"KDC" (space) message & send to 7575

ریاست کے مفاد میں اعلیٰ عدلیہ سے رائے لینی چاہیے

یہ خیال کیا جارہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ انتخابات کا شیڈول 14 دسمبر تک جاری کر دیں گے۔ چند دنوں میں ریٹرننگ آفیسرز کا بھی نوٹیفکیشن جاری ہو جائے گا اور 8 فروری کو الیکشن ہو گا۔مگر چیف الیکشن کمشنر کا واضح پیغام آنے کے باوجود افواہوں کا سلسلہ جاری ہے اور قیاس آرائیاں گردش کر رہی ہیں۔ اس کی وجوہات سامنے آئی ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان انٹراپارٹی الیکشن کے حوالے سے اہم کیس کی سماعت کر رہا ہے اور چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیشن الیکشن ایکٹ کی دفعات 208 اور 209اور الیکشن رولز کی دفعات 158 کو مدِنظر رکھتے ہوئے تحریک انصاف کے حالیہ انٹرا پارٹی الیکشن کا جائزہ لے رہا ہے اور اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے ایک بانی رکن اکبر ایس بابر کی انٹراپارٹی الیکشن کے حوالے سے پٹیشن مسترد کرتے ہوئے ان کا مؤقف کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اکبر ایس بابر اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں کیونکہ بقول اُن کے وہ 1996ء سے تحریک انصاف بلوچستان کے بانی صدر رہے ہیں اور پارٹی کے دستور کی تشکیل میں ان کا اہم کردار رہا ہے‘ لیکن الیکشن کمیشن نے ان کی جو استدعا مسترد کی اس کے بھی ٹھوس شواہد الیکشن کمیشن کے سامنے تھے۔ ریکارڈ کے مطابق اکبر ایس بابر کی ممبرشپ 2011ء میں ڈاکٹر عارف علوی نے بطور سیکرٹری جنرل تحریک انصاف ختم کر دی تھی اور الیکشن قوانین کے تحت انٹراپارٹی الیکشن بار بار کروانے کی بھی کوئی شق موجود نہیں‘ لہٰذا انٹراپارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا جبکہ ممبر الیکشن کمیشن کے ریمارکس بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں کہ تحریک انصاف کے انٹراپارٹی الیکشن‘ الیکشن قوانین کے مطابق نہیں کرائے گئے تو نتائج خوفناک ہوں گے۔
انٹراپارٹی الیکشن کی سماعت کے دوران جو حقائق سامنے آئے ان کے مطابق تحریک انصاف کا مؤقف بادی النظر میں کمزور نظر آ رہا ہے۔ تحریک انصاف کے جن ارکان نے انٹراپارٹی الیکشن کو چیلنج کیا‘اُن کے مطابق اگر فیصلہ سامنے آیا تو اس کے اثرات دیگر سیاسی جماعتوں پر بھی پڑیں گے جنہوں نے قانونی ضرورت کو پورا کرتے ہوئے الیکشن کروا کے الیکشن کمیشن سے کلین چٹ حاصل کر رکھی ہے۔ مخالف وکلا نے پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 3 اور 4 کو بطور قانون کے دلائل دیے ہیں جبکہ یہی آرٹیکل اب بھی الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 203‘ 205 اور 209 میں بھی شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین نے ابتدا ہی سے انٹراپارٹی الیکشن کروانے کو اہمیت نہیں دی۔ جب پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین جسٹس (ر) وجیہ الدین نے تحریک انصاف کے انٹراپارٹی الیکشن کو مسترد کرتے ہوئے بعض اہم شخصیات کے اخراج کی سفارش کی تھی‘ اس پر اگر عمران خان عملدرآمد کرتے ہوئے فیصلہ جسٹس (ر) وجیہ الدین کے حق میں کر دیتے تو تحریک انصاف آج ملک کی اہم ترین جمہوری پارٹی تصور کی جاتی جس کے ساتھ جاوید ہاشمی‘ حامد خان‘ اکبر ایس بابر اور دیگر رہنما سرگرم ہوتے اور ان کے جانے کے بعد جس ہجوم نے پارٹی کو یرغمال بنائے رکھا اس کی نوبت نہ آتی۔ اب بھی پارٹی کی کور کمیٹی میں ایسے رہنما موجود ہیں جو جسٹس(ر) وجیہ الدین کی سفارشات پر یقین رکھتے ہیں۔ محترم ڈاکٹر عارف علوی صدارتی منصب پر ہیں لیکن ان کو بھی پارٹی کے انٹرا الیکشن میں منصوبہ بندی کے تحت سیکرٹری جنرل شپ سے ہرایا گیا تھا اور وہ اس کا ذکر نجی محفل میں کرتے ہیں۔ انہوں نے مجھے بھی اس کی ساری روداد سنائی تھی۔ بطور سیکرٹری جنرل تحریک انصاف انہوں نے پارٹی کی فنڈنگ کا مکمل ریکارڈ تیار کرایا تھا تاکہ کسی وقت بھی اس کا آڈٹ کرایا جا سکے‘ لیکن جب ان کو سیکرٹری جنرل سے ہرادیا گیا و ہ ریکارڈ بھی غیرمؤثر ہو گیا اور آج اسی غلط حکمت عملی سے تحریک انصاف کو ممنوعہ فنڈنگ کیس کے نتائج بھگتنے پڑ رہے ہیں اور عدالتوں میں کیس زیرسماعت ہے۔ الیکشن کمیشن کا اہم فیصلہ بھی موجود ہے‘ جس کے تحت عمران خان الیکشن ایکٹ کی دفعہ 210 کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب پائے گئے ہیں اور الیکشن ایکٹ کی دفعات 204 اور 212 کا بھی سامنا کر رہے ہیں اور ایف آئی اے بھی ممنوعہ فنڈنگ کے اہم کرداروں کے خلاف گھیرا تنگ کر رہی ہے۔
الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن کی سماعت کے دوران ممنوعہ فنڈنگ کے کرداروں کو بھی سامنے لانے کی کوشش کرنی چاہیے اور ایف آئی اے بھی ممنوعہ فنڈنگ کی رپورٹ اور فیصلہ کے مطابق انکوائری کر رہی تھی‘ البتہ اب چند مہینوں سے اس کی کارروائی سامنے نہیں آ ئی۔
الیکشن کمیشن کے دوبارہ انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کے فیصلہ کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی جسے محترم جسٹس شجاعت علی خان نے لارجر بنچ کو بھجوانے کی سفارش کرتے ہوئے فائل چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو ارسال کر دی۔ تحریک انصاف کے بانی چیئرمین نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ 10 جون 2022ء کو قانون اور پارٹی کے دستور کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن کرائے گئے‘ اس کے باوجود الیکشن کمیشن نے بیس دن کے اندر دوبارہ انٹراپارٹی الیکشن کرانے کا غیرقانونی حکم جاری کیا جو کہ الیکشن ایکٹ کے خلاف ہے۔لاہور ہائیکورٹ کا لارجر بنچ اس نکتہ پر غوروخوض کرے گا کہ چونکہ پارٹی نے الیکشن کمیشن کے حکم اور فیصلہ کے مطابق تین دسمبر کو انتخابات کرا ئے ہیں اور ان کی دستاویزات الیکشن کمیشن میں جمع کراتے ہوئے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 209 کو مدنظر رکھا‘ لہٰذا لاہور ہائیکورٹ ان کی اپیل کو مسترد کرنے کی مجاز ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے معاشی بہتری کے حوالے سے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کی پلاننگ کی تعریف کر رہے ہیں۔روپے کی قدر مستحکم ہے‘ سمگلنگ بھی کافی حد تک ختم ہوئی ہے‘ایف بی آر بھی آزادانہ طور پر اصلاحات کر رہا ہے‘ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں نمو کا سلسلہ جاری ہے اور جنرل عاصم منیر کی حکمت عملی سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ نظر آ رہا ہے۔ بیورو کریسی کا اعتماد بحال کرنے کے لیے قومی احتساب بیورو کا نیا طریقہ سامنے آ یا ہے جس سے بیورو کریسی قومی احتساب بیورو کے خوف سے آزاد ہو جائے گی۔ ان اصلاحات کی بدولت پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی بھی اپنی کابینہ کے ساتھ پنجاب کو ماڈل صوبہ بنانے کی کوشش میں مگن ہیں۔الیکشن 8 فروری کو متوقع ہیں‘ جن پر 57 ارب روپے خرچ ہو جائیں گے جس میں سے 17 ارب روپے سکیورٹی کے لیے مختص کیے گئے ہیں‘ اگر 8 فروری کے الیکشن کو ہارنے والی جماعت نے تسلیم نہ کر کے ملک میں مارچ 1977ء کی طرزپر تحریک چلا ئی تو ملک پھر دیوالیہ پن کے خطرے سے دوچار ہو جائے گا اور ریاستی ڈھانچہ کمزور ہو گا۔ ملک کی بعض سیاسی جماعت کے اکابرین ماضی کے مقدمات کی سماعت شروع کروانا چاہتے ہیں اور بعض شخصیات جولائی 2017ء کے فیصلوں کا ذکر کرتے ہوئے سابق جرنیلوں کا ذکر واشگاف لہجے میں کر نے لگی ہیں‘ جس سے ریاستی ڈھانچہ کو زک پہنچ رہی ہے۔ ان کا یہ نعرہ ذومعنی ہے کہ ''حکومت ہی نہیں احتساب بھی چاہیے‘‘۔ ماضی کے بیورو کریٹس اور سیاستدانوں کے مقدمات کا فیصلہ ان کے حق میں آنے سے عوام کی اکثریت میں اضطراب پایا جا رہا ہے کہ ماضی کی عدالتوں نے قوم کو کس گرداب میں دھکیل دیا تھا۔ عوام کا اپنی عدالتوں کے روّیے اور فیصلوں کو متنازع بنانے پر شدید دکھ اور اضطراب کا سامنا ہے۔الیکشن کا شیڈول آنے سے پیشتر مقتدر حلقوں کو ان مسائل کا جائزہ لینا ہوگا اور آئین کے آرٹیکل 186 کے مطابق سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کے بارے میں غوروخوض کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے ملکی مفاد میں رائے حاصل کرنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں