"KDC" (space) message & send to 7575

بلدیاتی ادارے غیر فعال ہو گئے

ہر گزرتا دن آئندہ عام انتخابات کو مزید قریب لا رہا ہے اور اب تو یہ دو ہفتوں سے بھی کم دوری پر ہیں۔ اس کے پیشِ نظر الیکشن کمیشن نے ضابطۂ اخلاق کے مطابق ملک بھر کے بلدیاتی و کینٹ بورڈز کے ترقیاتی فنڈز منجمد کر دیے ہیں۔ سندھ‘ خیبرپختونخوا‘ بلوچستان اور کینٹ بورڈز کے بلدیاتی اداروں کے ترقیاتی فنڈز عام انتخابات کی تکمیل تک منجمد رہیں گے اور وہ صرف روزمرہ کے امور نمٹانے کیلئے فنڈز استعمال کرنے کے مجاز ہوں گے۔ وہ کسی نئی سکیم کا اجرا نہیں کر سکیں گے۔ صرف وہی ترقیاتی کام جاری رہیں گے جن کا اعلان عام انتخابات کا شیڈول جاری ہونے سے پہلے ہوچکا تھا۔ بلدیاتی اداروں کے ترقیاتی فنڈز کے اجرا پر پابندی شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کیلئے لگائی گئی ہے۔ ہر بار عام انتخابات کا شیڈول جاری ہونے کے بعد بلدیاتی اداروں کو غیر فعال کر دیا جاتا ہے۔ 2008ء کے انتخابات کے موقع پر بھی الیکشن کمیشن نے بلدیاتی اداروں کو غیرفعال کر دیا تھا اور الیکشن ضابطۂ اخلاق کی روشنی میں ناظم اور دیگر بلدیاتی عہدیداران کی سرگرمیوں کو بھی محدود کر دیا تھا لیکن چونکہ 2013ء کے انتخابات کے وقت بلدیاتی اداروں کے انتخابات نہیں ہوئے تھے‘ لہٰذا یہ معمول کے مطابق کام کرتے رہے۔
عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ نزدیک آنے کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی انتخابی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ اس وقت ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) زیادہ متحرک ہیں جبکہ تحریک انصاف کے ورکرز زیرِ زمین کام کر رہے ہیں اور زیادہ تر سوشل میڈیا پر ہی اپنی انتخابی مہم چلاتے نظر آتے ہیں۔اس بار 18ہزار امیدوار میدان میں ہیں لیکن وہ گہما گہمی دکھائی نہیں دیتی جو اس سے قبل منعقد ہونے والے انتخابات میں دیکھی گئی۔ آٹھ فروری کے الیکشن پر ریاست کے تقریباً ایک کھرب روپے خرچ ہوں گے اور 18ہزار امیدوار جو اپنی انتخابی مہم پر اخراجات کریں گے وہ اس کے علاوہ ہیں‘ لہٰذا انتخابی اخراجات کا کل تخمینہ پانچ کھرب روپے لگایا جا رہا ہے۔ ایسے موقع پر جبکہ ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے‘ برآمدات زوال پذیر ہیں‘ مہنگائی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے‘ عوام کی انتخابات میں دلچسپی دکھائی نہیں دیتی اور اب تو انتخابات کے انعقاد تک سکیورٹی الرٹ بھی جاری ہو چکا ہے جس کا نتیجہ ووٹر ٹرن آؤٹ میں کمی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ پاکستان کو یہ سکیورٹی خدشات بھارت سے ہیں۔ گزشتہ روز سیکرٹری خارجہ بھارت کی پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کے شواہد بھی پیش کر چکے ہیں۔
آئندہ انتخابات کے نتیجے میں جو بھی منتخب حکومت وجود میں آئے گی اُسے بے شمار دیگر چیلنجز کے ساتھ ساتھ انتخابی اصلاحات کا چیلنج بھی درپیش ہوگا۔ اس مقصد کیلئے اگر ایک انتخابی اصلاحات کمیشن قائم کر لیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اسی انتخابی اصلاحات کمیشن کے ذریعے آئین میں بھی ترامیم کی جا سکتی ہیں جس کے تحت پارلیمنٹ کی مدت چار سال کی جا سکتی ہے جبکہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کیلئے بھی یہ شرط عائد کی جا سکتی ہے کہ کوئی بھی شخص دو سے زیادہ بار وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ صدر پرویز مشرف نے الیکشن آرڈر 2002ء کے تحت وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کیلئے یہ شرط عائد کی تھی اور سترہویں ترمیم میں اسے باقاعدہ آئین کا حصہ بنا دیا تھا لیکن بعد ازاں رضا ربانی کی سربراہی میں بننے والی آئینی اصلاحات کمیٹی میں آئین میں اٹھارہویں ترمیم کرتے ہوئے یہ شرط ختم کر دی گئی۔ اسی طرح انتخابی اصلاحات کے ذریعے ارکانِ پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز کی فراہمی بھی ممنوع قرار دی جانی چاہیے۔ ساتھ ہی کسی بھی سیاسی پارٹی کی سربراہی کی مدت بھی مقرر کی جانی چاہیے جس کے تحت ایک شخص زیادہ سے زیادہ دو بار ہی پارٹی کا سربراہ یا چیئرمین مقرر ہو سکتا ہے۔ اراکینِ قومی یا صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز کے خلاف ریفرنس براہِ راست الیکشن کمیشن کو بھجوانے کیلئے بھی آئین میں ترمیم کی جانی چاہیے۔ اسی طرح کسی بھی رکنِ اسمبلی کے خلاف بدعنوانی ثابت ہونے پر الیکشن کمیشن کی طرف سے تجویز کردہ سزا حتمی تصور کی جانی چاہیے۔ کاغذاتِ نامزدگی میں ایک نئے کالم کا اضافہ بھی کیا جانا چاہیے جس میں امیدوار سے یہ پوچھا جائے کہ اُس کی جماعت نے اپنے پارٹی منشور پر کس حد تک عمل کیا ہے اور اسے ماضی میں دیے گئے ترقیاتی فنڈز کو استعمال کرنے کی تفصیل بھی طلب کی جانی چاہیے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو بیرونِ ملک پارٹی کا دفتر کھولنے کی اجازت بھی نہیں ہونی چاہیے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے بارے میں تمام سیاسی پارٹیوں سے مشاورت کے بعد کوئی درمیانی راستہ نکالا جانا چاہیے۔ابھی تک نگران حکومتوں کو الیکشن کمیشن نے اسلئے فری ہینڈ دیا ہوا تھا تاکہ وفاق اور صوبوں میں کاروبارِ حکومت احسن طریقے سے چلتا رہے اور التوا کا شکار ترقیاتی کام بھی مکمل ہو جائیں۔ آٹھ فروری کے روز نگران حکومت کے اختیارات برائے نام رہ جائیں گے لیکن امن و امان کے حوالے سے انکے پاس وسیع اختیارات ہوں گے۔ ویسے بھی نگران حکومتوں کی زیادہ تر توجہ الیکشن کے دنوں میں امن و امان یقینی بنانے پر ہی مبذول رہنی چاہیے۔ پنجاب کی نگران حکومت نے دیگر نگران حکومتوں کے مقابلے میں متحرک کردار ادا کرکے عوام میں مقبولیت حاصل کی ہے۔ میری تجویز ہے کہ پنجاب کی نگران حکومت اپنے دور میں ہونیوالے تمام ترقیاتی کاموں کا ایک گرین پیپر شائع کرے تاکہ لوگوں کو اندازہ ہو سکے کہ اگر ایک نگران حکومت‘ جس کے اختیارات بھی محدود ہوتے ہیں‘ ایک سال میں اتنا کام کروا سکتی ہے تو ایک منتخب حکومت پانچ سال میں اتنا کام کیوں نہیں کروا سکتی۔
دوسری طرف چند روز کی کشیدگی کے بعد ایران اور پاکستان میں تعلقات کی معمول کے مطابق بحالی اس حوالے سے خوش آئند ہے کہ دونوں ملکوں نے کسی دشمن ملک کا آلہ کار بننے کے بجائے فوراً تعلقات کی بحالی پر راضی مندی ظاہر کر دی۔ شاہِ ایران نے 1950ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا اور پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان اور گورنر جنرل غلام محمد نے اُن کا پُرتپاک استقبال کیا تھا۔ محمد رضا شاہ پہلوی اپنی نوجوانی ہی میں شاہِ ایران مقرر ہو گئے تھے اور وہ پاکستانی عوام کی انتہائی پسندیدہ شخصیت تھے۔ ان کے دور میں پاکستان اور ایران ترقی کی راہ پر گامزن تھے۔ ملکۂ ایران فرح دیبا پاکستانی خواتین میں کافی مقبول تھیں۔ شاہِ ایران کی ہمشیرہ شہزادی اشرف پہلوی بیگم نصرت بھٹو کی سہیلی تھیں۔ دسمبر 1974ء میں شہزادی اشرف پہلوی نے پاکستان میں وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ذیلی ادارے پاکستان نیشنل سنٹر کا دورہ کیا تھا اور میں نے اس ادارے کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے ان کا استقبال کیا تھا۔ شہزادی اشرف پہلوی نے اسلام آباد میں مقیم تمام سفارتی نمائندوں سے ملاقات کی تھی۔ یہاں یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ شاہِ ایران متحدہ پاکستان کے زبردست حامی تھے اور وہ پاکستان کو تقسیم سے بچانے کیلئے شیخ مجیب الرحمن سے ملاقات کرنے بھی آئے تھے تاکہ ان سے مذاکرات کرکے کوئی درمیانی راستہ نکالتے ہوئے پاکستان کو متحد رکھا جائے۔ لیکن اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے شیخ مجیب الرحمن کو لائل پور جیل سے رہا کرکے خصوصی پرواز سے لندن بھجوا دیا تھا۔ بھٹو کے اس اقدام پر شاہِ ایران ناراض ہو کر اسلام آباد ایئر پورٹ سے ہی واپس تہران چلے گئے۔ شاید انہیں یہ احساس ہو گیا تھا کہ پاکستان کی قیادت مشرقی پاکستان کو الگ ریاست کو تسلیم کر چکی ہے۔ پاکستان سے دوستی نبھاتے ہوئے ایران نے بنگلہ دیش کو سب سے آخر میں تسلیم کیا تھا۔ جب 1974ء میں پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی تو شاہِ ایران نے ذوالفقار علی بھٹو سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اس میں خود شرکت کرنے کے بجائے اپنے وزیرخارجہ کو بھیجا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں