی کے بعض اہم رہنماؤں کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کا تحریری طور پر مطالبہ کیا تھا جبکہ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عارف علوی کو بھی اِس انٹرا پارٹی الیکشن پر شدید تحفظات تھے۔ اِن دنوں‘ جبکہ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کا موضوع پھر سے زیرِ بحث ہے تو جسٹس (ر) وجیہہ الدین اور تحریک انصاف کے بانی رہنما حامد خان ایڈووکیٹ کو بھی پارٹی کے ماضی کے الیکشن پر رائے دینی چاہیے۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین کی سبکدوشی کے بعد پاکستان کے انتہائی ایماندار بیورو کریٹ تسنیم نورانی کو تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن منعقد کروانے کیلئے پارٹی کا چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے تین ماہ تک پارٹی کے اندرونی انتخابات کا جائزہ لیا اور پارٹی کے ممبران کا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا تھا۔ تب تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن آن لائن کروانے کی پالیسی بنا رکھی تھی۔ لہٰذاتحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کیلئے جو رہنما اصول بنا رکھے تھے‘ اس پر تسنیم نورانی نے معذرت کرتے ہوئے پارٹی کے الیکشن کمشنر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ بعد ازاں عمران خان نے 16مارچ 2016ء کو مجھے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کیلئے چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کی پیشکش کی اور میں نے ان کی اس پیشکش پر غورو خوض کرنے کیلئے ایک ہفتہ کی مہلت مانگ لی۔ اس دوران میں نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات آن لائن کرانے کے طریقہ کار پر ماہرین سے مشورہ کیا تو کسی نے بھی انٹرا پارٹی الیکشن کے اس طریقہ کار کی حمایت نہ کی جس کے بعد میں نے چیئرمین تحریک انصاف کی یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی دوران پنجاب میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے تحت مقامی حکومتوں کے انتخابات کا شیڈول جاری ہو گیا تو عمران خان نے انٹرا پارٹی الیکشن کو مؤخر کردیا اور بعد ازاں سینیٹر اعظم سواتی کو پارٹی کا چیف الیکشن کمشنر مقرر کر دیا اور انہوں نے 2017ء میں تحریک انصاف میں جو انٹرا پارٹی الیکشن کرائے‘ وہ بھی متنازع قرارا پائے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں چیلنج ہو گئے لیکن اس معاملے کو اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا نے نظرانداز کر دیا تھا۔
اب الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں تحریک انصاف کو بیس روز کے اندرانٹرا پارٹی الیکشن کروانا ہوں گے۔ چونکہ اس وقت تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت جیل میں ہے اور پارٹی کی کور کمیٹی کے ارکان بھی روپوش ہیں جبکہ کئی اہم شخصیات تحریک انصاف سے لاتعلقی اختیار کر چکی ہیں اور پارٹی تقسیم کا شکار ہو چکی ہے‘ میری نظر میں اس صورتحال کے پیشِ نظر تحریک انصاف کے چیئرمین کو فوری طور علیمہ خان کو تحریک انصاف کا قائم مقام چیئرمین مقرر کرکے پارٹی کے الیکشن کروانے چاہئیں۔ علیمہ خان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ پارٹی کو جوڑ کر رکھ سکتی ہیں۔ تاریخ میں ایسی مثال موجود ہے۔ ستمبر 1977ء میں جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو گرفتار ہو گئے تھے تو انہوں نے نصرت بھٹو کو قائم مقام چیئرمین مقرر کر دیا تھا اور ضیا الحق کے 90روز میں انتخابات کرانے کے وعدے کے پیشِ نظر نصرت بھٹو نے بطور قائم مقام چیئرمین پارٹی کے ٹکٹ بھی ایوارڈ کر دیے تھے لہٰذا عمران خان کو زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کر لینا چاہیے۔ابھی الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی ممنوعہ فنڈنگ کے بارے میں بھی فیصلہ کرنا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن تحریک انصاف کی ممنوعہ فنڈنگ کو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 204کے تحت ضبط کر لیتا ہے تو اس کیس میں بھی پارٹی کا انتخابی نشان واپس لیا جا سکتا ہے۔ اگر تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے قانون کی زد میں آ گئی ہے تو دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی الیکشن رولز کی دفعہ 200کے تحت اپنے انٹرا پارٹی الیکشنز پر کے طریقہ کار پر نظر ثانی کر لینی چاہیے تاکہ کل کو انہیں بھی ایسی کسی کارروائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
جمعرات کے روز آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیرِ صدارت 82 ویں فارمیشن کمانڈرز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ پاکستان فلسطینی عوام کی مکمل سیاسی‘ سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتا ہے اور یہ کہ پاک فوج پائیدار استحکام اور سلامتی کے سفر میں قوم کا دفاع اور خدمت جاری رکھے گی۔فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں فورم کی جانب سے کہا گیا کہ چیلنجز کے باوجود گزشتہ کچھ مہینوں میں ملک میں اضطراب اورغیر یقینی صورتحال میں کمی آئی ہے۔ ملک میں امید‘اعتماد اور استحکام میں اضافہ نظر آیا ہے اور یہ کہ ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے مایوسی پیدا کرنے والے مخصوص عناصر کی کوششوں کو شکست دی جائے گی۔ بادی النظر میں اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ عناصر جو عوام میں مایوسی پھیلارہے ہیں‘ ملک میں آٹھ فروری کو مقررہ تاریخ پر الیکشن کے انعقاد پر انہیں مایوسی ہوگی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان 30نومبر کو حتمی حلقہ بندیوں کا نوٹیفکیشن جاری کر رہا ہے اور 25کروڑ بیلٹ پیپرز کی اشاعت کیلئے ابتدائی انتظامات مکمل کر چکا ہے جبکہ انتخابی فہرستوں کی پرنٹنگ بھی جاری ہے۔ شواہد بتا رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن 15دسمبر کو انتخابی شیڈول جاری کردے گا تاکہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57کے تحت تمام کارروائی مکمل ہو جائے چونکہ اس دفعہ کے تحت الیکشن ‘انتخابی شیڈول جاری ہونے کے 54روز کے اندر اندر کرانا ہوتے ہیں۔ الیکشن کا طبل بج چکا ہے‘ اب سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے منشور کا اعلان کریں جس کی بنیاد پر عوام اپنے ووٹ کا فیصلہ کر سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں