"KDC" (space) message & send to 7575

عمران خان الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے؟

تین جنوری کی شام پشاور ہائی کورٹ نے بلّے کے انتخابی نشان کی بحالی کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اپنا 26دسمبر کا حکم امتناع واپس لے لیا ہے جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف اپنے انتخابی نشان بلّے سے اور بیرسٹر گوہر خان پارٹی چیئرمین شپ سے محروم ہوگئے ہیں۔22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔اس فیصلے کے خلاف تحریک انصاف نے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس پر پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی سے بلّے کا نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کردیا تھا۔ بعدازاں 30 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کر دی تھی۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیے جانے کے خلاف دائر درخواست کا حتمی فیصلہ نو جنوری کو پشاور ہائی کورٹ کو دو رکنی بینچ کرے گا۔
سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہونے کے بعد عوامی سطح پر یہ بحث ہو رہی ہے کہ شاید عمران خان کا سیاسی مستقبل تاریک ہو چکا ہے۔ ان کے خلاف عدالتوں میں کرپٹ پریکٹسز کے مختلف کیسوں کی سماعت جاری ہے۔ توہینِ الیکشن کمیشن کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری پر فردِ جرم عائد ہو چکی ہے جبکہ توشہ خانہ ریفرنس کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر فردِ جرم کی کارروائی کیلئے 6 جنوری کی تاریخ مقرر ہے۔ عمران خان کی الیکشن میں حصہ لینے کی اہلیت پر تو اُس وقت ہی سوالات اُٹھ گئے تھے جب یہ خبر سامنے آئی تھی کہ ان کے کاغذاتِ نامزدگی ریٹرننگ افسر کی سطح پر ہی مسترد ہو گئے ہیں۔کاغذات مستردگی کی وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ وہ توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ ہیں۔ اس کے برعکس میاں نواز شریف کے کاغذاتِ نامزدگی ریٹرننگ افسر نے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 232 کے تحت منظور کر لیے تھے لیکن ان کے مخالفین نے ان کے کاغذاتِ نامزدگی کی منظوری اپیلٹ ٹربیونل میں چیلنج کر دی ہے۔کاغذاتِ نامزدگی کی منظوری کے خلاف دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے 27جولائی 2017ء کے فیصلے میں تاحیات نااہل قرار دیا گیا ہے۔ اب سپریم کورٹ آف پاکستان کا سات رکنی بنچ تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال متعلقہ حلقوں میں تعینات ریٹرننگ افسران الیکشن کمیشن کے طے کردہ قواعد و ضوابط اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی روح کے مطابق کرنے کے پابند ہیں۔ کسی بھی امیدوار کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہونے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں کاغذاتِ نامزدگی میں معلومات کے اندراج میں غلطی یا غلط بیانی‘ حقائق کو چھپانا اور حلقے کے ووٹرز کی جانب سے اعتراضات شامل ہیں۔ کاغذاتِ نامزدگی کے فارم اہم ترین دستاویزات ہوتے ہیں‘ اس میں حقائق کو چھپانے کے جرم میں تاحیات نااہلی بھی ہو سکتی ہے۔ اس ضمن میں میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین کی مثالیں موجود ہیں۔ عمران خان کو بھی الیکشن کمیشن توشہ خانہ کیس میں نااہل قرار دے چکا ہے۔ ریٹرننگ افسران امیدواروں کے نام‘ انتخابی فہرست کے سیریل نمبر‘ تجویز کنندہ یا تائید کنندہ کے ناموں میں معمولی غلطی کی بنیاد پر کاغذاتِ نامزدگی مسترد نہیں کر سکتے لیکن کاغذاتِ نامزدگی اس صورت میں مسترد قرار دیے جائیں گے جب امیدوار کے تائید کنندہ یا تجویز کنندہ کے دستخط جعلی ہوں گے یا کاغذاتِ نامزدگی کے فارموں میں کوئی غلط بیانی کی گئی ہو گی یا جھوٹا بیانِ حلفی جمع کروایا گیا ہو گا‘ جوکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 60 اور 61 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہونے کی صورت میں ریٹرننگ افسر امیدواروں کو مستردگی کی وجوہات کی مصدقہ کاپی مکمل تفصیلات کیساتھ فراہم کرنے کا پابند ہے۔ الیکشن کمیشن نے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے عمل میں ریٹرننگ افسران کی مکمل معاونت کی تھی۔ ریٹرننگ افسران کو کاغذات کی جانچ پڑتال کے لیے مکمل اختیارات حاصل ہیں۔ وہ مالیاتی اور سکیورٹی اداروں سمیت کسی بھی سرکاری ادارے یا اتھارٹی سے امیدوار سے متعلق معلومات منگوا سکتے ہیں۔ ریٹرننگ افسران کی سہولت کے لیے الیکشن کمیشن نے آن لائن سکورٹنی سسٹم بھی تیار کر رکھا ہے جس میں ریٹرننگ افسران امیدوار کی جانب سے جمع کروائے گئے کوائف کی جانچ کے لیے نادرا‘ قومی احتساب بیورو‘ سٹیٹ بینک آف پاکستان‘ ایف بی آر اور ایف آئی اے سے منسلک ریکارڈ سے مدد لے سکتا ہے۔
کاغذاتِ نامزدگی مسترد یا منظور ہونے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لیے حاضر سروس ججز کی سربراہی میں اپیلٹ ٹربیونلز قائم کیے جاتے ہیں جہاں کسی بھی امیدوار کے کاغذات منظور یا مسترد ہونے کے خلاف اپیل دائر کی جاتی ہے۔ اپیلٹ الیکشن ٹربیونلز میں ججز طے شدہ تاریحوں پر کاغذاتِ نامزدگی منظور یا مسترد ہونے کے خلاف آنے والی اپیلوں پر فیصلے کرتے ہیں۔ آٹھ فروری کے عام انتخابات کیلئے جاری شدہ الیکشن شیڈول کے مطابق ان اپیلٹ ٹربیونلز کو 10جنوری تک کاغذاتِ نامزدگی کی منظوری اور مستردگی کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلے کرنا ہوں گے‘ جس کے بعد ریٹرننگ افسران امیدواروں کی نظرثانی شدہ فہرست جاری کریں گے۔ اگر ٹربیونل کسی اپیل کا بروقت فیصلہ نہ کر سکے تو امیدوار کی اہلیت سے متعلق ریٹرننگ افسر کا فیصلہ ہی حتمی تسلیم کیا جاتا ہے۔
عمران خان کے کاغذاتِ نامزدگی آئین کے آرٹیکل 63کے تحت مسترد ہوئے ہیں جس کے مطابق کسی بھی مقدمے میں اگر کسی شخص پر جرم ثابت ہو گیا اور اسے تین سال تک کی سزا ہو گئی تو وہ آئندہ پانچ سال تک الیکشن لڑنے کا اہل نہیں۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 232 بھی اس حوالے سے واضح ہے۔ عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس میں الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 137 اور 174 کے تحت کرپٹ پریکٹسز کا مرتکب ہونے پر سزا ہوئی ہے۔ قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن اگر اپنی اسمبلی مدت کے دوران الیکشن کمیشن میں ہر سال اپنے اثاثہ جات کی تفصیل جمع نہیں کراتا‘ انہیں خفیہ رکھتا ہے یا اس حوالے سے غلط بیانی کرتا ہے تو یہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 137 کی خلاف ورزی ہے‘ اس بنیاد پر الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 63 (ایچ) کے تحت 5 سال کیلئے نااہل قرار دیا تھا۔ عمران خان اپیلٹ ٹربیونل میں اپنے کاغذاتِ نامزگی مسترد کیے جانے کے خلاف درخواست دائر کر چکے ہیں لیکن اس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘ کیونکہ ان کا جرم تو اپنی جگہ موجود ہے۔ اب تحریک انصاف کے سابق چیئرمین کے پاس ایک ہی آپشن موجود ہے کہ توشہ خانہ کیس میں ان کی سزا معطل ہو جائے‘ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ان کی پانچ سال کی پابندی بھی ختم ہو جائے گی۔ الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ قومی اسمبلی کے سپیکر کے ریفرنس کے تناظر میں کیا تھا۔ عمران خان کے وکلا نے اس اہم ترین آئینی ریفرنس کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا اور اس حوالے سے خان کو اندھیرے میں رکھا۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آنے پر بھی وہ اس فیصلے کے خلاف متعلقہ فورم پر آواز اٹھانے کے بجائے الیکشن کمیشن کی توہین کرتے رہے۔گوکہ عمران خان نے توشہ خانہ کیس میں سزا معطل کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے لیکن اگر اس حوالے سے 13جنوری تک کوئی فیصلہ نہ ہو سکا تو عمران خان آٹھ فروری کے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے کیونکہ الیکشن کمیشن نے 13 جنوری کو انتخابی نشان الاٹ کرنے ہیں اور 15جنوری کو امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کرنی ہے اور پھر بیلٹ پیپرز کی اشاعت شروع ہو جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں