"KDC" (space) message & send to 7575

پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہو سکتی ہے؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان پشاور ہائی کورٹ کے 26دسمبر کے فیصلے کے خلاف قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کر چکا ہے۔ گزشتہ روز چیف الیکشن کمشنر کی زیر صدارت منعقدہ اہم مشاورتی اجلاس میں الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے بلّے کے انتخابی نشان کے معاملے پر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ پشاور ہائی کورٹ میں ہی دائر کی جائے گی۔ 26دسمبر کو پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس کامران حیات میاں خیل نے پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے بلّے کا انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کردیا تھا۔ ویسے بھی پشاور ہائی کورٹ کا 26دسمبر کا فیصلہ عبوری حیثیت کا حامل ہے‘ اس کیس کا حتمی فیصلہ 9جنوری 2024ء کو ہونے والی اگلی سماعت پر ہوگا۔ اگر الیکشن کمیشن کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کیے جانے کے بعد‘ اس کیس کی اگلی سماعت میں جو کہ دو رکنی بینچ کرے گا‘ الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی نشان سے متعلق فیصلہ بحال کر دیا جاتا ہے تو پاکستان تحریک انصاف الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 215کے تحت نہ صرف انتخابی نشان بلکہ پارٹی کی رجسٹریشن سے بھی محروم ہو جائے گی۔ انتخابی نشان واپس ہونے اور پارٹی رجسٹریشن کی منسوخی کے بعد تحریک انصاف کو عام انتخابات میں اس لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کہ انتخابی نشان کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ بلّے کا انتخابی نشان برسوں سے پاکستان تحریک انصاف کے پاس ہے اور اس جماعت کی پہچان بن چکا ہے۔ اگر انتخابی نشان واپس ہونے کی صورت میں تحریک انصاف کے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیتے ہیں تو پی ٹی آئی کا وہ ووٹر جو پڑھا لکھا نہیں اور صرف انتخابی نشان کو ذہن میں رکھ کر ہی ووٹ ڈالتا ہے‘ اُس طبقے کا ووٹ بینک کہیں اور جا سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے انتخابی شیڈول میں تبدیلی کردی ہے جس کے مطابق اب مخصوص نشستوں کے لیے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال 13جنوری تک کی جائے گی۔ ریٹرننگ افسران کے فیصلوں کے خلاف اپیل 16جنوری تک دائر کی جا سکے گی جبکہ اپیلٹ ٹربیونل 19جنوری تک اپیلیں نمٹائیں گے۔ نظر ثانی شدہ فہرست 20جنوری تک شائع ہوگی جبکہ مخصوص نشستوں کے لیے امیدواروں کی حتمی فہرست 23جنوری کو آویزاں کی جائے گی۔ دوسری جانب انتخابی نشان کی واپسی اور پارٹی رجسٹریشن کی منسوخی کی صورت میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک تو متاثر ہو گا ہی ساتھ ہی اُسے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ اس صورت میں یہ مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کے پاس چلی جائیں گی۔ قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں کی تعداد60جبکہ اقلیتی نشستوں کی تعداد دس ہے‘ پنجاب اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی تعداد 68‘ بلوچستان اسمبلی میں 14‘ خیبر پختونخوا اسمبلی میں 32 اور سندھ اسمبلی میں 34 ہے۔ انتخابی نشان سے محروم ہونے کی صورت میں تحریک انصاف قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں سے تو محروم ہو گی ہی ساتھ ہی سینیٹ کی 52نشستوں پر بھی الیکشن نہیں لڑ سکے گی جو مارچ کے پہلے ہفتے میں متوقع ہیں۔ شاید تحریک انصاف کے پالیسی سازوں کو اس امر کا ادراک ہی نہیں ہے کہ انتخابی نشان سے محرومی کی صورت میں پارٹی کا انتظامی ڈھانچہ زمین بوس ہو سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے قانونی ماہرین ان باریکیوں پر توجہ دینے کے بجائے زیادہ وقت میڈیا پر اپنی خود نمائی میں صرف کر رہے ہیں۔ شنید ہے کہ تحریک انصاف کے قانونی ماہرین میں اختلافات بھی سر اٹھا رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق عام انتخابات 2024ء کے لیے کل 28ہزار 626 کاغذاتِ نامزدگی موصول ہوئے ہیں جن میں سے 3139یعنی تقریباً 11فیصد خواتین ہیں۔ سب سے زیادہ 48.3 فیصد کاغذات پنجاب سے موصول ہوئے ہیں جبکہ سندھ سے 22.7 فیصد‘ خیبر پختونخوا سے 18.4 فیصد‘ بلوچستان سے 9.3 فیصداور اسلام آباد 1.3 فیصد کاغذات موصول ہوئے ہیں۔ کا غذاتِ نامزدگی کی مد میں 60کروڑ روپے کے لگ بھگ رقم قومی خزانے میں جمع ہوئی ہے۔ اس کثیر تعداد میں کاغذاتِ نامزدگی کی موصولی عوام کے سیاسی نظام پر اعتماد کو ظاہر کرتی ہے۔ قومی احتساب بیورو‘ ایف آئی اے اور ایف بی آر کے ماہرین امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 62کے مطابق امیدواروں کا کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران ذاتی حیثیت میں پیش ہونا لازمی نہیں ہے‘ تاہم ریٹرننگ افسر اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت متعلقہ امیدواروں کو طلب بھی کر سکتا ہے۔ کاغذاتِ نامزدگی کے موقع پر بعض جگہوں پر تحریک انصاف کے کچھ امیدواروں کو چھینا جھپٹی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں تھا بلکہ دراصل ان امیدواروں کی راہ میں یہ رکاوٹیں ان کے سیاسی مخالفین نے کھڑی کی تھیں۔ اس آنکھ مچولی میں اداروں کو ملوث کرنا بھی دانش مندی نہیں۔ پولیس کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ کاغذاتِ نامزدگی جمع کراتے ہوئے امیدواروں کو اپنے مخالفین کی طرف سے اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے کاغذاتِ نامزدگی چھینے جانے سے متعلق مبنی بر حقائق رپورٹ طلب کر رکھی ہے۔ یہ رپورٹ الیکشن کمیشن کو انتظامی طور پر اہم فیصلے کرنے میں بڑی معاون ثابت ہو گی۔ اس سے انتخابی نظام میں موجود انتظامی نقائص کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ پنجاب کی بیورو کریسی کے بارے میں انتظامی ادراک رکھتے ہیں‘ احد چیمہ کی برطرفی کی صورت میں بیورو کریسی کو اہم پیغام مل چکا ہے۔ وہ سیاسی جماعتیں جو بیورو کریسی کے تعاون اور معاونت سے اقتدار کی راہداریوں میں داخل ہونا چاہتی ہیں‘ ان کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ جب بیوروکریسی پر مشکل وقت آتا ہے تو سب پردے چاک کر دیے جاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زوال کے بعد اُس وقت کی بیورو کریسی نے ضیا الحق کے سامنے سارا کچھ کھول کر رکھ دیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اُس وقت کے صدرِ مملکت چوہدری فضل الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کے انتہائی اہم راز اور حمود الرحمن کمیشن کی خفیہ دستاویزات کے بارے میں ضیاء الحق کو آگاہ کیا تھا۔
نگران حکومت صاف و شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کی بھرپور معاونت اور حمایت کر رہی ہے۔ پاک فوج بھی الیکشن کے پُر امن انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو بھرپور تعاون فراہم کرنے کا اعلان کر چکی ہے۔ پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے مطابق 28دسمبر کو آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت منعقد ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاک فوج عام انتخابات میں الیکشن کمیشن کو تعاون فراہم کرے گی۔ اس فیصلے کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے پُر امن انتخابات کے انعقاد کے حوالے جن تحفظات کا اظہار کیا جا رہا تھا‘ وہ بھی دور ہو جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں