"KDC" (space) message & send to 7575

زرداری بلاول کو ٹکٹ دینے کے مجاز نہیں

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تمام سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات میں لیول پلینگ فیلڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس ضمن میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل الیکشن کی طرف سے نگران وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اور چاروں صوبائی چیف سیکرٹریوں کو مراسلہ لکھا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک سیاسی جماعت نے لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے سے متعلق الیکشن کمیشن کے سامنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔سیاسی جماعت نے کہا ہے کہ نگران حکومتیں اسے لیول پلینگ فیلڈ مہیا نہیں کر رہیں جس سے اُس کی انتخابی مہم اور ووٹرز شدید متاثر ہو رہے ہیں‘اس لیے اُس سیاسی جماعت نے الیکشن کمیشن سے نگران حکومتوں کی جانب سے روا رکھا جانے والاغیر امتیازی سلوک بند کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے نگران وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلینگ فیلڈ کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے تاکہ اس حوالے سے کوئی ابہام باقی نہ رہے کہ کسی ایک سیاسی جماعت کو مصلحتاً لیول پلینگ فیلڈ فراہم نہیں کی جا رہی۔
یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی سیاسی جماعت نے الیکشن کمیشن کے سامنے اس طرح کے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ماضی میں‘ مارچ 1977ء کے الیکشن سے پیشتر‘ پاکستان قومی اتحاد‘ جس میں گیارہ جماعتیں شامل تھیں‘ نے اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سجاد احمد خان سے ملاقات کرکے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ نصر اللہ خٹک کے خلاف شکایات کی تھیں کہ وہ الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان شکایات کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کے امیدوار جان محمد عباسی‘ ڈیرہ غازی خان سے جماعت اسلامی کے امیدوار ڈاکٹر نذیر احمد اور اکوڑہ خٹک کے عالم دین مولانا اسحاق کے والد بزرگوار کے کاغذاتِ نامزدگی الیکشن کمیشن سیکرٹریٹ اسلام آباد میں خصوصی طور پر منظور کئے تھے اور نصر اللہ خٹک کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے تھے۔ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر نے حکم صادر کیا تھا کہ اگر کسی کے کاغذاتِ نامزدگی کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی جارہی ہے تو وہ الیکشن کمیشن سے رجوع کرے۔ ان احکامات کے باوجود بیوروکریسی کی مدد سے انتخابات کو متنازع بنا دیا گیا‘ جس کا نتیجہ پانچ جولائی 1977ء کی صورت میں نکلا۔اس کے برعکس موجودہ صورتحال میں کہا جا سکتا ہے کہ نگران حکومتیں غیر جانبدار ہیں اور الیکشن کمیشن جتنا خود مختار‘ آزاد اور غیر جانبدار ہے‘ ماضی میں ایسی صورتحال نہیں تھی۔ الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد وفاقی اور صوبائی نگران حکومتیں براہِ راست الیکشن کمیشن کے سامنے جواب دہ ہوں گی۔ الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات میں شفافیت یقینی بنانے کے لیے ڈسکہ رپورٹ کو مدِنظر رکھے ہوئے رہنما اصول وضع کر رکھے ہیں۔
آصف علی زرداری نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پارٹی ٹکٹ دینے کا اختیار ان کے پاس ہے‘ بلاول کو بھی و ہی ٹکٹ دیں گے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 203 کے تحت ایک فرد ایک ہی سیاسی جماعت کا ممبر رہ سکتا ہے‘وہ ایک سے زیادہ جماعتوں کا ممبر نہیں بن سکتا تو بلاول بھٹو زرداری کو آصف علی زرداری کیسے ٹکٹ ایوارڈ کر سکتے ہیں کیونکہ بلاول بھٹو زرداری تو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں اور الیکشن کمیشن نے ان کی پارٹی کو انتخابی نشان تلوار الاٹ کیا ہوا ہے‘ جبکہ آصف علی زرداری صاحب پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے چیئرمین ہیں جس کا انتخابی نشان تیر ہے اور 2002ء سے اب تک پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین ہی پارلیمنٹ کا حصہ رہی ہے جبکہ اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی پارلیمنٹ میں کسی قسم کی کوئی نمائندگی نہیں ہوئی۔ مئی2013ء اور جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں پر پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین اور پاکستان پیپلز پارٹی نے انتخابی اتحاد کرکے ایک ہی انتخابی نشان تیر حاصل کر لیا تھا جبکہ بادی النظر میں یہ اتحاد الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 215 اور الیکشن رولز سے مطابقت نہیں رکھتا تھا‘ لیکن اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ممبران نے اس بے ضابطگی کو نظر انداز کر دیا تھا۔ اس فیصلہ کو پاکستانی نژاد امریکی شہری سید اقتدار حسین شاہ نے عدالت میں چیلنج کیا ہوا ہے اور مختلف عدالتوں کے فیصلے کے بعد ابھی تک یہ کیس الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے اور اس کا کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ سید اقتدار حسین شاہ نے اس حوالے سے جو اپیلیں دائر کر رکھی ہیں‘ وہ میرے پاس ریکارڈ میں موجود ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی‘ بلاول بھٹو زرداری جس کے چیئرمین ہیں‘ کی بنیاد 30نومبر 1967ء کو رکھی گئی تھی‘ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کی تشکیل جون 2002ء میں ہوئی کیونکہ اُس وقت صدر پرویز مشرف نے سیاسی جماعتوں پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے پولیٹکل پارٹیز ایکٹ 1962ء کے متبادل پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء جاری کر دیا تھاجس کے تحت ہر سیاسی جماعت کی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی تھی۔ اس ایکٹ میں یہ شق بھی شامل تھی کہ سزا یافتہ سیاسی رہنما پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے اہل نہیں ہوں گے اور اس مقصد کے لیے پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء کا آرٹیکل پانچ بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ اس صورتحال کے پیشِ نظر بینظیر بھٹو صاحبہ نے اپنی اعلیٰ فراست اور دانشمندی سے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین بنا کر مخدوم امین فہیم کی سربراہی میں پارٹی میں انٹرا پارٹی الیکشن کروا کے اس پارٹی کی رجسٹریشن کروا لی تھی اور پاکستان پیپلز پارٹی کو رجسٹریشن کے مرحلہ سے باہر رکھا تھا جس کی وہ خود چیئر پرسن تھیں۔ اب آصف علی زرداری اُسی پارٹی کے سربراہ ہیں جس کی بنیاد جون 2002ء میں رکھی گئی تھی۔ چند روز پیشتر میں نے ایک ٹی وی پروگرام میں‘ جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما‘ ممتاز سیاستدان اور سینیٹر تاج حیدر موجود تھے‘ میں اس طرف توجہ مبذول کرائی تھی کہ آصف علی زرداری بلاول بھٹو زرداری کو ٹکٹ ایوارڈ کرنے کے مجاز نہیں ہیں‘ اس راہ میں الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 203 حائل ہے۔ اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ وہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 215کے تحت ازسر نو انتخابی الائنس الیکشن کمیشن سے منظور کرائیں لیکن اس کے لیے انہیں الیکشن شیڈول جاری ہونے سے پیشتر الیکشن کمیشن کے پاس انتخابی الائنس کی رجسٹریشن کرانا ہوگی‘ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس بار الیکشن کمیشن سے اس قسم کا الائنس منظور ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں چیلنج ہو جائے گا۔
اگر معیشت کی بات کریں تو آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی خصوصی کاوشوں سے کویت پاکستان میں مختلف شعبوں کے سات منصوبوں میں 10ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے۔ اس ضمن میں وفاقی کابینہ نے پاکستان اور کویت کے درمیان سرمایہ کاری کیلئے سات مفاہمتی یادداشتوں کی منظوری دے دی ہے جن پر نگران وزیر اعظم کے دورۂ کویت کے دوران دستخط کیے جائیں گے۔ جنرل سید عاصم منیر پاکستان کی معیشت کو پھر سے وہ عروج دلانے کے خواہاں ہیں جو وہ 1960ء کے عشرے میں دیکھ چکی ہے۔ آرمی چیف اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی کاوشوں سے مختلف دوست ممالک اب تک پاکستان میں پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کروا چکے ہیں۔لیکن اب چونکہ سپریم کورٹ‘ الیکشن کمیشن اور صدرِ مملکت 8فروری کو عام انتخابات کروانے کیلئے پُر عزم ہیں تو وہ دوست ممالک بھی‘ جو پاکستان میں سرمایہ کاری کا عندیہ دے چکے ہیں‘ ان انتخابات پر اپنی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ اس لیے شفاف انتخابات کا انعقاد بہت ضروری ہے تاکہ ملک سیاسی اور معاشی استحکام کی جانب گامزن ہو سکے لیکن اگر یہ الیکشن کسی بھی وجہ سے متنازع ہوئے تو خدانخواستہ ملک پھر سے سات مارچ 1977ء کے دہانے پر کھڑا ہوجائے گا‘ ان حالات میں دوست ممالک سرمایہ کاری سے بھی ہاتھ کھینچ لیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں