"KDC" (space) message & send to 7575

بیلٹ پیپرز کی اشاعت میں رکاوٹ نہیں آئے گی

جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے الیکشن ٹریبونل کا سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 32 گجرات سے انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی ہے جبکہ چوہدری پرویزالٰہی نے باقی تمام انتخابی حلقوں سے دستبرداری اختیار کر لی ہے۔ اسی بینچ نے پی ٹی آئی سے وابستہ اور اب آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے والے طاہر صادق خان کے کاغذاتِ نامزدگی درست قرار دیتے ہوئے انہیں بھی انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی ہے۔طاہر صادق خان نے این اے 49 اٹک سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے جن کی مستردگی کے خلاف انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی لیکن لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔سپریم کورٹ نے ایک اور آزاد امیدوار عمر اسلم کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ کوئی قانون کسی مفرور کو انتخابات لڑنے کے بنیادی حق سے نہیں روکتا۔دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے واضح کیا کہ الیکشن کمیشن عوام کو جواب دہ ہے اور عوام کو ہی فیصلہ کرنے دیں کہ کون کیا ہے۔ بغیر قانون کسی کو الیکشن لڑنے کے بنیادی حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا‘ احتساب عوام کو کرنا ہے الیکشن کمیشن کو نہیں۔تحریک انصاف کے رہنماؤں کو الیکشن لڑنے کی اجازت ملنے کے بعد بیلٹ پیپرز کی اشاعت متاثر نہیں ہو گی بلکہ یہ اپنے شیڈول کے مطابق جاری رہے گی کیونکہ الیکشن کمیشن 13جنوری کو امیدواروں کو انتخابی نشان بھی الاٹ کرچکا ہے لیکن دوسری طرف الیکشن کمیشن کو عدالتی احکامات پر بھی من و عن عمل کرنا ہے۔ماضی میں بھی ایسا ہوچکا ہے کہ بعض ایسے امیدواروں‘ جن کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہو گئے تھے لیکن انہوں نے کاغذات کی مستردگی کے خلاف جب عدالتِ عظمیٰ میں اپیل دائر کی تو ان کے کاغذات درست قرار دیتے ہوئے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی۔ لیکن الیکشن کمیشن عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے سے قبل ہی بیلٹ پیپرز شائع کروا چکا تھا۔اس حوالے سے ایک دلچسپ صورتحال فروری 2008ء کے انتخابات کے موقع پر پیش آئی تھی جب لاہور ہائیکورٹ نے ایک امیدوار کی اپیل کا فیصلہ 16 فروری 2008ء کو کیا تھا جبکہ18فروری پولنگ کا دن تھا تو الیکشن کمیشن نے اسلام آباد میں پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان کو متعلقہ حلقے کے نئے بیلٹ پیپرز شائع کرنے کا حکم دیا اور 17فروری کی رات 11بجے نئے بیلٹ پیپر متعلقہ حلقے کے ریٹرننگ افسر کو بذریعہ سی وَن تھرٹی پہنچا دیے گئے تھے اور یہ 18فروری یعنی پولنگ روز کی صبح 8بجے متعلقہ پریزائیڈنگ افسران کو بھجوائے گئے تھے۔ میں ان دنوں چونکہ الیکشن کمیشن کا سیکرٹری تھا اور میری درخواست پر اُس وقت کے وزیر دفاع سلیم عباس جیلانی نے اس حوالے سے خصوصی احکامات جاری کیے تھے لیکن اس دفعہ چونکہ پولنگ ڈے میں ابھی تقریباً ڈیڑھ ہفتہ باقی ہے‘ اس لیے عدالت کے فیصلہ کی روشنی میں تمام مراحل احسن طریقے سے طے ہو جائیں گے۔
اگر بیلٹ پیپرز کی اشاعت کا معاملہ ایک طرف رکھ کر عدالتِ عظمیٰ کے گزشتہ روز کے فیصلوں پر نظر ڈالی جائے تو سپریم کورٹ آف پاکستان تمام امیدواروں کو لیول پلینگ فیلڈ کی فراہمی کیلئے کوشاں ہے۔اُن امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینا جن کے کاغذات مکمل تھے اور بلا جواز مسترد کیے گئے تھے‘ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ نہ صرف الیکشن کے مقرر کردہ تاریخ پر انعقاد بلکہ اس کے شفاف انعقاد کی کوشش بھی کر رہی ہے۔ جہاں تک تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کا تعلق ہے کہ وہ الیکشن جیتنے کے بعد کس سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرتے ہیں‘ اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے ہی کرنا ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 51اور 106کے مطابق آزاد امیدواروں کو تین دن کے اندر اندر یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ انہوں نے کس سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنی ہے۔
اُدھر وزارتِ داخلہ نے انتخابات کے دنوں میں امن و امان یقینی بنانے کے لیے فوج اور سول آرمڈ فورسز کی تعیناتی کا بھی نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔فوج کوآئین کے آرٹیکل 245 کے تحت پولنگ سٹیشنوں کی حفاظت اور ووٹرز کو پولنگ سٹیشنز تک بلا خوف رسائی فراہم کرنے کے لیے تعینات کیا جا رہا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق فوج‘سول آرمڈ فورسز کو بطور کوئیک رسپانس سکیورٹی فورس‘ حساس پولنگ سٹیشنوں‘ جن کی تعداد 17ہزار سے زائد ہے ‘ کیلئے تعینات کیا جائے گا۔ یہ تعیناتی پانچ سے 12 فروری 2024ء تک کیلئے ہو گی۔ پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان میں بھی سول و آرمڈ فورسز کو تعینات کیا جائے گا۔ یہ روایت 1993ء میں شروع ہوئی تھی۔گوکہ اس سے پہلے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے موقع پر بھی آرمی کو تعینات کیا گیا تھا لیکن تب ایسا محض علامتی طور پر کیا گیا تھا کیونکہ وہ غیر جماعتی انتخابات صدر ضیا الحق کی نگرانی میں کرائے جا رہے تھے۔ 1988ء میں بھی پرنٹنگ پریس آف پاکستان کے اندر اور باہر فوج کو محدود اختیارات کے ساتھ تعینات کیا گیا تھا لیکن نگران وزیراعظم معین الدین قریشی نے آرمی کو مکمل اختیار دے کر پرنٹنگ پریس کے تمام انتظامات آرمڈ فورسز کے حوالے کر دیے تھے اور تب فوج کی نگرانی میں ہی ہیلی کاپٹر کے ذریعے بیلٹ پیپرز ریٹرننگ افسران کو پہنچائے گئے تھے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے چاروں صوبائی الیکشن کمشنرز کو ایک مراسلہ ارسال کیا گیا ہے جس کے مطابق الیکشن کمیشن کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ امیدوار اپنی انتخابی مہم میں سرکاری اہلکاروں وافسران کی تصاویر استعمال کر رہے ہیں۔امیدوار اپنے پوسٹر اور بینرز پر کسی سرکاری اہلکار یا افسر کی تصویر نہیں لگا سکتے۔یہ الیکشن ضابطہ اخلاق کی شق 27کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔مراسلے میں ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسران کو اس حوالہ سے کا رروائی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔پنجاب کی نگران حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ امیدواروں کی انتخابی مہم کی راہ میں کسی قسم کی بھی کوئی مشکلات نہ کھڑی کی جائیں کیونکہ آئین کے آرٹیکل 224اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230کے تحت نگران حکومت مکمل غیر جانبدار ہے۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے اس حوالے سے صوبے کے چیف سیکرٹری‘ آئی جی پولیس اور صوبہ بھر کے کمشنرز و ڈپٹی کمشنرز کو واضح ہدایت جاری کردی تھیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی امیدوار ریاستی اداروں یا اہم عہدوں پر براجمان شخصیات کے خلاف نعرے بازی کرے۔
میں نے حالیہ دنوں ملائیشیا میں بیسٹ ڈپلومیٹس کے زیراہتمام منعقدہ ایک بین الاقوامی سیمینار میں‘ جس میں 40 سے زائد ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی تھی‘ خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان مضبوط سفارتی تعلقات استوار ہیں۔ دونوں اسلامی ممالک تجارتی اور دفاعی شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دے رہے ہیں۔ پاکستان میں ملائیشین رہنمائوں کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور پاکستانی عوامی انہیں رول ماڈل تصور کرتے ہیں۔ پاکستان نے 1964ء میں ملائیشین فیڈریشن کو تنکو عبدالرحمن کی وزارتِ عظمیٰ میں سب سے پہلے تسلیم کیا تھا۔ تنکو عبدالرحمن نے بطور وزیراعظم برصغیر کے ممالک کے حوالے سے غیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کرکے ملائیشیا کو باہمی مفاہمت کی راہ دکھائی تھی۔ ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد پاکستانی عوام کیلئے ہمیشہ ایک رول ماڈل رہے ہیں‘ان کے دور میں دونوں ملکوں کے تعلقات بہت مضبوط تھے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ اُسی طرح کے مضبوط تعلقات اب موجودہ ملائیشین وزیراعظم انوار ابراہیم کے دور میں بھی قائم ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں