"KDC" (space) message & send to 7575

سائفرکیس فیصلہ اور ووٹنگ ٹرن آؤٹ

پی ٹی آئی کے بانی اور ان کی اہلیہ کو توشہ خانہ کیس میں 14سال قید کی سزا سنا دی گئی اور احتساب قوانین کے مطابق وہ 10 سال کے لیے نااہل قرار دیے گئے ہیں، مجموعی طور پر انہیں ایک ارب 57 کروڑ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ قبل ازیں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں 10‘ 10 سال قید بامشقت کی سزا دی جا چکی ہے۔ ان دونوں اہم فیصلوں کا وقت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جنوری کا مہینہ پی ٹی آئی اور اس کے بانی چیئرمین کیلئے کافی بھاری رہا ہے‘ قبل ازیں 13 جنوری کو تحریک انصاف کا انتخابی نشان واپس لینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی توثیق سپریم کورٹ نے کر دی تھی۔ ان اہم کیسز کے فیصلوں کے بعد یقینا بانی پی ٹی آئی دلبرداشتہ ہوں گے۔ الیکشن سے آٹھ دن قبل اب فیصلوں کے پولنگ ڈے پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ اب خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے حامی ووٹرز بانی پی ٹی آئی کی سزا کے بعد سیاسی اور انتخابی عمل سے لاتعلق ہو جائیں گے۔ اس وقت بانی پی ٹی آئی کا مورال بھی گر چکا ہے اور ان کا سیاسی مستقبل بادی النظر میں اگلے پانچ سال تک تاریک نظر آتا ہے۔ تحریک انصاف کے آزاد امیدوار بانی پی ٹی آئی کے سہارے الیکشن مہم چلا رہے ہیں‘ اب طویل سزا کے بعد ان کی امیدوں پر بھی اوس پڑ چکی ہے اور ووٹرز کو بھی یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ جس امید پر‘ جس پارٹی کو ووٹ کاسٹ کرنے جا رہے ہیں‘ اس کی قیادت ہی کو دس سال کے لیے نااہل کر دیا گیا ہے۔
میں نے گزشتہ کالموں میں متعدد بار اس بات کا اظہار کیا کہ بانی پی ٹی آئی زیرِ سماعت مقدمات کو مؤخر کرنے کی حکمت عملی پر کام کر رہے تھے، ان کے وکلا نے ان کو ٹریپ کیا ہوا تھا اور وہ مقدمات کو آگے چلانے کے بجائے حکمِ امتناعی لینے یا پھر عدالتوں سے غیر حاضری تک محدود تھے اور اب اسی حکمتِ عملی کا انہیں نقصان پہنچا ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ‘ توہینِ الیکشن کمیشن‘ توشہ خانہ‘ سائفر‘ ان تمام اہم نوعیت کے مقدمات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور زیادہ تر عدالتوں سے عبوری ریلیف لینے کی کوشش کی جاتی رہی۔ وکلا بانی پی ٹی آئی ہی کے کہنے پر عدالتوں سے مسلسل غیرحاضر رہے۔ دراصل آج ان کو جو دن دیکھنے کو ملے ہیں‘ اس میں ان کی ناکام حکمت عملی‘ وکلا کا مفاد اور سیاسی وژن کا فقدان اہم اسباب ہیں۔ یہ اپنے مخلص دوستوں سے لاتعلقی اور تھنک ٹینک سے بے زاری کا نتیجہ ہے۔ کامیاب سیاستدان اپنے اردگرد کے ماحول کے باوجود اپنا ایک علیحدہ تھنک ٹینک بناتا ہے جس کے ارکان سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر اپنے تجربے کی بنیاد پررائے دیتے ہیں۔ آج جس دوراہے پر پی ٹی آئی کے بانی کھڑے ہیں‘ میرے گزشتہ دو سال کے کالم اس کے گواہ ہیں کہ میں نے اہم ترین مقدمات اور الیکشن کمیشن سے بلاوجہ محاذ آرائی‘ اداروں کو تقسیم کرنے کی پالیسی اور اہم مناصب پر فائز شخصیات کے خلاف شر انگیز مہم کے حوالے سے واضح کیا تھا کہ بانی پی ٹی آئی تنگ گلی اور تاریک ترین سرنگ میں داخل ہو چکے ہیں۔ ان کی ناکامی کا سبب یہ بھی رہا کہ ان کے اردگرد بیشتر وکلا اوسط درجے کی ذہنیت کے حامل تھے مگر اس کے باوجود وہ ان کے گھیرے میں رہے اور اپنی پارٹی کی قیادت بھی ان کے سپرد کر دی؛ اگر انٹرا پارٹی الیکشن کراتے وقت پارٹی کی قیادت جسٹس وجیہ الدین یا حامد خان میں سے کسی کو سپرد کر دیتے تو ان کو یہ دن دیکھنے کو نہ ملتے۔ مذکورہ شخصیات میں یہ وصف تھا کہ وہ پارٹی کو عدالتی‘ سیاسی اور دیگر بحرانوں سے باہر نکال لیتے۔ بہرحال اب تحریک انصاف کا سیاسی وجود اسی صورت اُبھر کر سامنے آئے گا کہ 8 فروری کے عام انتخابات اور اس کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومتوں کے بعد پی ٹی آئی میں انٹرا پارٹی الیکشن کروائے جائیں جو پارٹی کے دستوراور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 209 کے عین مطابق ہوں‘ جس کے بعد پارٹی کو نئی قیادت کے سپرد کر دیا جائے۔ پارٹی کے سابق سربراہ اب سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر مغل حکمران شاہجہاں کی طرح جھروکے سے سیاسی منظر دیکھتے رہیں گے۔
اب تو ان کی اہلیہ نے بھی گرفتاری دے دی ہے اور اب ان کی نظر یقینا القادر ٹرسٹ کیس اور 9 مئی کے اہم ترین مقدمات پر لگی ہوئی ہو گی۔ بانی پی ٹی آئی کو شاید ادراک ہی نہیں ہو رہا کہ وہ جس آگ سے کھیل رہے ہیں‘ اس سے ملکی وحدت و سالمیت متاثر ہو رہی ہے۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی‘ چودھری پرویز الٰہی اور پرویز خٹک جیسے مصالحت پسند رہنما ان کو احساس دلاتے رہے کہ وہ قبل از وقت صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے لیے دباؤ نہ ڈالیں‘ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی چند ایک بار مختلف مقدمات میں یہ اشارہ دیا تھا کہ وہ قومی اسمبلی میں بطور لیڈر آف اپوزیشن اہم آئینی کردار ادا کرتے ہوئے ایوانِ اسمبلی میں قانونی خدمات سرانجام دیں لیکن انہوں نے ہر معاملے کو غیر سنجیدگی سے لیا لہٰذا آج جو سزائیں انہیں مل چکی ہیں اور آئندہ بھی اہم مقدمات میں مزید سزائیں ملنے کا جو امکان ہے وہ سراسر ان کی اپنی ذہنی سوچ کا نتیجہ ہے۔
ان کے وکلا نے کسی عدالت میں بھی سنجیدگی کا ماحول برقرار نہیں رکھا اور تحریک انصاف کے نوجوان ورکرز اور حامیوں کو یہ جھوٹی امید دلائی کہ بانی پی ٹی آئی کو سزا نہیں مل سکتی۔ پارٹی کے سوشل میڈیا وِنگ نے بھی کارکنوں کو یہ امید دلائے رکھی کہ بانی پی ٹی آئی الیکشن سے پہلے ہی جیل سے باہر آ جائیں گے مگر گزشتہ تین سال سے بانی پی ٹی آئی کی سبھی حکمت عملیاں ناکام ہوئی ہیں اور نتیجتاً پارٹی کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ عدالتی فیصلوں سے بانی پی ٹی آئی کا دیو مالائی تصور بھی چکناچور ہو گیا اور اب یوں نظر آ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز اور حامی 8 فروری کو پولنگ سٹیشن پر جانے سے گریز کریں گے اور ووٹرز ٹرن آؤٹ بنگلہ دیش کی طرح پر 40 فیصد سے زائد نہیں ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان دیں اور بین الاقوامی مبصرین اور بین الاقوامی کمیونٹی میں یہ تاثر دینے کی کوشش کریں کہ عوام کی اکثریت الیکشن سے لاتعلقی کا اظہار کر رہی ہے۔
ووٹرز کی تعداد کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے 13‘ 13 کروڑ بیلٹ پیپرز شائع کیے جا رہے ہیں جبکہ پانچ فیصد زائد بیلٹ پیپرز بھی شائع کرنے ہوتے ہیں، اس طرح ایک اندازے کے مطابق 30کروڑ کے لگ بھگ بیلٹ پیپرز شائع کیے جائیں گے۔بین الاقوامی مبصرین بھی پاکستان کے عام انتخابات اور ان کے اخراجات کا گہری نظر سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اخراجات ملا کر ان عام انتخابات پر تقریباً ایک کھرب روپے کے اخراجات آئیں گے۔ الیکشن کمیشن عدالتی فیصلوں کی روشنی میں بعض حلقوں میں ازسرِنو بیلٹ پیپرز شائع کرنے کا پابند ہے اور امید ہے کہ یہ مرحلہ 5 فروری تک مکمل کر لیا جائے گا۔یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عام انتخابات کے دوران بیرونی عناصر ملک میں امن و امان کا مسئلہ کھڑا کرنے کی کوشش کریں گے لیکن الیکشن کمیشن نے نگران حکومتوں کے تعاون سے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ تحریک انصاف کے بانی کو سزائیں ملنے کے بعد ووٹرز اب آزاد امیدواروں سے بھی دلبرداشتہ ہوچکے ہیں کیونکہ اب ان کو یقین ہو چلا ہے کہ آزاد امیدوار کامیابی کے بعد دیگر سیاسی جماعتوں کا رُخ کریں گے اور ان کا ووٹ بانی پی ٹی آئی کے کام نہیں آئے گا۔ جس طرح وکلا نے اس پارٹی کو ہائی جیک کر لیا ہے‘ ایسے ماحول میں تحریک انصاف کا ووٹر گھروں سے باہر نہیں نکلے گا اور ووٹر ٹرن آؤٹ 40 فیصد سے زائد نہیں ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں