"KDC" (space) message & send to 7575

عام انتخابات: حیرت انگیز نتائج متوقع

16جنوری بروز بدھ ایران کی طرف سے پاکستان کی جغرافیائی سالمیت پر حملہ کرتے ہوئے انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور جارحانہ طریقے سے پاکستان میں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس جارحیت کے باوجود پاکستان نے اشتعال میں آئے بغیر سفارتی سطح پر اس مسئلے کو ایرانی حکومت کے ساتھ اٹھایا لیکن دوسری طرف سے انتہائی افسوسناک رسپانس ملا جس میں اپنی جارحیت کی معافی مانگنے کے بجائے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان کی داخلی خود مختاری اور سرحدی خلاف ورزی کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے ملک کی سکیورٹی مقدم ہونے کا غیر سفارتی انداز میں جواب دیا جس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ایران کو اپنے کیے پر کوئی شرمندگی نہیں۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایران میں بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسے دہشت گردگروہوں کے متعدد ٹھکانے موجود ہیں جو آئے روز پاک ایران بارڈر کراس کرکے پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ان دہشت گرد تنظیموں کے کئی اہم سرغنہ اپنے خاندانوں کے ساتھ وہاں پُرتعیش اور آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں۔پاکستان یہ مسئلہ ایران کے ساتھ متعدد بار اٹھاچکا ہے لیکن ایران نے اس کے رسپانس میں ان دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کا کچھ نہیں کیا اور مسلسل اس اہم مسئلے کو نظرانداز کیا گیا۔
پاکستانی حکام کو اب یہ مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ یہ دہشت گرد پاکستان میں بڑی دہشت گردانہ کارروائیوں کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔پاکستان کی طرف سے ایران کے ساتھ ان دہشت گردوں کے حوالے سے شیئر کی گئی معلومات پر ایران کی خاموشی اور ان دہشت گردوں سے لاحق خطرات کے پیشِ نظر ان عناصر کے خلاف خود کارروائی کرنے کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں تھا اور ایران نے 17جنوری کو اپنے حقِ دفاع کے نام پر پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرے کے پاکستان کو بھی ایران میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا جواز فراہم کر دیا؛ چنانچہ جمعرات کے روز‘ جب ایرانی حملے کو 48گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے‘ افواجِ پاکستان نے اپنا حقِ دفاع استعمال کرتے ہوئے ایران کے اندر موجود بی ایل ایف اور بی ایل اے کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور وہاں پناہ گزین دہشت گردوں کو واصلِ جہنم کیا۔ اس کارروائی سے جہاں دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ ہوئے وہیں یہ دنیا بھر کو یہ پیغام بھی مل گیا کہ افواجِ پاکستان ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہمہ تن گوش ہیں اور کسی بھی سرحدی خلاف ورزی کا مسکت جواب دینے کی بھرپور سکت رکھتی ہیں۔ لیکن خوش آئند امر یہ ہے کہ اس کشیدگی کو بڑھاوا دینے کے بجائے اب دونوں ملکوں نے بات چیت سے صورتحال پر قابو پا لیا ہے اور معمول کے تعلقات بحال ہو چکے ہیں۔ دراصل جنوبی ایشیا میں بھارت اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اتحادِ امتِ مسلمہ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کے در پے ہیں۔ پاکستان اور ایران میں کشیدگی کا فائدہ یہ دشمن ملک اٹھا سکتے تھے لیکن دونوں ممالک کی قیادت نے اس حوالے سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے عناصر کو اپنے مفاد کشید کرنے کا موقع نہیں دیا جو کہ خوش آئند ہے۔
پاک ایران کشیدگی کے دوران الیکشن کمیشن کا یہ مضبوط موقف سامنے آیا تھا کہ سرحدی کشیدگی کے باوجود اس کی تمام تر توجہ عام انتخابات کی طرف مبذول ہے اور کشیدگی کے باوجود انتخابات آٹھ فروری کو ہی ہوں گے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں آٹھ فروری کو انتخابات کرانے کا آئینی طور پر پابند ہے لیکن زمینی حقائق آئینی شقوں پر عملدرآمد کرانے سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اگلے روز انتخابات کے دوران سکیورٹی معاملات کے حوالے سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔یہ معمول کی رسمی کارروائی تھی اور الیکشن سے پیشتر ایسی ملاقاتوں کو الیکشن ایکٹ کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔سرحدی کشیدگی کے باوجود مقررہ تاریخ پر الیکشن کے انعقاد کا عندیہ الیکشن کمیشن کی بروقت الیکشن کے انعقاد کیلئے سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے لیکن دہشت گردی کے ممکنہ خطرات سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا بالخصوص دہشت گردی سے متاثرہ صوبے ہیں۔ ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین دہشت گردالیکشن کے دنوں میں ان دونوں صوبوں کے سرحدی اضلاع میں کوئی بھی کارروائی کر سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں سیاسی جماعتوں کیلئے الیکشن کے روز ووٹروں کو گھروں سے نکالنا ایک مشکل مرحلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ان حالات کے تناظر میں فول پروف سکیورٹی یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ افواجِ پاکستان کے ساتھ ساتھ متعلقہ صوبوں کے محکمہ پولیس بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کریں گے۔
الیکشن کمیشن نے عام انتخابات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کیلئے بھی ضابطہ اخلاق جاری کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ سکیورٹی پرمامور اہلکار کسی بھی صورت پولنگ عملے کی ذمہ داریاں نہ سنبھالیں اور تمام سکیورٹی اہلکار پولنگ سٹیشنز کے باہر تعینات ہوں گے۔پولنگ ڈے پر امن و امان کو برقرار رکھنے کیلئے محفوظ ماحول کے قیام کو یقینی بنایا جائے گا۔ بیلٹ پیپر کی چھپائی کے دوران بھی پرنٹنگ پریس پر سکیورٹی یقینی بنائی جائے گی۔ریٹرننگ افسران کے دفاتر تک بیلٹ پیپرز کی ترسیل میں سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ پولنگ بیگز کی نقل و حمل کے دوران پریذائیڈنگ افسران کو سکیورٹی دی جائے گی۔انتخابی ریکارڈ کی منتقلی‘ عارضی نتائج کے اعلان اور حتمی نتائج تک سکیورٹی دی جائے گی۔ سکیورٹی اہلکار آئین کے آرٹیکل 220‘ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 139 کے تحت فرائض انجام دیں گے۔پنجاب میں امن و امان کی صورتحال بہترہے اور پنجاب کی نگران حکومت الیکشن کے دنوں میں امن و امان کے قیام کے لیے کافی متحرک دکھائی دے رہی ہے۔سندھ میں بھی صورتحال کافی حد تک قابو میں ہے جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حالات ساز گار نہیں ہیں۔ان حالات کے پیش نظر الیکشن کمیشن دونوں نگران صوبائی حکومتوں سے پُر امن الیکشن کا انعقاد یقینی بنانے کیلئے خصوصی مشاورت کرے۔آٹھ فروری کو عوام کی بھاری تعداد باہر نکلنے کا امکان ہے اور اس بار ووٹ کا ٹرن آئوٹ غیر معمولی ہوتا نظر آ رہا ہے۔الیکشن کے دن چار کروڑ نوجوان ووٹرز انتخابی عمل میں اہم کردار ادا کریں گے جس کی وجہ سے پولنگ کا ٹرن آئوٹ میرے اندازے کے مطابق 75فیصد کے لگ بھگ پہنچ سکتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ ملک کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار خاموش ووٹرز سسٹم ہی تبدیل کر دیں۔
عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی کی 266میں سے 208نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کر چکی ہے اور باقی نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی گئی ہے‘ سندھ اور بلوچستان میں قومی اسمبلی کے امیدواروں کا فقدان ہے۔ جبکہ تحریک انصاف نے 224 ارکان کو قومی اسمبلی کی نشستوں پر آزاد حیثیت سے کھڑا کر رکھا ہے لیکن شنید ہے کہ تحریک انصاف اندرونی تقسیم کا شکار ہو چکی ہے اور قانونی طور پر پارٹی کا چیئرمین اور عہدیداران موجود نہیں ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں کی 593میں سے 463 نشستوں پر مسلم لیگ (ن) امیدوار کھڑے کر چکی ہے جبکہ تحریک انصاف نے تمام صوبائی نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ مذہبی جماعتوں میں مولانا فضل الرحمن کی جماعت اس وقت خیبر پختونخوا اور سندھ میں نظر آ رہی ہے جبکہ جماعت اسلامی قومی جماعت کی حیثیت سے سامنے آئی ہے ۔ ان عام انتخابات میں بڑے بڑے سیاستدانوں کے برج اُلٹ جانے اور غیر متوقع نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ بہرحال الیکشن کمیشن کو اپنے تمام انتظامات بروقت مکمل اور مؤثر رکھنا ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں