مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے اکثریتی بینچ نے وضاحتی حکم جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں فروری کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کا پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے امیدوار ‘ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ہی تصور ہوں گے اور الیکشن کمیشن اس فیصلے پر فوری طور پر عملدرآمد کرے۔یہ فیصلہ چار صفحات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 41 اراکین سے متعلق وضاحت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ الیکشن کمیشن کی وضاحت کی درخواست کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش اور تاخیری حربہ ہے اور یہ کہ یہ وضاحتی درخواست عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ مزید یہ کہ الیکشن کمیشن نے خود بیرسٹر گوہر کو پارٹی چیئرمین تسلیم کیا تھا‘ الیکشن کمیشن کی تسلیم شدہ پوزیشن کے مطابق تحریک انصاف رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے۔الیکشن کمیشن اب وضاحت کے نام پر اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کر سکتا۔ سپریم کورٹ کا 12 جولائی کا فیصلہ واضح ہے اور اس کا اطلاق قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر بھی ہوگا۔سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو فیصلے پر فوری عملدرآمد کی ہدایت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ عدالتی فیصلے پر عمل میں تاخیر کے نتائج ہو سکتے ہیں۔دیکھا جائے تو سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے سے الیکشن کمیشن دو راہے پر کھڑا ہو چکا ہے کیونکہ اس فیصلے میں انٹرا پارٹی انتخابات کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ گوکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اس فیصلے پر عملدرآمد کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے ابھی کوئی بیان جاری نہیں ہوا لیکن بادی النظر میں یہ دکھائی دے رہا ہے کہ دونوں آئینی اداروں کے مابین یہ کشمکش ابھی مزید چلے گی۔ الیکشن کمیشن کے پاس یہ جواز موجود ہے کہ جب تک پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آ جاتا‘ الیکشن کمیشن اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں کر سکتا۔ مزید برآں یہ کہ پارلیمنٹ اپنے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ 2017ء میں یہ ترمیم کر چکا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان الیکشن ایکٹ کی دفعات کے حوالے سے کوئی مداخلت نہیں کر سکتی۔ پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی یہ ترمیم نہایت اہمیت کی حامل ہے جواَب ایکٹ کی شکل اختیارکر چکی ہے اور الیکشن کمیشن کو اپنے نقطۂ نظر پر کھڑا رہنے کا جواز فراہم کرتی ہے۔اس صورتحال میں چیف الیکشن کمشنر کا کردار بھی بڑا اہم ہو سکتا ہے۔ میں ان کو بہت قریب سے جانتا ہوں‘ وہ الیکشن کمیشن کے اختیارات کے دفاع کے لیے ہرممکن کوشش کریں گے۔
دوسری جانب حالیہ دنوں میں جو ایک اور بڑا واقعہ پیش آیا وہ پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے سے تحریک انصاف کے اراکینِ قومی اسمبلی کی گرفتاری ہے۔ پی ٹی آئی کے اراکینِ اسمبلی کی پارلیمنٹ کے احاطے سے گرفتاری پر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے آئی جی اسلام آباد کو فوری طور پر گرفتار ارکینِ اسمبلی کی رہائی کا حکم دیا اورقومی اسمبلی کے سارجنٹ ایٹ آرمز سمیت چار اہلکاروں کو چار ماہ کے لیے معطل کر دیا۔مزید برآں سپیکر قومی اسمبلی نے بدھ کو پی ٹی آئی کے گرفتار اراکین کے پروڈکشن آرڈر جاری کرتے ہوئے انہیں پارلیمنٹ کے جاری اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت بھی جاری کی‘ جس کے بعد اسلام آباد پولیس کی طرف سے گرفتار ارکین کو اسمبلی اجلاس میں پیش کر دیا گیا۔ بعد ازاں سپیکر قومی اسمبلی نے اراکینِ پارلیمنٹ کی سکیورٹی کے پیشِ نظر پارلیمنٹ لاجز میں ان کے فلیٹس کو سب جیل قرار دے دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے پی ٹی آئی اراکین کی پارلیمنٹ کے احاطے سے گرفتاری کے عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایوان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت آگ پر تیل ڈالے گی تو اپنا کام نہیں کر سکے گی‘ بانی پی ٹی آئی سے کوئی ذاتی مخالفت نہیں‘انہوں نے ایوان کا ماحول خراب کر دیا تھا‘ آپ بھی وہی کریں گے جو انہوں نے کیا تو کل آپ اور میں بھی جیل میں ہوں گے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے بھی پارلیمنٹ ہاؤس سے پی ٹی آئی اراکین کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے پارلیمنٹ پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ اراکینِ پارلیمنٹ کی گرفتاری کی مذمت نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا کہ یہ غیرمعمولی معاملہ ہے جس کی سنجیدہ انکوائری کرا کے ایکشن لینا ہوگا۔ جبکہ (ن)لیگ کے رہنما رانا تنویر حسین نے کہا کہ جب ہم چیخ چیخ کر کہتے تھے کہ پارلیمنٹ پر حملے نہ کریں تو اس وقت ہمیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ انہوں نے علی محمد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب بھی موقع ہے اپنے لوگوں کو سمجھائیں۔ اختلافِ رائے یہ نہیں کہ میں نہیں تو پھر پاکستان بھی نہیں۔ بہرحال قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے پی ٹی آئی کے اراکینِ پارلیمنٹ کی گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔سردار ایاز صادق کی طرف سے پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے سے اراکینِ اسمبلی کی گرفتاری پر ایکشن لیے جانے کے بعد اُمید ہے کہ پارلیمنٹ کا تقدس پامال کرنے والوں سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ اس تناظر میں اسلام آباد پولیس سمیت جو بھی توہینِ پارلیمنٹ کا مرتکب ہوا ہے اس کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے جانے کا امکان ہے۔
1973ء کے دستور میں اراکینِ پارلیمنٹ کو مکمل تحفظ دیتے ہوئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو‘ متعلقہ اسمبلی کا سیشن شروع ہونے سے 14 دن پہلے اور 14 دن بعد‘ گرفتارکرنے کی اجازت نہیں تھی اور سپیکر قومی اسمبلی کی اجازت کے بغیر کسی رکنِ اسمبلی کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا تھا‘ لیکن آٹھویں آئینی ترمیم میں یہ تمام شقیں حذف کر دی گئیں۔ اب سردار ایاز صادق نے توہینِ پارلیمنٹ کے مرتکب ہونے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے جو عملی قدم اٹھایا ہے‘ اگر وہ اس میں کامیاب ہو گئے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ حقیقی معنوں میں جاگ اُٹھی ہے۔
پی ٹی آئی کے اراکینِ اسمبلی کی گرفتاری سنگجانی جلسے کے بعد عمل میں آئی تھی جس میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے حوالے سے پُرزور مطالبات کیے گئے تھے۔ سنگجانی جلسے کی اوقات کار کو بھی حکومتی حلقوں اور انتظامیہ کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ جلسہ انتظامیہ کی طرف سے طے شدہ وقت پر ختم نہیں کیا گیا۔ جلسے کے لیے این او سی جاری ہونے کے باوجود پی ٹی آئی اراکینِ اسمبلی پر سختی اور اس کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے سے منتخب نمائندوں کی گرفتاری کا معاملہ بظاہر حکومت کے گلے پڑتا نظر آرہا ہے کیونکہ میڈیا‘ سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کی ایک غالب اکثریت نے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے۔
دوسری طرف عمران خان کہتے ہیں کہ 22 اگست کا جلسہ انہوں نے مقتدرہ کے کہنے پر ملتوی کیا تھا کیونکہ انہیں یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ آٹھ ستمبر کے جلسے کے لیے این او سی جاری کیا جائے گا‘ تاہم این او سی کے باوجود پی ٹی آئی کے جلسے کو روکنے یا شرکا کو محدود کرنے کے لیے مختلف حربے آزمائے گئے۔ اس کے بعد جلسے کی شرائط کی خلاف ورزی کے نام پر پارلیمنٹ کے احاطے سے جس طرح منتخب عوامی نمائندوں کو گھسیٹ کر گرفتار کیا گیا وہ نہ چاہتے ہوئے بھی حکومت کے لیے سبکی کا باعث بن رہا ہے۔اس سبکی سے بچنے کے لیے ایک طرف سپیکر قومی اسمبلی کوشاں ہیں تو دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دے چکے ہیں۔تو اب سوال یہ ہے کہ جب حکومت اس اقدام کو پسندیدہ قرار نہیں دے رہی تو پھر پی ٹی آئی اراکین کی گرفتاری کس کے کہنے پر عمل میں آئی تھی؟