"KDC" (space) message & send to 7575

بیلٹ پیپر کی اشاعت آخری مراحل میں داخل

الیکشن کمیشن آف پاکستان 8 فروری کے انتخابات کے حوالے سے 26 کروڑ سے زائد بیلٹ پیپرز کی اشاعت کے لیے آخری مراحل سے گزر رہا ہے ۔ شیڈول کے مطابق 3 فروری کو بیلٹ پیپرز کی اشاعت مکمل ہو جائے گی اور پھر رینجرز کے ذریعے متعلقہ ریٹرننگ آفیسرز تک حلقہ کے مطابق بیلٹ پیپرز پہنچا دئیے جائیں گے اور ڈبل لاک میں ان کو حفاظت کے ساتھ محفوظ کر لیا جائے گا ۔ 7 فروری کو یہ ریٹرننگ آفیسرز کے حوالے کر دیے جائیں گے اور 8 فروری کے فائنل انتظامات کی ذمہ داری متعلقہ ریٹرننگ آفیسرز کی ہے۔ پولنگ صبح 8 بجے سے شام پانچ بجے تک جاری رہے گی ‘ ان نو گھنٹوں میں ووٹرز مستقبل کے بارے میں اپنا فیصلہ صادر کریں گے۔
بنگلہ دیش میں7 جنوری کو ہونے والے عام انتخابات کا بنگلہ دیش کی صفِ اول کی اپوزیشن جماعت نے بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ حسینہ واجد جو 2009ء سے وزارت ِ عظمیٰ کے منصب پر براجمان ہیں‘ نے بین الاقوامی مبصرین کی شدید تنقید کے باوجود وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا۔ یکم جنوری 2009ء کو بنگلہ دیش میں انتخابات تمام سیاسی پارٹیوں کی مفاہمت سے افواجِ بنگلہ دیش کی نگرانی میں اور بین الاقوامی ااداروں کی معاونت سے منعقد ہوئے تھے ۔ بطورسیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان ‘ میں نے بنگلہ دیش کے اُن انتخابات کا مشاہدہ کیا تھا۔ یکم جنوری 2009ء کے انتخابات فرسٹ ورلڈ ڈیموکریسی کے عین مطابق ہوئے تھے اور ووٹر ٹرن آؤٹ 75 فیصد سے زائد رہا‘ لاء اینڈ آرڈر مکمل کنٹرول میں تھا‘ پولنگ سٹیشن پر صرف ایک سپاہی بانس کی چھڑی لے کر کھڑا تھا اور پولنگ سٹیشنوں پر ووٹرز کا جم غفیر تھا۔ میں نے بین الاقوامی مبصرین کے ہمراہ 25پولنگ سٹیشنز کا معائنہ کیا اور مثالی انتظامات کو دیکھتے ہوئے اسی طرز پر پاکستان میں انتخابات کرانے کے لیے سفارشات مرتب کیں۔ ان انتخابات کی نمایاں خوبی جو دیکھنے میں آئی وہ ووٹرز کو یہ اختیار دینا تھا کہ بیلٹ پیپرز پر Non of Above کا کالم بھی موجود تھا جس میں ووٹر چاہتے تو ناپسندیدہ کے کالم میں مہر لگا سکتاتھا‘ اُس وقت کے قوانین کے مطابق اگر 30 فیصد سے زائد بیلٹ پیپرز پر ناپسندیدہ کی مہر لگی ہوتی تو اس حلقہ میں ازسر نو انتخاب کرانے کی ذمہ داری بنگلہ دیشی الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی تھی۔ 2024ء کے انتخابات میں بنگلہ دیش کا ٹرن آؤٹ 40 فیصد رہا۔ وزیراعظم حسینہ واجد کے حامیوں کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کو مشکلات سے نکال کر سیاسی‘ معاشی استحکام فراہم کیا۔بہرکیف عوامی لیگ اپوزیشن کی غیر موجودگی میں کامیاب تو ہو گئی لیکن الیکشن میں ریکارڈ توڑ دھاندلی بھی دیکھنے میں آئی ۔ امریکہ اور برطانیہ نے بنگلہ دیش کے الیکشن کو تسلیم نہیں کیا۔
پاکستان میں1951ء سے 2008ء تک انتخابات پر شفافیت کے حوالے سے تنقید ہوتی رہی ہے اور ہارنے والی جماعتوں نے الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا۔ جہاں تک انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنانے کا معاملہ ہے مختلف ممالک میں مختلف پالیسیاں ہوتی ہیں۔ سویڈن میں درست انتخابی فہرست کو اولین حیثیت دی جاتی ہے۔ میں نے 2001ء میں سویڈن کا انتخابی نظام دیکھا تھا‘ چونکہ ترقی یافتہ ملک کی صف میں کھڑا ہے‘ عوام انتخابات کے دنوں میں معمولی سرگرمیاں دکھاتی ہیں‘ جلسے جلوس اور تعطیل کا رواج نہیں ‘ دفتری اوقات میں ووٹ کاسٹ کرائے جاتے ہیں۔ ووٹ کی رجسٹریشن کے لیے نیشنل پاپولیشن رجسٹرہی پر انحصار کیا جاتا ہے جو نادرا کی طرز پر کام کر رہا ہے اور پولنگ سٹیشن پر ووٹر کی شناخت لازمی ہوتی ہے۔ جرمنی میں الیکٹرانک گنتی کا طریقہ کار اپنایا جاتا ہے۔ کینیڈا تصدیق کے متعدد مراحل اور مبصرین کی موجودگی کے ساتھ ووٹروں کی گنتی کے دوران شفافیت کو برقرار رکھتا ہے۔ میں نے کینیڈا کے انتخابی عمل کا مشاہدہ 2006ء میں کیا تھا۔ کینیڈا میں ریٹرننگ آفیسرزتین ماہ کے کنٹریکٹ پر رکھے جاتے ہیں جن میں ریٹائرڈ ججز‘ بیورو کریٹس‘ اساتذہ اور سول سوسائٹی کے نمائندے شامل ہوتے ہیں اور الیکشن کرانے کے بعد ریکارڈ کینیڈا میں الیکشن کمیشن کے حوالہ کر کے فارغ ہو جاتے ہیں۔ کینیڈا کے قانون کے مطابق پارلیمنٹ کی تحلیل کے بعد 28 دنوں میں انتخابات کرانا لازمی ہے۔ کینیڈا نے الیکشن میٹریل کے لیے خوبصورت اور محفوظ عمارت حاصل کر رکھی ہے جہاں الیکشن میٹریل محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ میں نے اسی جگہ پر مختلف سالوں کے انتخابات کا ریکارڈ چیک کیا تو انہوں نے چند منٹوں میں ہمیں ریکارڈ دکھا دیا۔میں نے 1994ء میں ناروے کے لوکل گورنمنٹ کے الیکشن کا مشاہدہ کیا تھا‘ الیکشن کے دن شراب کی دکانیں بند کر دی جاتی ہیں تاکہ لوگ ہلڑ بازی نہ کر یں اور بین الاقوامی مبصرین کو الیکشن کے تمام مرحلوں سے مکمل بریفنگ دی جاتی ہے۔ آسٹریلیا انتخابی عمل کے بارے میں شہریوں کو آگاہی کرنے کے لیے وسیع عوامی بیداری مہم چلاتا ہے۔
پاکستان میں 8 فروری کے انتخابات کیلئے نگران حکومت الیکشن کمیشن کو معاونت کر رہی ہے اور دو لاکھ اسّی ہزار پاکستانی افواج کے اہلکار بھی پولنگ سٹیشنوں پر ووٹرز اور انتخابی عملہ کی حفاظت کیلئے موجود ہوں گے۔ پولنگ کی شفافیت کو برقرار رکھنے کیلئے ہر پارٹی کے پولنگ ایجنٹ کو اہم ذمہ داری ہے‘ پولنگ شروع سے گنتی کے مرحلہ تک پولنگ ایجنٹ اگر پولنگ سٹیشنوں پر موجود رہیں تو دھاندلی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ پولنگ ایجنٹ کا فرض ہے کہ گنتی کے بعد پریذائیڈنگ آفیسرز سے رزلٹ کی کاپی فارم 45 پر حاصل کریں اور پریذائیڈنگ آفیسرز بھی قانون کے مطابق رزلٹ کی کاپی پولنگ ایجنٹ کو دینے کا پابند ہے۔ الیکشن کمیشن 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کا اعلان 9 فروری کی رات ایک بجے کرے گا۔ الیکشن کے دن ملک بھر سے رزلٹ الیکشن کمیشن بھیجنے کے انتظامات کر لیے گئے ہیں۔ تمام حلقوں کے ریٹرننگ آفیسرز کو تین تین ڈیٹا انٹری آپریٹرز فراہم کیے جائیں گے اور الیکشن مینجمنٹ سسٹم کا استعمال کیا جائے گا۔ تمام ریٹرننگ آفیسرز کو فائبر آپٹک کی سہولت بھی میسر ہوگی اور متبادل کے طور پر وائی فائی ڈیوائس بھی دی جا رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے انتظامات درست سمت جا رہے ہیں اور حالات 8 فروری کو پولنگ سٹیشنوں پر عوام کاجم غفیر دیکھتے ہوئے سامنے آئیں گے۔
جوں جوں انتخابات کی تاریخ نزدیک آ رہی ہے سکیورٹی خدشات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ حیرانی ہے کہ اسلام آباد میں تین یونیورسٹیوں کو غیر معینہ مدت کیلئے بند کر دیا گیا ہے۔ سکیورٹی الرٹ حساس اداروں کی جانب سے جاری کیا گیا ہے جبکہ ملک کی انتخابی تاریخ میں مجموعی طور پر سیاسی جماعتوں کے چھ ہزار امیدوار قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن لڑیں گے اور 11 ہزار 785 آزاد امیدوار میدان میں ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں پر 882 خواتین اور چار خواجہ سرا الیکشن لڑیں گے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 2024ء کے انتخابات شفاف ترین کرانے کیلئے ڈیجیٹل سسٹم کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا ہے اور فلاپ ہونے پر متبادل انتظامات بھی کیے جائیں گے۔
آخر میں کچھ عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے تازہ حلفیہ بیان کے بارے میں ‘جن کا سرکاری دورانیہ ہمیشہ متنازع رہا اور مبینہ طور پر انہیں جہانگیر ترین کے ایما پر ٹیم میں شامل کیا گیا۔اعظم خان نے اپنے بیان میں دو اہم باتیں تبدیل کی ہیں ‘البتہ سائفر کیس کے معاملے میں وہ زیادہ تر باتوں پر اب بھی قائم ہیں۔ اعظم خان نے سائفر کی حوالگی سے لے کر گمشدگی تک سارے معاملات کی تصدیق کی ہے۔ میری رائے میں اعظم خان نے ہوشیاری سے عمران خان کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے عمران خان کو سزا دلانے میں باریکی سے کام لیا ہے چونکہ عمران خان کی ٹیم انتظامی امور سے نابلد ہے لہٰذا وہ اعظم خان کے حلفیہ بیان کی تہہ تک نہیں پہنچ سکی اور عدالتی حلف نامہ بادی النظر میں عمران خان کے خلاف گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں