"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابات اور ریٹرننگ افسران

چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کی کاوشوں کی بدولت جنرل الیکشن8فروری 2024ء کو ایگزیکٹوافسران کی زیر نگرانی ہوں گے ۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کے حوالے سے بے یقینی ختم کر دی ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن ایکٹ کی دفعہ57کے تحت الیکشن شیڈول جاری کردیا ہے جس کے تحت 20تا 22 دسمبر کاغذاتِ نامزدگی داخل کئے جائیں گے اورحتمی فہرست11جنوری کو جاری ہوجائے گی اور 14جنوری سے 25کروڑ کے لگ بھگ بیلٹ پیپرز پاک فوج کی سکیورٹی میں پرنٹ کئے جائیں گے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے بروقت فیصلے نے ملک کو نئے ممکنہ سیاسی اور انتخابی بحران سے بچالیا ہے کیونکہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے ملک عام انتخابات کے حوالے سے ایک بار پھر غیر یقینی ماحول میں چلاگیاتھا۔انتظامیہ کی نگرانی میں انتخابات کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے تحریک انصاف کو حقائق کا ادراک ہی نہیں جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان تین فروری 2023ء اور 23 جولائی 2023ء کو چاروں صوبائی ہائی کورٹس اور اسلام آباد ہائی کورٹ کو رجسٹرار کے ذریعے عدلیہ کے افسران کی تعیناتی کے لیے استدعا کر چکا تھا ‘ معزز ہائی کورٹس نے الیکشن کمیشن کی استدعا کو منظور کرنے سے معذرت کرلی تھی ۔
پاکستان کے انتخابات نومبر 1988ء سے عدالتی افسران کی نگرانی میں ہوتے رہے ہیں مگر اِن کا غیر جانبدارانہ کردار ہمیشہ سے سوالیہ نشان بنتا رہا ہے اور ان کی تعیناتی سے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے نہیں آئے۔ انتخابات کراتے ہوئے عدلیہ کے جونیئر افسران متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے ہدایات حاصل کرتے رہے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے احکامات کو نظر انداز کرنا ان کا وتیرہ رہا ہے‘ جبکہ اعلیٰ عدالتوں کے چیف جسٹس صاحبان کا اپنا اپنا مائنڈ سیٹ رہا ہے۔1993ء کے انتخابات میں جوڈیشنل افسران نے نتائج تیار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہدایات کو نظر انداز کیا اور الیکشن کے نتائج کی تیاری میں ان کا مخصوص کردار رہا اور ہارنے والی جماعتوں نے ایگزیکٹو افسران کے مشکوک کردار پر جگہ جگہ احتجاج کیا ۔ ان کی کارکردگی کی جائزہ لیا جائے تو ان کی الیکشن میں کارکردگی قابلِ مثال نہیں رہی۔اسی طرح فروری 1997ء کے انتخابات بھی عدلیہ کی ہی نگرانی میں ہوئے لیکن ان کا جھکائو ایک ہی سیاسی جماعت کی طرف رہا اور رزلٹ 28 فیصد سے بڑھا کر 35 فیصد تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ اُس وقت کے صدر سردار فاروق لغاری نے بھی حیرت کا اظہار کیا تھا کہ ان کے ذرائع کے مطابق ٹرن آؤٹ 28 فیصد تھا لیکن شام کے 5بجے کے بعد اچانک ٹرن آئوٹ 35 فیصد کیسے آگیا۔انہی نتائج پر اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار فخر عالم نے بھی اظہار خیال کیا کہ انہوں نے پولنگ سٹیشنوں کا وزٹ کیا تھا اور دوپہر دو بجے تک ٹرن آئوٹ10سے12فیصد تھا ۔ ریٹرننگ آفیسر عدلیہ سے لیے گئے تھے اور ان کے اختیارات کو چیلنج نہیں کیا جاسکتاتھا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی ان کے خلاف کارروائی کرنے کا مجاز نہیں تھا۔
10اکتوبر 2002ء کے انتخابات میں جوڈیشنل ریٹرننگ افسران نے صبح چار بجے کے بعد من پسند امیدواروں کو کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کیا اور بعض نتائج امیدواروں کی عدم موجودگی میں تبدیل کرا دئیے گئے۔مرحوم میجر جنرل(ر) احتشام ضمیر جو ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی(انٹرنل) تھے انہوں نے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ اُس وقت کے رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل پنجاب نے پنجاب کے رزلٹ تبدیل کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح اُس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ جنرل معین حیدر نے بھی ریٹرننگ افسران کے کردار پر منفی انداز میں حقائق بیان کئے تھے۔
18 فروری 2008ء کے انتخابات میں جوڈیشل افسران مکمل طور پر غیر جانبدار رہے کیونکہ میں نے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چاروں صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے ذاتی طور پر ملاقات کرکے ریٹرننگ افسران کو سیاسی طرفداری سے دور رہنے کی استدعا کی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 18فروری2008ء کے الیکشن کو اقوام متحدہ‘ بین الاقوامی اور قومی مبصرین‘ میڈیا‘ یورپی یونین‘ اور کامن ویلتھ نے فرسٹ ورلڈ ڈیموکریسی کے انتخابات قرار دیا۔ مئی2013ء کے الیکشن کو اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے ریٹرننگ افسران کے انتخابات قرار دیا اور میں نے بھی اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کو خط لکھ کر خدشات کا اظہار کیا تھا کہ ریٹرننگ افسران جو عدلیہ سے لگائے گئے وہ جونیئر افسران ہیں ۔ دو مارچ 2013ء کو الیکٹرانک میڈیا پر بھی میں نے کہا تھا کہ عدلیہ کے نچلی سطح کے افسران سے میچ فکس کیاجارہاہے۔
5 جولائی 2018ء کے الیکشن میں آر ٹی ایس کے فلاپ ہونے پر ریٹرننگ افسران کو قانون کے مطابق آرٹی ایس کے فلاپ ہونے پر الیکشن کمیشن کو حقائق بیان کرنے چاہئیں تھے لیکن انہوں نے خاموشی ہی میں عافیت سمجھی‘ اسی طرح ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران نے ناقص الیکشن نتائج الیکشن کمیشن کو بھجوا دیے جبکہ 45 فیصد فارم 45‘46 پر الیکشن ایجنٹوں کے دستخط ہی نہیں تھے۔عدلیہ سے تعلق رکھنے والوں ریٹرننگ افسران نے الیکشن ایکٹ کی دفعہ95کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نامکمل نتائج الیکشن کمیشن کو بھجوائے اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران نے اختلافی نوٹ چیف الیکشن کمشنر کو نہیں بھجوائے۔
25 جولائی 2018ء کے انتخابات کے حوالوں سے اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ ان کو عدلیہ کے افسران کے رویے پر افسوس ہوا کہ نامکمل نتائج بھجوائے اور چونکہ الیکشن ایکٹ کے مطابق جب ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران نتائج بھجواتے ہیں تو الیکشن کمیشن کو سکروٹنی کرنے کے اختیارات نہیں ہیں۔اسی پس منظر میں4اپریل2013ء کو اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے پریس نوٹ جاری کیا کہ ریٹرننگ افسران ان کے دائرہ کار میں نہیں آتے‘ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے احکامات کو تسلیم نہیں کررہے۔
2013ء کے انتخابات میں اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے آئین کے آرٹیکل219 سے انحراف کرتے ہوئے براہ راست ریٹرننگ افسران سے رابطہ رکھا اور ان کو خط لکھے اور ان کے دفاتر کے چکر لگاتے رہے۔ میں نے ان کے رویے پر احتجاج پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے کیا اور ایک جامع رپورٹ چیف جسٹس آف پاکستان ناصر الملک کو بھجوائی تھی۔حاصلِ کلام یہ ہے کہ الیکشن افسران میں دونوں اداروں کے ریٹرنگ افسران کا تجربہ قابل ِستائش نہیں رہا۔8 فروری 2024ء کے انتخابات کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان ایک فعال کمیشن بنواکر کوئی مثبت حل کے لیے اہم قدم اٹھائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں