"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن ٹربیونلز اور عدالتی فیصلوں کے ممکنہ اثرات

رواں سال صرف ہمارے ملک میں ہی انتخابات نہیں ہوئے بلکہ عالمی سطح پریورپی یونین سمیت کم از کم 64 ممالک میں انتخابات منعقد ہوں گے۔ یہ64ممالک دنیا کی تقریباً 49 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں لہٰذا تاریخ میں پہلی بار اتنے زیادہ ووٹرز ایک ہی سال میں انتخابات میں حصہ لیں گے۔ یعنی رواں برس دنیا کے کم از کم 64 ممالک میں قیادتیں تبدیل ہو رہی ہیں یا پرانی قیادت کو نیا مینڈیٹ مل رہا ہے۔ مسلم ممالک میں انڈونیشیا میں نئی قیادت نے حکومت سنبھال لی ہے جبکہ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد پانچویں مرتبہ وزیراعظم منتخب ہو چکی ہیں۔ مغربی ممالک نے رواں برس جنوری میں بنگلہ دیش میں منعقد ہونے والے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن اس کے باوجود حسینہ واجد کی اقتدار پر گرفت مضبوط ہے۔ برطانیہ میں مئی میں نئی قیادت کا انتخاب کیا جائے گا۔بھارت میں بھی مئی تک صورتحال واضح ہو جائے گی اور امریکہ میں نئی قیادت نومبر میں آئے گی۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ایک اہم معاملہ ہیں۔ عمران خان کی طرف سے امریکہ مخالف بیانیہ اپنانے سے دونوں ممالک کے تعلقات متاثر ہوئے تھے۔ امریکی خارجہ امور کے ترجمان نے ایک مرتبہ پھر عمران خان کے الزامات کی تردید کی ہے‘ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ابھی تک پاک امریکہ تعلقات درست ڈگر پر گامزن نہیں ہو سکے۔ عالمی مالیاتی ادارے امریکہ کے زیرِ اثر ہیں۔ اتحادی حکومت کو اندرونی خلفشار سے بچتے ہوئے دوست ممالک سمیت دنیا بھر سے معاشی روابط مضبوط کرنا ہوں گے۔
حکمران اتحاد کے آصف علی زرداری 411 الیکٹورل ووٹ لے کر ملک کے 14ویں صدرِ مملکت منتخب ہو چکے ہیں۔ وہ پہلے سویلین ہیں جو دوسری مرتبہ صدرِ مملکت منتخب ہوئے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں محمود خان اچکزئی نے 181 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے۔ محمود خان اچکزئی نے اپنی شکست تسلیم کرتے اور آصف علی زرداری کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے یہ خوش آئند ریمارکس دیے کہ صدارتی الیکشن خوشگوار ماحول میں ہوا اور پہلی مرتبہ کوئی ووٹ فروخت ہوا اور نہ خریدا گیا۔صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے اپنی صاحبزادی آصفہ بھٹو کو خاتونِ اوّل کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر ایوب خان نے بھی 1959ء میں اپنی صاحبزادی محترمہ نسیم اورنگ زیب کو خاتونِ اوّل کا درجہ دیا تھا۔ نسیم اورنگ زیب مارچ 1979ء تک خاتونِ اوّل کی مراعات حاصل کرتی رہیں۔ نسیم اورنگ زیب کم و بیش ہر سرکاری دورے میں صدر ایوب خان کے ہمراہ ہوتی تھیں۔ نسیم اورنگ زیب والی ٔ سوات پرنس اورنگزیب کی اہلیہ تھیں۔ ان کے صاحبزادے عدنان اورنگزیب بھی ممبر قومی اسمبلی رہے جن کا گزشتہ برس انتقال ہو گیا تھا۔ان کے ایک صاحبزادے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج ہیں۔
آصف علی زرداری کے صدرِ مملکت منتخب ہونے سے شہباز شریف کی کمزور ترین حکومت بھی پانچ سال مکمل کرتی نظر آتی ہے۔پی پی پی اور(ن)لیگ کی اتحادی حکومت کو قومی اسمبلی کے ایوان میں اپوزیشن کی جانب سے ٹف ٹائم کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ مضبوط اور فعال اپوزیشن حکومت کی قانون سازی میں شدید مخالفت کا باعث بن سکتی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں بھی (ن)لیگ کی حکومت کو اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی بھی وفاقی حکومت کی مخاصمت میں مصروفِ عمل رہتی نظر آتی ہے جبکہ سندھ اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی میں صورتحال نارمل رہے گی۔ آئی ایم ایف سے نئے قرض پروگرام کے حصول کے لیے جن سخت شرائط پر عمل کرنا پڑے گا ان سے ملک میں مہنگائی کا نیا سیلاب اُمڈتا نظر آتا ہے۔ اس صورتحال سے تحریک انصاف بھرپور فائدہ اٹھا سکتی ہے‘ لیکن تحریک انصاف کا یہ احتجاج ایوان تک ہی محدود رہتا دکھائی دیتا ہے یا زیادہ سے زیادہ سوشل میڈیا کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ سڑکوں پر دھرنوں اور احتجاج کا سلسلہ اب برقرار رہنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
حالیہ عام انتخابات کے بعد انتخابی نتائج میں ردو بدل کے حوالے سے کافی شور شرابہ رہا۔ سیاسی بیان بازی کا بازار بھی گرم رہا اور اس کی جھلک سپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر بھی دیکھنے کو ملی لیکن اب ماحول قدرے پُرسکون ہو چکا ہے۔ آصف علی زرداری بطور صدرِ مملکت نہ صرف مفاہمتی سیاست کو مزید پروان چڑھاتے بلکہ حکومت کی بھی بھرپور معاونت کرتے نظر آتے ہیں۔ ایم کیو ایم بھی نہ صرف حکومت کی حمایت کا اعلان کر چکی بلکہ وفاقی کابینہ کا حصہ بھی بن چکی ہے۔ شنید ہے کہ صدر زرداری اور گورنر سندھ کامران ٹیسوری میں گہری دوستی ہے‘ اور یہ کہ صدر پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان طے پانے والے این آر او میں بھی کامران ٹیسوری نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اگست 2007ء میں جب این آر او کی خبریں گردش کر رہی تھیں تو تب کے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی خاصے تذبذب کا شکار تھے۔ ان دنوں میری ان سے اکثر ملاقات ہوتی تھی۔تب پرویز مشرف کو یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ این آر او کے نتیجے میں بینظیر بھٹو کے وزیراعظم منتخب ہونے کی صورت میں پرویز مشرف ہی صدرِ مملکت رہیں گے۔ لیکن بینظیر بھٹو کی 27 دسمبر 2007ء کوشہادت کے بعد پرویز مشرف سیاسی اور انتظامی لحاظ سے تنہا رہ گئے ۔ مجھے 2012ء میں پرویز مشرف سے ملنے کا اتفاق ہوا تو اُن کا کہنا تھا کہ این آر او کی ترتیب و تدوین میں امریکی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس اور طارق عزیز کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ طارق عزیز تب ان کے خصوصی سیکرٹری سکیورٹی تھے‘ جو بعد ازاں آصف علی زرداری کے بھی بہت قریب رہے۔ طارق عزیز ایماندار‘ محنتی‘ ذہین اور اعلیٰ درجے کے بیورو کریٹ تھے۔
اس وقت قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں کام شروع کر چکی ہیں۔ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مخصوص نشستیں حاصل ہو جائیں گی کیونکہ آئین کے آرٹیکل (2)51 کے تحت کسی بھی قسم کے حالات میں یہ نشستیں دیگر پارلیمانی سیاسی جماعتوں میں تقسیم نہیں کی جا سکتیں۔ اس باریک آئینی نقطہ کی تشریح سپریم کورٹ آف پاکستان ہی بہتر طور پر کر سکتی ہے۔ اسی طرح فارم 45 اور 47کا تنازع الیکشن ٹربیونلز ہی حل کرسکتے ہیں۔ لہٰذا اپوزیشن کو مبینہ انتخابی بے قاعدگیوں کے ازالے کے لیے الیکشن ٹربیونلز ہی سے رجوع کرنا چاہیے اور سڑکوں پر احتجاج سے گریز کرنا چاہیے۔ توقع اور امید ہے کہ الیکشن ٹربیونلز اور سپریم کورٹ کے فیصلوں سے پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں حیرت انگیز اور غیر متوقع تبدیلی کے آثار نمودار ہوں گے۔
بھارت کا الیکشن کمیشن انتخابات کو غیر جانبدار بنانے کے لیے خود ہی نگران حکومت کا کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن اس بار بھارت میں عام انتخابات سے قبل چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے دو ممبران مستعفی ہو چکے ہیں۔ ان استعفوں کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کے پاس آئندہ انتخابات کی نگرانی کرنے کیلئے صرف ایک ممبر بچا ہے۔ بھارتی وزارتِ قانون و انصاف کے مطابق صدر مرمو نے اراکینِ الیکشن کمیشن کے استعفے منظور کر لیے ہیں لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن غیر فعال نہیں ہوا اور وہاں شیڈول کے مطابق الیکشن ہوگا۔ دوسری طرف ہمارے یہاں عام انتخابات سے قبل خبریں گردش کر رہی تھیں کہ چیف الیکشن کمشنر اور ایک ممبر الیکشن کمیشن مستعفی ہو رہے ہیں جس سے انتخابات کا شیڈول متاثر ہو سکتا ہے اور ممکن ہے کہ الیکشن مؤخر ہو جائیں۔ انڈین الیکشن ایکٹ اور دستور میں یہ گنجائش موجود ہے کہ اگر الیکشن کمیشن کے دو اراکین مستعفی ہو جائیں تو بھی انتخابی عمل پر کسی قسم کا اثر نہیں پڑتا‘ ایک ممبر بھی انتخابات کرانے کیلئے مکمل اختیارات کا حامل ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مزید فعال بنانے کیلئے ایسی قانون سازی اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں