الیکشن کمیشن نے گزشتہ ہفتے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق تحریک انصاف کی چار متفرق درخواستیں مسترد کردیں۔ ان میں الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرنے کی درخواست بھی شامل تھی۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہاگیا کہ الیکشن ایکٹ اور رولز کے تحت الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشنز کی چھان بین کر سکتا ہے‘سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو تسلیم کیا ہے۔الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے تفصیلی فیصلے تک کیس ملتوی کرنے کی درخواست بھی مسترد کر دی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات پر عائد کردہ اعتراضات دور کیے بغیر سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک بانی تحریک انصاف کا تعلق ہے تو وہ اب بھی اپنے مقتدرہ مخالف بیانیے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ۔ ان کے خلاف مقدمات کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ دیکھا جائے تو بانی تحریک انصاف سیاسی لحاظ سے بند گلی میں کھڑے ہیں اور حالات و واقعات ان کا مقدمہ ملٹری کورٹ میں جانے کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ اگر ان کا مقدمہ ملٹری کورٹ میں جاتا ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ انہیں ملٹری کورٹ سے سزا بھی ہو سکتی ہے۔ فیض حمید پہلے ہی گرفتار ہیں‘ اگر عمران خان کا مقدمہ بھی ملٹری کورٹ کو منتقل کر دیا گیا تو جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے ٹرائل کے امکانات بھی روشن ہو جائیں گے۔ملک کے سیاسی طوفان کا ذمہ دار یہی ٹرائیکا ہے۔ بہرحال یہ تو بعد کا معاملہ ہے کہ عمران خان کا کیس ملٹری کورٹ کو منتقل کیا جاتا ہے یا نہیں‘ فی الحال تو حکومت ان کے بیانات سے فائدہ اٹھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ تحریک انصاف کے اسلام آباد میں ہونے والے جلسے سے بھی یہی اشارہ ملتا ہے کہ پی ٹی آئی اب بھی مزاحمتی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ حالانکہ موجودہ ملکی حالات میں مزاحمت کے بجائے مفاہمت کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔مگر پی ٹی آئی کی قیادت کو یہ بات کون سمجھائے۔ بانی پی ٹی آئی نے عمر ایوب کا استعفیٰ قبول کرتے ہوئے ان کی جگہ سلمان اکرم راجہ کو پارٹی کا سیکرٹری جنرل مقرر کردیا گیا ہے‘ دیکھنا یہ ہے کہ اس تبدیلی کا پارٹی پر کیا اثر پڑتا ہے۔ عمر ایوب تو جذباتی طبیعت کے مالک ہیں مگر بیرسٹر سلمان اکرم راجہ کی طبیعت میں ٹھہراؤ ہے اور ان کے اعلیٰ عدالتی حلقوں سے بھی خوشگوار تعلقات ہیں۔ ان کے والد راجہ اکرم پاکستان کے صفِ اول کے وکلا میں سے تھے۔ میں نے حاجی سیف اللہ کیس اور محمد خان جونیجو برطرفی کیس میں انہیں معاونت فراہم کی تھی۔
دوسری جانب صدرِ مملکت آصف علی زرداری کی طرف سے اسلام آباد لوکل باڈیز ترمیمی بل پر دستخط کیے جانے کے بعد الیکشن کمیشن نے وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات ایک بار پھر مؤخر کر دیے ہیں۔الیکشن کمیشن نے 29 ستمبر کو الیکشن کے انعقاد کا اعلان کیا تھا۔اس سے قبل 2022ء میں بھی اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات ملتوی ہوگئے تھے۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کے بعد اب اسلام آباد کی ہر یونین کونسل کے نو جنرل وارڈز ہوں گے۔ براہِ راست انتخاب میں ووٹرز صرف ان جنرل وارڈز کے امیدواروں کو ووٹ دیں گے۔ پھر ان نو وارڈز کے ممبران مخصوص نشستوں پر خاتون‘نوجوان‘اقلیت اور مزدوروکسان کو منتخب کریں گے۔اور پھر آخری مرحلے میں یونین کونسل کے 13ممبران چیئرمین اور وائس چیئرمین کا انتخاب کریں گے۔ اُدھر پنجاب میں بھی نیا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2024ء التوا کا شکار ہے۔گزشتہ ہفتے مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد پنجاب کا نیا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2024ء جلد اسمبلی سے منظور کرانے اور رواں سال کے دوران ہی صوبے میں بلدیاتی انتخابات منعقد کروانے کا اعلان کیا گیا تھا۔لیکن ابھی تک نئے بلدیاتی ایکٹ کا مسودہ اسمبلی میں پیش ہی نہیں کیا جا سکا۔ نئے ایکٹ کے مسودہ کے مطابق میئر کا انتخاب جماعتی بنیادوں پر کروانے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ اربن اوررورل ایریاز کی نئی حد بندی کی جائے گی۔اسی طرح ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں میٹرو پولیٹن کارپوریشنز بنائی جائیں گی۔ مسودے کے مطابق 15 ہزار سے 50 ہزار تک آبادی کے لیے ٹاؤن کمیٹی‘ دو لاکھ تک آبادی کے لیے میونسپل کمیٹی بنائی جائے گی‘ پانچ لاکھ تک آبادی کے لیے میونسپل کارپوریشنز بنائی جائیں گی جبکہ سات لاکھ سے اوپر آبادی کے لیے میٹروپولیٹن کارپوریشن بنائی جائیں گی۔ملک میں ترقی کے عمل کو تیز تر بنانے اور عوام کوبنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے مقامی حکومتوں کا قیام ناگزیر ہے۔ اس لیے حکومتوں کو لوکل باڈیز کے انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹیں جلداز جلد دور کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ تو تھی ملک کے سیاسی منظر نامے کی روداد اب ایک نظر معاشی حالات کی طرف بھی ۔حکومت کے مطابق ملک کی معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی تین سال کی کم ترین سطح پر آ چکی ہے۔ آئی ایم ایف سے نئے قرض کے امکانات بھی روشن بتائے جاتے ہیں‘ اگرچہ ابھی تک آئی ایم ایف کے بورڈ اجلاس کے ایجنڈے پرپاکستان کا معاملہ نہیں آیا ۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ میں کردار ادا کر رہی ہے۔ اگر موجودہ حکومت ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے میں کامیاب ہو گئی تو عوام میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کم ہو سکتی ہے۔ اگر حکومت عوام کو ریلیف پہنچانے میں کامیاب ہو گئی تو بانی پی ٹی آئی کا بیانیہ بھی دم توڑ جائے گا۔
بلوچستان کی بات کی جائے تو وہاں کا سب سے بڑا مسئلہ احساسِ محرومی ہے۔ شدت پسند تنظیمیں بلوچ عوام کی محرومیوں کو اپنا ہتھیار بنا رہی ہیں۔بلوچ عوام کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کے لیے 18ویں ترمیم پر من و عن عمل کرنا چاہیے۔ آئینِ پاکستان کی 18ویں ترمیم کے تحت وفاق سے تقریباً27محکمے صوبوں کومنتقل کیے گئے مگر آغاز میں صرف 17 وزارتیں وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوئیں۔آئینی طور پر صوبوں کو خود مختاری دینے کیلئے وفاق نے جن محکموں کو صوبوں کے حوالے کیا ان میں تعلیم‘ صحت‘ زراعت‘ آبپاشی‘ ماحولیات‘ ثقافت‘ توانائی‘ سیاحت‘ کھیل‘ لوکل گورنمنٹ‘ انسانی حقوق‘ خوراک‘ ایکسائز‘ ریونیو‘ ٹرانسپورٹ‘انفارمیشن ٹیکنالوجی اور معدنیات وغیرہ شامل ہیں۔ یہ محکمے صوبوں کو منتقل ہونے کے باوجود بلوچستان کے عوام محرومی کا شمار ہیں۔ بلوچستان کے عوام کو سہولتیں میسر نہ ہونے اور ایوان میں بلوچستان کے مسائل پر آواز نہ اٹھائے جانے کی وجہ سے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے صدر اور رکنِ قومی اسمبلی سردار اختر مینگل نے ایوانِ زیریں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ سردار اختر مینگل نہایت شریف‘ وضع دار اور نرم خو سیاستدان ہیں‘ انہوں نے زمینی حقائق کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ میں 1996ء سے 2000ء تک الیکشن کمشنر بلوچستان رہا‘ اس لیے میں بلوچستان کے اہم سیاستدانوں کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ بلوچستان کے اہم ترین علاقوں گوادر‘ پسنی‘ تربت‘ پنجگور‘ خاران‘ لسبیلہ اور مستونگ میں ایران کا بھی بہت اثر و رسوخ ہے۔ مجھے نواب اکبر بگٹی نے ان علاقوں میں ایرانی اثرو رسوخ کی تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔ حکومت کو بلوچستان کے ناراض عوام اور سرداروں سے مذاکرات کرنے چاہئیں اور ان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہیے۔ بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے جو معدنی وسائل سے مالامال ہے۔ اگر اس صوبے کے وسائل اسی صوبے کی ترقی پر خرچ ہوں تو بلوچستان کو شدت پسند عناصر سے پاک کیا جا سکتا ہے اوریہ صوبہ ملکی معیشت مستحکم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ بلوچستان کی موجودہ صوبائی حکومت خاصی کمزور دکھائی دیتی ہے ورنہ صوبے کے حالات اس قدر خراب نہ ہوتے۔ بلوچ عوام کی محرومیوں کو ختم کرکے انہیں شدت پسندوں کا آلہ کار بننے سے بچایاجا سکتا ہے۔مگر کوئی مخلص قیادت ہی ایسا کر سکتی ہے۔