"KDC" (space) message & send to 7575

پُر امن انتخابات کے بنیادی تقاضے

انتخابی فہرستوں کی تکمیل اور حلقہ بندیوں کا بروقت نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد اب انتخابات پر شکوک و شبہات کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ انتخابی اخراجات کی مد میں وزارتِ خزانہ کی طرف سے الیکشن کمیشن کو 17 ارب 40کروڑ روپے کا اجرا بھی عام انتخابات کے بروقت انعقاد کی جانب اہم پیشرفت ہے۔صورت حال بالکل واضح ہو گئی ہے کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57کے تحت 16دسمبر سے پہلے انتخابی شیڈول بھی متوقع ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کے مطابق الیکشن شیڈول انتخابات سے 54روز پہلے جاری کر دیا جائے گا۔ نئی حلقہ بندیوں میں قومی اسمبلی کی چھ نشستیں آئین میں کی گئی 25ویں ترمیم کے تحت کم ہوئی ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت ملک بھر سے قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کے 266حلقے ہوں گے جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں کے 593حلقے ہوں گے۔ الیکشن کمیشن نے گزشتہ برس پانچ اگست کو بھی نئی حلقہ بندیاں جاری کی تھیں مگر نئی مردم شماری کے نتائج شائع ہونے کی وجہ سے نئے سرے سے حلقہ بندیاں کرنا پڑیں۔ حتمی حلقہ بندیوں کے مطابق اسلام آباد کی تین جنرل نشستیں ہوں گی۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141اور صوبائی اسمبلی کی 297‘ سندھ میں قومی اسمبلی کی 61اور صوبائی اسمبلی کی 130‘ خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی 45 اور صوبائی اسمبلی کی115 جبکہ بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16اور صوبائی اسمبلی کی 51جنرل نشستیں ہوں گی۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعد قومی اسمبلی کی مجموعی نشستوں کی تعداد‘ بشمول خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کے 342سے کم ہو کر 336رہ گئی ہے۔ قومی اسمبلی کی نشستوں میں کمی کی وجہ قبائلی اضلاع کا خیبر پختونخوا میں انضمام ہے۔مئی 2018ء سے قبل قبائلی اضلاع کی آزاد حیثیت تھی اور ان اضلاع کی قومی اسمبلی میں 12نشستیں مقرر تھیں۔ پھر 25ویں آئینی ترمیم کے تحت فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا اور ان اضلاع کی کل نشستیں چھ کر دی گئیں۔ الیکشن کمیشن نے ابتدائی حلقہ بندیوں پر 1336 شکایات اور تجاویز کا جائزہ لینے کے بعد نئی حلقہ بندیوں کا حتمی نوٹیفکیشن 30 نومبر کو جاری کیا تھا۔ اب اگر کسی کو حلقہ بندیوں پر اعتراض ہوگا تو اسے الیکشن کمیشن کے بجائے عدالتوں کا رُخ کرنا ہوگا۔
واضح رہے کہ عوامی نمائندگی ایکٹ 76ء اور حلقہ بندی ایکٹ74ء کے تحت حلقہ بندیوں کے گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد ان میں کسی ترمیم کی گنجائش نہیں تھی اور نہ ہی اسے کسی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا تھا لیکن حیرانی کی بات ہے کہ الیکشن ایکٹ2017ء میں حلقہ بندیوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہ کرنے کی شق حذف کر دی گئی اور اب عدالتوں میں حلقہ بندیوں پر اعتراضات کی اپیل دائر کرنے کی مکمل اجازت ہے۔ اب اگر نئی حلقہ بندیوں پر عدالتوں میں دھڑا دھڑ اعتراضات دائر کر دیے جاتے ہیں یا پھر سندھ سے متحدہ قومی موومنٹ اور دیگر سیاسی جماعتیں نئی حلقہ بندیوں کو عدالت میں چیلنج کر دیتی ہیں تو پھر 16دسمبر کو متوقع الیکشن شیڈول آنے سے پیشتر ان اعتراضات پر کوئی فیصلہ کرنا ناممکن نظر آرہا ہے اور ایسی صورت میں لامحالہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں یہ استدعا کرسکتا ہے کہ چونکہ ان نہ ختم ہونے والے اعتراضات کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو اپنے شیڈول کے مطابق کاغذاتِ نامزدگی وصول کرنے میں دشواری پیش آئے گی لہٰذا حلقہ بندیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے 2018ء کے اُس فیصلے کو مدنظر رکھا جائے جس کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے پُر امن انعقاد کے لیے پاک فوج اور سول آرمڈ فورسز کی خدمات حاصل کرنے کے لیے وزارتِ داخلہ کو مراسلہ ارسال کر دیا ہے۔الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ چاروں صوبوں اور وفاق میں الیکشن کے لیے 3لاکھ 28ہزار اہل کار دستیاب ہیں اور دو لاکھ78ہزار اہل کاروں کی کمی ہے۔ 8فروری کے انتخابات بین الاقوامی طور پر بڑی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی کاوشوں سے دوست ممالک پاکستان میں 50ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں جب کہ پاکستان دشمن عناصر اس سرمایہ کاری کی راہ میں مشکلات پیدا کر کے پاکستان کو دبائو میں رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ملک دشمن عناصر اپنے ان مذموم عزائم کو پورا کرنے کے لیے الیکشن کو سبوتاژ کرنے کی کوئی سازش بھی رچا سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی مفاہمت کے بجائے مخاصمت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں‘ اس لیے الیکشن کے دنوں میں افراتفری‘ انتشار اور ایسی دیگر منفی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے عسکری اداروں کی معاونت آئین کے آرٹیکل 220کے تحت لازمی ہوگی۔ متعلقہ حکام الیکشن کمیشن کو قانون اور آئین کے مطابق الیکشن کے پُرامن انعقاد کے لیے مطلوب اہل کار مہیا کرنے کے پابند ہیں لیکن اس کے ساتھ ریاست کا مفاد اور تحفظ بھی ان کے پیش نظر رہے گا۔ آئین کے آرٹیکل 220کے تحت سکیورٹی اہل کاروں کی خدمات تو حاصل ہو جائیں گی لیکن ان سکیورٹی اہلکاروں کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ پولنگ سٹیشنوں پر ہنگامہ آرائی کو روکنا بہر حال پولیس کا ہی کام ہے لیکن ایسی صورتحال میں پولیس ہجوم کو کنٹرول کرنے میں اکثرناکام ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت رینجرز کو آگے لایا جا سکتا ہے‘ جس کے تحت رینجرز کو وہ تمام اختیارات حاصل ہوں جو ایسے موقع پر وقت کی ضرورت ہوتے ہیں۔ متعلقہ حکام کو الیکشن کمیشن کی درخواست پر غور و خوض کرتے ہوئے زمینی حقائق کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ ایسے حالات میں‘ جبکہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات رکنے میں نہیں آ رہے‘ پولنگ ڈے پر کروڑوں ووٹروں کو منظم اور محفوظ رکھنا بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر سکیورٹی اہلکار دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر اپنی یہ ذمہ داری جارحانہ یا سخت طریقے سے ادا کریں گے تو بھی انہیں مخصوص حلقے پروپیگنڈا کے تحت تنقید کا نشانہ بنانے میں پیش پیش ہوں گے۔الیکشن کمیشن نے میڈیا کے لیے بھی ضابطہ اخلاق مرتب کیا ہوا ہے لیکن اس پر عملدرآمد کروانا الیکشن کمیشن کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔ بہر حال عام انتخابات کے حوالے سے اب کوئی ابہام باقی نہیں رہ جانا چاہیے کیونکہ اس حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سخت ریمارکس دیے تھے کہ وہ الیکشن میں تاخیر کا سبب بننے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔
یہ کافی حد تک سیاسی جماعتوں پر منحصر ہے کہ وہ پولنگ ڈے پر اپنے اپنے حامیوں کو کیسے پُر امن رکھتی ہیں‘ جن سیاسی جماعتوں یا امیدواروں کو ذاتی مفاد عزیز ہو گا وہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے کوئی بھی ہتھکنڈا اپنا سکتے ہیں‘ قطع نظر اس کے کہ ان اُس اقدام سے ملکی مفادات یا انتخابی عمل کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔جبکہ وہ سیاسی جماعتیں جنہیں ملکی مفادات زیادہ عزیز ہیں‘ وہ الیکشن کے پُر امن انعقاد میں بھرپور تعاون کا مظاہرہ کریں گی تاکہ الیکشن کے بعد ملک سیاسی استحکام کی جانب گامزن ہو سکے۔ ملکی حالات کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہیے کہ انتخابی شیڈول کے اجرا سے پیشتر الیکشن کمیشن کے توسط سے مفاہمت پر مبنی قومی کانفرنس کا انعقاد ہو جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو بلایا جائے اور ان سے ملکی حالات کے پیشِ نظر انتخابی عمل کو پُر امن بنانے کی ضمانت لی جائے۔ میڈیا کو بھی اس حوالے سے مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔یہ مفاہمتی کانفرنس چیف الیکشن کمشنر کی صدارت میں قومی اسمبلی کے ہال میں آسانی سے کرائی جا سکتی ہے۔اگر اس موقع پر شرکا میں سے کوئی انتخابات میں التوا کی تجویز پیش کرے تو سپریم کورٹ آف پاکستان اور صدرِ مملکت کی مشاورت سے اُس پر غور کیا جاسکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں