"KDC" (space) message & send to 7575

8 فروری کے انتخابات میں ووٹر کی چوائس؟

پاکستان کا سنہری مستقبل حقیقی معنوں میں ایک صاف ستھرے‘ منصفانہ اور شفاف جمہوری نظام اور مؤثر قانون کی حکمرانی کے نظام سے وابستہ ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں جو بھی نظام حکومت رائج ہیں ان میں جمہوریت ہی ایک ایسا نظام ہے جو معاشرے کے ہر طبقے کے مفاد کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے‘ تاہم پاکستان کی جمہوریت میں کمزور طبقات کے حقوق ناپید ہیں۔ریاستی ادارے‘ پارلیمنٹ اور نظام عدل مخصوص اشرافیہ کے حقوق کے تحفظ میں سب روایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ۔پاکستان اپنے قیام کے وقت سے ہی جمہوریت اور آمریت پر مبنی نظام کے درمیان گھرا رہا ہے۔ یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ بدستور کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔
ایک ایسا معاشرہ جو جمہوری روایات اور جمہوری نظام کے بغیر اپنے آپ کو آگے بڑھاتا ہے وہاں نہ تو سیاست مضبوط ہوتی ہے اور نہ ہی معاشرے میں مختلف طبقات کے درمیان ایک دوسرے کو آسانی سے قبول کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب عوام سیاست سے دور ہو چکے ہیں‘ سیاست سے اپنا تعلق توڑ چکے۔ عوام ایک ایسے مربوط سیاسی نظام کے خواہاں ہیں جس سے لوگوں کو روزگار مہیا ہو ں اور ان کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے اور اعلیٰ اشرافیہ کی یرغمالی سے انہیں نجات مل سکے۔مگر پاکستان کی اشرافیہ کو ادراک ہی نہیں کہ ان کے دن گنے جا چکے ہیں۔آج سیاست کے جو حالات دکھائی دے رہے ہیں‘واضح نظر آتا ہے کہ الیکشن 2024ء کے نتائج کے بعد ملک گیر تحریک کا آغاز ہوسکتا ہے جس سے پاکستان کا فرسودہ پارلیمانی نظام تبدیل ہوکر ملک کو ایسے سیاسی نظام سے مربوط کر سکتا ہے جس سے پاکستان میں حقیقی ترقی‘ استحکام‘ انصاف کی فراہمی اور آئینی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
ملک بھر میں ایک سیاسی جماعت کے 80 فیصد امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔ اب ان کی سیاسی قسمت کا فیصلہ الیکشن ٹربیونلز کے ججز 10 جنوری تک کریں گے جبکہ ملک میں مہنگائی ‘ بے روزگاری اور لاقانونیت کا طوفان سامنے کھڑا ہے اور کسی سیاسی جماعت کے منشور میں عملی طور پر عوام کو ریلیف دینے کا واضح پروگرام نہیں ہے۔ لاکھوں ‘ کروڑوں روپے خرچ کر کے نام نہاد بیانیے تیار کیے جا رہے ہیں اور فلمی انداز میں ڈائیلاگ تیار کر کے عوام کے جذبات کو بھڑکانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جس قسم کے حالات ہیں آٹھ فروری تک سیاسی فضا مزید آلودہ ہو جائے گی کیونکہ چھ جنوری تک دیگر سیاسی رہنماؤں کے معاملے میں آئین کے آرٹیکل 62 (1)ایف کی تشریح سپریم کورٹ آف پاکستان سے سامنے آ سکتی ہے اور 12 جنوری تک تحریک انصاف کے انتخابی نشان کے بارے میں بھی حقیقت سامنے آ جائے گی ۔ ان حالات میں عوام نے اپنی ناراضی کا اظہار آٹھ فروری کو کر دینا ہے۔ہماری اطلاع کے مطابق عوام آٹھ فروری کو غیر معروف سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے بیلٹ پیپرز پر مہریں لگا کر اشرافیہ کی چالبازیوں کو نظرانداز کر سکتے ہیں۔ ملک کی ایک غیر معروف سیاسی اور مذہبی جماعت نے آٹھ فروری کے انتخابات کے لیے ملک بھر میں 1400کے لگ بھگ امیدوار کھڑے کر دیے ہیں‘ الیکشن سروے کے مطابق اس جماعت کے ہر حلقے میں پانچ سے دس ہزار ووٹ موجود ہیں‘ اب ناراض ووٹرز بھی اسی جماعت کو اپنا ووٹ کاسٹ کر کے اپنا غم و غصہ اتار یں گے۔ اسی طرح ملک بھر میں جماعت اسلامی نے بھی ہر حلقے میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں‘ ان کو بھی ووٹرز نے آزمانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ریٹرننگ آفیسرز کا چونکہ تعلق بیورو کریسی کے جونیئر عہدوں سے ہے ‘ان کی قانون سے لاعلمی اور ٹریننگ میں عدم دلچسپی کی وجہ سے جو 80 فیصد سے زائد کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہوئے ہیں اب ان سب کا بوجھ عدلیہ پر پڑے گا اور الیکشن ٹربیونلز کے ججز کے فیصلوں کے بعد معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی جاسکتا ہے۔ یہی کچھ1990ء میں سامنے آیا تھا جب ایوانِ صدر کے اس وقت کے الیکشن سیل کے سربراہ جنرل رفاقت اور روئیداد خان نے سابق صدر غلام اسحاق خان کے ایما پر اور جنرل حمید گل کے مشورے سے ریٹرننگ آفیسرز‘ جن کا تعلق عدلیہ سے تھا‘ سے بے نظیر بھٹو سمیت کئی امیدواروں کے کاغذات مسترد کر وادیے تھے ۔ بے نظیر بھٹو کو عدالتی گرداب میں لانے کے لیے عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء میں ترمیم کر کے ہر ووٹر کو حق دے دیا گیا تھا کہ وہ ملک بھر میں کسی بھی امیدوار کے کاغذاتِ نامزدگی کو چیلنج کر سکتا ہے جبکہ صدارتی الیکشن سیل نے انتخابی حلقوں سے غیر معروف اشخاص کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں اور بے نظیر بھٹو کے کاغذاتِ نامزدگی کو ایک غیر معروف مذہبی سکالر صاحبزادہ یونس کے ذریعے چیلنج کروایا گیا۔ بعد ازاں جو کاغذاتِ نامزدگی ریٹرننگ آفیسرز کی سطح پر مسترد کیے گئے تھے‘ الیکشن ٹربیونلز نے بحال کر دیے تھے ‘ اس طرح ناپسندیدہ پارٹی کو انتخابات میں زچ کرنے کی ساری کوششیں ناکام ہو گئیں۔لیکن بعد ازاں سیکرٹ فنڈز کے ذریعے 15کروڑ روپے سے زائد رقوم کی تقسیم کے ذریعے بے نظیر بھٹوکو 45نشستوں سے آگے نہیں جانے دیا گیا اور ایئرمارشل اصغر خان نے سپریم کورٹ میں قبل از انتخابات حالات کے بارے میں جو آئینی پٹیشن داخل کرائی تھی اس کی حقیقت بھی سب جانتے ہیں اور یہ بے معنی قرار دے کر داخلِ دفتر کر دی گئی۔
اس دوران جب ملک سیاسی ہیجان میں مبتلا ہے ‘ اگلے روز چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے قوم کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرا ئی کہ سوشل میڈیا پر گالم گلوچ اور جھوٹ پھیلانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر بے چینی‘ مایوسی اور افراتفری کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے‘ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کے ذریعے یہ تاثر دیا جا تا ہے کہ جیسے ریاست اپنا وجود کھوتی جا رہی ہے۔آرمی چیف نے پاکستان کے وسائل کی جانب بھی توجہ دلائی‘ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس گلیشیئر‘ دریا‘ پہاڑ اور زرخیز زمین ہے جس سے دنیا کا بہترین چاول‘ کینو اور آم جیسے پھل‘ گرینائٹ‘ سونا اور تانبا جیسے خزانے برآمد ہوتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اگر باصلاحیت قیادت میسر ہو اور ان وسائل سے استفادہ کیا جائے تو پاکستان کو ترقی یافتہ اور دولت مند ملک بننے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔ وسائل تو ہمارے پاس ہیں‘ سوال یہ ہے کہ ان سے استفادہ کیسے کیا جائے؟
حاصل کلام یہ ہے کہ آئندہ انتخابات کا حقیقی معنوں میں الیکشن روڈمیپ 12 جنوری کو سامنے آ جائے گا جب انتخابی امیدواروں کا فیصلہ عدالتی مرحلے سے گزر جائے گا۔ دراصل ریٹرننگ آفیسرز نے الیکشن قوانین سے نابلد ہونے یا ویژن کے فقدان کی وجہ سے سکروٹنی کے عملہ کا توازن بگاڑ دیا ہے حالانکہ کاغذاتِ نامزدگی کو مسترد کرتے ہوئے مدلل دلائل پر مبنی نوٹ اور فیصلہ لکھا جاتا ہے تاکہ ان کا فیصلہ الیکشن ٹربیونلز میں بھی برقرار رہے۔آٹھ فروری کے انتخابات سے پہلے اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان رولز میں تبدیلی کر کے بیلٹ پیپرز پر ایک ایسے کالم/خانہ کا اضافہ کر دے کہ بیلٹ پیپر پر جو امیدوار سامنے آئے ہیں وہ ان میں سے کسی کو بھی اہل نہیں سمجھتا اور Non of Above کے خانہ پر مہر لگا کر ووٹر اپنی ناراضگی کاا ظہار کرسکے تو ووٹرآٹھ فروری کے انتخابات میں اس سیاسی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کر کے حقیقت سب پر واضح کر دیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں