"KDC" (space) message & send to 7575

سینیٹ الیکشن کا طریقہ کار

گزشتہ روز نومنتخب قومی و صوبائی اراکینِ اسمبلی کی صوبہ سندھ‘ بلوچستان اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں چھوڑی گئی سینیٹ کی چھ نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں یوسف رضا گیلانی سمیت پیپلز پارٹی کے چار امیدوار کامیاب ہو گئے ہیں۔ ایک نشست پر مسلم لیگ (ن) اور ایک پر جمعیت علمائے اسلام (ف)کا امیدوار کامیاب ہوا ہے۔ 11 مارچ کو سینیٹ کے 52 اراکین اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد ریٹائر ہو چکے۔ دو اپریل کو سینیٹ کی 48نشستوں پر الیکشن کے انعقاد کا شیڈول جاری ہو چکا ہے۔ سابق فاٹا کے چار اراکین کی جانب سے خالی ہونے والی نشستوں پر انتخاب نہیں ہوگا کیونکہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد سینیٹ میں فاٹا کے لیے مختص نشستیں آئینی ترمیم کے تحت ختم ہوچکی ہیں اور نئے ایوانِ بالا میں ارکان کی تعداد 100 سے کم ہو کر 96 رہ جائے گی۔
الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے مطابق سینیٹ کی جن 48 نشستوں پر انتخاب عمل میں لایا جائے گا ان میں پنجاب کی سات جنرل نشستوں‘ خواتین کی دو‘ علما اور ٹیکنوکریٹ کی دو اور غیر مسلم کی ایک نشست پر انتخاب ہوگا۔سندھ کی سات جنرل‘ خواتین کی دو‘ علما اور ٹیکنوکریٹ کی دو اور ایک غیر مسلم کی نشست پر انتخاب ہوگا۔ خیبر پختونخوا کی سات جنرل‘ خواتین کی دو‘علما اور ٹیکنوکریٹ کی دو نشستوں پر انتخاب ہوگا۔اسی طرح بلوچستان کی سات جنرل‘ خواتین کی دو‘ علما اور ٹیکنوکریٹ کی دو نشستوں پر انتخاب ہو گا۔ اسلام آباد کی ایک جنرل اور ایک ٹیکنوکریٹ سیٹ پر انتخاب ہو گا۔ سینیٹ کا یہ الیکشن متناسب نمائندگی کے فارمولے کے تحت ہونا ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 105تا 131سینیٹ الیکشن سے متعلق ہیں جن میں سینیٹ کے الیکشن کا طریقہ کار واضح کیا گیا ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 11 کے تحت امیدوار کو 20ہزار روپے کیش کی صورت میں متعلقہ ریٹرننگ افسر کو جمع کرانا ہوتے ہیں۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 105 کے تحت چیف الیکشن کمشنر ریٹرننگ افسران کا تقرر کرتا ہے۔ ماضی کی روایت کے مطابق صوبائی الیکشن کمشنر ہی اپنے اپنے صوبے میں ریٹرننگ افسر ہوتے ہیں جبکہ وفاق میں الیکشن کمیشن کے سینئر ترین جوائنٹ سیکرٹری یا ڈائریکٹر جنرل کو ریٹرننگ افسر مقررکیا جاتا ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 122 میں ووٹنگ کا طریقہ کار بتایا گیا ہے۔ پنجاب‘ سندھ‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سینیٹرز کے انتخاب کیلئے پولنگ چاروں متعلقہ صوبائی اسمبلیوں میں جبکہ اسلام آباد کی نشستوں کیلئے پولنگ قومی اسمبلی میں ہوگی۔ الیکشن قوانین میں طے شدہ فارمولے کے مطابق ایک نشست کے حصول کیلئے لازم قرار پانے والے ووٹوں کی تعداد کے گولڈن فگر کیلئے متعلقہ صوبائی اسمبلی کے اراکین کی کُل تعداد کو مذکورہ صوبے کے حصے میں آنے والی سینیٹ کی موجود خالی نشستوں سے تقسیم کیا جائے گا۔مثال کے طور پر پنجاب اسمبلی کے اراکین کی کُل تعداد 371 ہے۔ پنجاب سے سینیٹ کی سات خالی جنرل نشستوں پر الیکشن ہورہاہے۔ اراکین کی کل تعداد یعنی 371 کو سات جنرل نشستوں سے تقسیم کیا جائے تو ہر امیدوار کیلئے مطلوبہ ووٹوں کی تعداد یعنی گولڈن فگر 53 بنتی ہے۔ یعنی پنجاب سے ایک جنرل نشست حاصل کرنے کیلئے امیدوار کو 53 ووٹ حاصل کرنا ہوں گے۔ اس کے علاوہ ٹیکنوکریٹ‘ خواتین اور اقلیتی نشستیں‘ جن پر پنجاب میں انتخابات ہونے جارہے ہیں‘ ان کو 371 نشستوں پر تقسیم کرنے سے ہر نشست کیلئے گولڈن فگر یا مطلوبہ ووٹوں کی تعداد معلوم کی جاسکتی ہے۔ مثلاً پنجاب میں خواتین کی دو نشستوں کو کل اراکین 371 پر تقسیم کیا جائے تو گولڈن فگر 186 بنتا ہے۔ یعنی پنجاب سے خواتین کی ایک نشست حاصل کرنے کے لیے امیدوار کو 186 ووٹ حاصل کرنا ہوں گے۔یہی طریقہ کار دیگر صوبائی اسمبلیوں کے حوالے سے اختیار کیا جائے گا۔
اب بات کرتے ہیں نئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جن کا تعلق رمدے فیملی سے ہے۔ ان کے والد چودھری محمد فاروق اٹارنی جنرل آف پاکستان رہے۔ ان کے چچا اور سسر خلیل الرحمن رمدے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج رہے اور ان کے نانا چودھری محمد یعقوب سابق چیف جسٹس آف پاکستان ہیں۔وفاقی وزیر خزانہ کا یہ کہنا درست ہے کہ حکومت کو پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ پہلے ہم دوست ممالک سے قرض لے لیتے تھے لیکن اب دوست ممالک نے قرض دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اب امداد کے بجائے یہاں سرمایہ کاری کریں گے۔ حکومت کو نئے وزیر خزانہ کو خود مختار انداز میں کام کرنے دینا چاہیے‘ ان کے ساتھ مشیروں کی فوج نہیں کھڑی کرنی چاہیے۔ مشیروں کی فوج سے بادی النظر میں یہی سمجھا جائے گا کہ شاید وزیر خزانہ پر مکمل اعتماد نہیں کیا جا رہا۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر پاکستان کو 1960ء کی دہائی والی فلاحی ریاست بنانے کے خواہاں ہیں جب پاکستانی مصنوعات بھاری مقدار میں دیگر ترقی پذیر ممالک میں برآمد ہوتی تھیں۔ پھر سے وہ مقام حاصل کرنے کیلئے ملک کو سیاسی عدم استحکام کے گرداب سے نکالنا ہو گا۔ نئی حکومت کیلئے معیشت کو استحکام کی جانب گامزن کرنا اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے جس کیلئے آئی ایم ایف سے چھ سے آٹھ ارب ڈالر کا نیا قرض حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اگر آئی ایم ایف نے نئے پروگرام کیلئے مزید کڑی شرائط لاگو کیں تو حکومت کو سخت احتجاج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان حالات میں افہام و تفہیم سے کام لینا ہو گا۔ حکومت کو انتخابی نتائج کے حوالے سے اپوزیشن کے تحفظات دور کرنے چاہئیں۔ انتخابات میں نتائج تبدیلی کے حوالے سے شکایات الیکشن ٹربیونلز میں درج ہو چکی ہیں‘ لہٰذا شکایت کنندگان کو ٹربیونلز کے فیصلے تک احتجاجی تحریک سے گریز کرنا چاہیے۔ انتخابی نتائج کو جواز بنا کر ایوان میں احتجاج نہیں کرنا چاہیے۔ جب تک ہمارے سیاسی اور غیر سیاسی حلقے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر معیشت کی بحالی کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق نہیں ہو جاتے‘ تب تک نئے وزیر خزانہ بھی ملکی معیشت کو ٹھیک نہیں کر سکتے۔ یہ ایک بڑا سوال ہے کہ حکومتی اتحاد سے معیشت کیسے بہتر ہو گی جبکہ حکومتی اتحاد کی اہم جماعت پیپلز پارٹی نے اِرسا آرڈیننس کو چیلنج کرتے ہوئے اِرسا کے نئے چیئرمین کی تقرری پر شدید احتجاج کرتے ہوئے وزیراعظم کے فیصلے کو مسترد کر دیا۔ ابھی تو آغاز ہے۔ حکومت میں شامل دیگر اتحادی جماعتیں بھی اپنے سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتی نظر نہیں آتیں۔ ابھی تو ایم کیو ایم نے بلدیاتی قوانین میں ترامیم کا مدعا بھی اٹھانا ہے جو پیپلز پارٹی کیلئے قابلِ قبول نہیں۔
پشاور ہائیکورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کر تے ہوئے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔ پشاور ہائیکورٹ نے آئین کے آرٹیکل 51 اور 106اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 104کی تشریح کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا ہے۔اس سے قبل لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ نے بھی سنی اتحاد کونسل کو حکمِ امتناعی دینے سے گریز کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے صدارتی الیکشن سے پہلے ہی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم کر دی تھیں اور سپیکر حضرات نے ان سے حلف بھی لے لیا تھااور صدارتی انتخاب میں ان کے ووٹ بھی کاسٹ ہو گئے۔ سنی اتحاد کونسل کا حصہ بن کر بھی تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اراکین خصوصی نشستوں سے محروم ہو گئے کیونکہ الیکشن ایکٹ کے تحت مخصوص نشستوں پر صرف ان امیدواروں کو الیکشن کا اہل قرار دیا گیا ہے جن کی فہرست الیکشن کمیشن کو طے شدہ وقت کے اندر جمع کرا ئی گئی تھی۔الیکشن ایکٹ کی دفعہ 104 تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اراکین کو مخصوص نشستیں حاصل کرنے سے روکتی ہے۔ میں نے آئین و قانون کی تشریح کرتے ہوئے یہی مؤقف اختیار کیا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کا مؤقف الیکشن ایکٹ کی دفعہ 104 کے تحت مسترد ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں