"KDC" (space) message & send to 7575

آزاد ارکان کی حکمت ِ عملی اور مخصوص نشستوں کی تقسیم

الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئین کے آرٹیکل223کے تحت قومی اسمبلی کے نئے منتخب ارکان کا گزٹ نوٹیفکیشن پولنگ ڈے کے 14دن کے اندر کرنا ہوگا۔ 8فروری کو انتخابات ہوئے تو آئین کے مطابق 22فروری تک گزٹ نوٹیفکیشن ہونے کا امکان ہے‘ اس سے پہلے بھی ہو سکتا ہے۔ گزٹ نوٹیفکیشن کے بعد قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس طلب کیے جانے سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان خواتین کی 60اور اقلیتوں کی 10مخصوص نشستوں کی پارلیمان میں تقسیم کا تعین کرے گا۔ مخصوص نشستوں کی تعداد کا تعین آئین کے آرٹیکل (6)51اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے دفعہ(4) 104کے مطابق کیا جاتا ہے۔
سیاسی جماعتوں کوصوبے میں حاصل شدہ نشستوں کی بنیاد پر خواتین کی مخصوص نشستوں کو الاٹ کیا جاتا ہے جس کا فارمولہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 104میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ہر جماعت کی کل ممبر شپ کو صوبے کے لیے خواتین سیٹوں پر تقسیم کیا جاتا ہے‘ بلوچستان میں قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد16ہے‘ اس میں خواتین کے لیے نشستیں چار ہیں‘ فارمولہ کے تحت جو پارٹی بھی الیکشن میں چار نشستیں حاصل کرے گی اسے خواتین کی ایک نشست مل جائے گی۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141نشستیں ہیں‘ یہاں خواتین کی 32نشستیں ہیں‘ 32کے ہندسہ کو 141پر تقسیم کیا جائے گا۔ اس حساب سے کوٹہ 4.40 بنتا ہے۔ چونکہ دو حلقوں پر نتائج رک گئے ہیں تو یہ کوٹہ 4.3 بنے گا۔ سندھ میں قومی اسمبلی کی نشستیں 61ہیں‘ یہاں خواتین کیلئے 14نشستیں ہیں‘ یہاں بھی سیاسی جماعت کو4.3ارکان پر ایک خاتون کی نشست ملے گی۔ خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی 45نشستیں ہیں‘ جبکہ خواتین کی 10نشستیں ہیں‘ اس فارمولہ کے تحت 4.5ارکان کے لیے ایک خاتون کی نشست ملے گی۔ گزٹ نوٹیفکیشن اور خواتین کی مخصوص نشستوں کے ساتھ 10مخصوص اقلیتی نشستیں پورے پاکستان کی نشستوں پر تقسیم کرتے ہوئے 60ارکان پر ایک اقلیتی نشست دی جائے گی۔
خواتین اور اقلیتی نشستوں کا یہ فارمولہ پرویز مشرف نے قومی تعمیر نو کے چیئرمین جنرل تنویر نقوی اور ان کی ٹیم کی مشاورت سے بطور چیف ایگزیکٹو الیکشن آرڈر2002ء کے تحت جاری کیا تھا جسے بعد ازاں 18ویں ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 224کا حصہ بنا لیا گیا۔ گویا خواتین اور اقلیتی نشستیں‘ جو 1973ء کے آئین کے مطابق صوبائی اسمبلی کے ارکان کے انتخاب کے ذریعے دی جاتی تھیں‘ وہ نشستیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی کے تناسب سے دی جانے لگیں۔ 1973ء کے آئین میں واضح کیا گیا تھا کہ 15سال بعد یہ مخصوص نشستوں کے لیے خواتین کا خصوصی کوٹہ ختم کر دیا جائے گا اور ان کو براہِ راست انتخابات میں حصہ لینا ہوگا۔ 1988ء کے بعد 1990ء کے انتخابات کے نتیجہ میں جو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں تشکیل دی گئیں ان میں خواتین کی نشستیں ختم کر دی گئی تھیں۔ اس پر بعض خواتین نے اعلیٰ عدالتوں سے بھی رجوع کیا اور اعلیٰ عدالتوں نے اس پر قانون سازی کا مشورہ دیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اُس وقت کے چیف‘ جسٹس(ر) نعیم الدین نے فیصلہ دیا کہ 1973ء کے دستور کے مطابق خواتین کی نشستیں 15سال کے لیے مختص کی گئی تھیں اور پندرہ سال گزرنے کے بعد خواتین براہِ راست انتخابات کے ذریعے پارلیمنٹ کا حصہ بن سکتی ہیں۔ 1993ء میں بے نظیر حکومت نے انتخابی اصلاحات کے ذریعے اقلیتی نشستوں کے لیے قومی اسمبلی کے لیے پورے ملک کو حلقہ قرار دینے اور صوبائی اسمبلی کے لیے پورے صوبے کو حلقہ بنا کر براہِ راست انتخابات کے لیے قانون سازی کی گئی۔ خواتین کے لیے پرانے طریقے سے ان کا انتخاب صوبائی اسمبلی کے ارکان کے ذریعے کروانے کا پرانا فارمولہ اپنایا گیا‘ جسے جون 2012ء میں پرویز مشرف کی حکومت نے نیا فارمولہ واضح کیا جو اَب آئین کا حصہ ہے۔خواتین کی مختص نشستوں کا طریقہ کار آئین کے آرٹیکل 226کے منافی ہے کیونکہ انتخاب کے بجائے مخصوص پارٹی کے کوٹہ کے تحت پارٹی اُن کو نامزد کرتی ہے اور پھر کوٹہ کے تحت ان کو نشستیں الاٹ کی جاتی ہیں۔ ان کو کسی الیکشن کے تحت منتخب نہیں کیا جاتا۔ پرویز مشرف بڑی تعداد میں خواتین کی نمائندگی دیتے ہوئے اپنی جماعت کو زیادہ سے زیادہ نمائندگی دلانے کے خواہاں تھے اور یہی فارمولہ بعد ازاں 18ویں ترمیم کا حصہ بناتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 224کے اہم ترین حصہ بنا دیا گیا اور اسی طریقہ سے خواتین پارلیمنٹ کا حصہ بن گئیں۔
اب چونکہ 8فروری کو انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے‘ وفاق میں حکومت بنانے کیلئے کسی بھی سیاسی جماعت کو169نشستیں درکار ہیں۔ قومی اسمبلی کی عمومی نشستیں 266 ہیں جبکہ مخصوص نشستوں (60 خواتین10+اقلیتی) کو شامل کرنے پر مکمل تعداد 336بنتی ہے۔ انتخابی نتائج بتاتے ہیں کہ کوئی بھی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہ کر سکی جس کی روشنی میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے ارکان کو ایوان میں غیر معمولی حیثیت حاصل ہوگی؛ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان مخصوص نشستوں کی تقسیم کے لیے آزاد اراکین کو شمار نہیں کرتا؛چنانچہ قومی اسمبلی کی نشستوں پر منتخب ہونے والے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کو یا تو کسی دوسری جماعت میں شامل ہونا پڑے گا یا بطور سیاسی جماعت پی ٹی آئی بحال ہو جائے اور یہ آزاد ارکان پی ٹی آئی میں شامل ہوں؛ تاہم سر دست ایسا ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ منتخب آزاد ارکان کو تین روز میں کسی پارٹی میں شمولیت کا اعلان کرنا ہے۔اس لیے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کے لیے کسی دوسری جماعت ہی کا آپشن بچتا ہے۔ اس طرح اُس جماعت کو الیکشن کمیشن کے فارمولے کے تحت مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں۔
عام انتخابات کے اگلے روز نوازشریف کے خطاب سے مفاہمت کی راہ ہموار ہوتی نظر آ تی ہے۔انہوں نے پیپلز پارٹی اور سابقہ پی ڈی ایم اتحادیوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔ گزشتہ روز متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے وفد نے بھی رائیونڈ میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے ملاقات کی۔ملاقات میں حکومت سازی سے متعلق بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ دونوں جماعتوں کی قیادت نے رابطے میں رہنے کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ چند روز میں صورتِ حال واضح ہوگی تب باضابطہ بات چیت کا آغاز ہوسکے گا۔پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی مسلم لیگ (ن) نے رابطے کیے ہیں ، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ حکومت سازی کے عمل پر سوچ بچار کے لیے رابطوں کا آغاز پیپلز پارٹی قیادت سے ملاقات ہی سے کیا گیا؛ تا ہم کچھ ایسی خبریں ہیں کہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت بنانے کے لیے پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو زرداری کے لیے وزارتِ عظمیٰ کا مطالبہ کر دیا ہے۔ بہرکیف آگے آگے دیکھئے‘ حکومت سازی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ مگر اس سے پہلے انتخابی نتائج پر جو تنازعات سامنے آ رہے ہیں یہ کیا صورت اختیار کرتے ہیں اور نتائج پر نظر ثانی کے بعد کی کیا پارٹی پوزیشن بنتی ہے‘ یہ بھی دیکھنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں