"KDC" (space) message & send to 7575

ڈونلڈ لُو بریفنگ‘ الیکشن پر پارلیمانی کمیشن بنایا جائے

امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ امور برائے وسطی و جنوبی ایشیا ڈونلڈ لُو نے کانگرس کمیٹی کے پاس امریکی سائفر کے حوالے سے جو جواب داخل کرایا ہے‘ اس کے دور رَس نتائج برآمد ہوں گے۔ ڈونلڈ لُو نے اپنے بیان میں بتایا کہ امریکہ پاکستان میں جمہوری اداروں کی مضبوطی کیلئے پُر عزم ہے۔ آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات سے متعلق ڈونلڈ لُو نے کہا کہ پاکستان میں انتخابات کی نگرانی کیلئے پانچ ہزار سے زائد آزاد مبصرین موجود تھے جنہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آٹھ فروری کے انتخابات بڑی حد تک مسابقتی اور منظم تھے۔ البتہ انتخابی نتائج مرتب ہونے کے عمل میں بعض بے ضابطگیاں دیکھی گئیں۔ڈونلڈ لُو نے کہا کہ الیکشن کے روز مقامی انتخابی نگران تنظیموں نے کہا کہ انہیں ملک بھر میں آدھے سے زیادہ حلقوں پر ووٹوں کی گنتی کے عمل کی نگرانی سے روک دیا گیا جبکہ ہائیکورٹ کے احکامات کے باوجود موبائل ڈیٹا سروس بند کی گئی جس کا مقصد عوام کی سوشل میڈیا اور میسجنگ ایپلی کیشنز تک رسائی کو روکنا تھا۔انہوں نے کہا کہ الیکشن سے قبل ہونے والے تشدد اور انتخابی زیادتیوں پر ہم نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ انتخابات سے قبل ہی دہشت گرد گروپوں کی جانب سے پولیس‘ سیاست دانوں اور سیاسی اجتماعات پر حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم خاص طور پر انتخابات سے قبل ہونیوالی بدسلوکی اور تشدد کے بارے میں فکر مند ہیں۔مزید کہا کہ متعدد سیاسی رہنماؤں کو مخصوص سیاسی جماعتوں کو رجسٹر کرنے میں ناکامی کی وجہ سے انتخابات میں نقصان اٹھانا پڑا۔ انتخابی بے ضابطگیوں کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان کے شراکت دار کے طور پر اس عمل کو شفاف انداز میں انجام دینے اور بے ضابطگیوں کے ذمہ داران کے احتساب کا مطالبہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی بے ضابطگیوں کے حوالے سے درخواستیں موصول ہونے کے بعد ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے جو ان کی چھان بین کرے گی۔یعنی ڈونلڈ لُو نے اس معاملے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی آئینی اتھارٹی ہی کو اہمیت دی ہے۔
عمران خان کے سائفر بیانیے کے حوالے سے ڈونلڈ لُو نے کہا کہ میں اس نکتے پر بہت واضح جواب دینا چاہتا ہوں کہ یہ الزامات‘ یہ سازشی تھیوری سراسر جھوٹ ہے۔ میں نے اس حوالے سے پریس رپورٹنگ کا جائزہ لیا ہے جسے پاکستان میں سائفر کہا جاتا ہے جو مبینہ طور پر یہاں کے سفارتخانے سے لیک ہونے والی سفارتی کیبل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی موقع پر امریکی حکومت یا میں نے ذاتی طور پر عمران حکومت کے خلاف اقدامات نہیں کیے۔ تیسری بات یہ کہ اُس میٹنگ میں موجود دوسرے فرد اور اُس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر نے اپنی ہی حکومت کے سامنے گواہی دی کہ اس طرح کی کوئی سازش نہیں ہوئی۔ یعنی تحریک انصاف کے حامیوں نے ڈونلڈ لُو کی کانگرس کمیٹی کے سامنے طلبی سے جو توقعات وابستہ کر رکھی تھیں وہ پوری نہیں ہو سکیں۔ دیکھا جائے تو عمران خان کا تحریک عدم اعتماد کو امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے خارجہ سے مشروط کرنا جگ ہنسائی کا باعث بنا۔ اس خرابی کی ذمہ داری میرے نزدیک پاکستانی سفیر پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے بلاوجہ یہ سائفربھیجا۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہیں اس ملاقات کا احوال سمری کی صورت میں وزارتِ خارجہ کو بھجوانا چاہیے تھا۔ سائفر انتہائی خفیہ کوڈز پر مبنی ہوتا ہے جبکہ سمری آسان سفارتی زبان کی صورت میں ہوتی ہے۔
ڈونلڈ لُو نے کانگرس کمیٹی کے روبرو جو بیان ریکارڈ کرایا ہے‘ اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انتخابات کی نگرانی کرنیوالے بین الاقوامی مبصرین کی رپورٹ کے تناظر میں چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ایک الیکشن جوڈیشل کمیشن تشکیل دے کر اس رپورٹ کے اثر کو زائل کرنا چاہیے۔ میں نے گزشتہ برس اکتوبر میں نگران حکومت کے سامنے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میں بین الاقوامی مبصرین کی رپورٹ منفی آسکتی ہے۔ نگران وزیر اعظم کو بھی پرنسپل سیکرٹری کے ذریعے یہ پیغام پہنچایا گیا تھا۔ اس کے باوجود نگران وفاقی حکومت نے بین الاقوامی اور مقامی الیکشن مبصرین کو اس حوالے سے بریفنگ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حکومت کی طرف سے اس کمیونیکیشن گیپ کی وجہ سے بین الاقوامی مبصرین حکومت مخالف صحافیوں اور این جی اوز کے ساتھ رابطے میں رہے جس کا نتیجہ ان مبصرین کی منفی رپورٹ کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔
امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ امور برائے وسطی و جنوبی ایشیا الیکشن کے دنوں میں تواتر سے پاکستان آتے رہتے ہیں۔ 2008ء کے الیکشن سے پیشتر امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری روبیکا مارگریٹ اور بعدازاں رچرڈ باؤچر پاکستان آتے رہے اور الیکشن کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بریفنگ لیتے رہے۔ میری ان سے اکثر ملاقات رہتی تھی۔ بادی النظر میں ان کی آمد کا مقصد یہ تھا کہ 2008ء کے انتخابات سے پیشتر بینظیر بھٹو کی پاکستان واپسی کی راہ ہموار کی جائے‘ ان کو نواز شریف کی جلاوطنی سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ اپنے دورۂ پاکستان کے دوران وہ پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں‘ صحافیوں اور غیر ملکی این جی اوز کے نمائندوں سے ملاقات کرتے تھے۔ پرویز مشرف کی انتظامیہ نے ان کی راہ میں کبھی کوئی رکاوٹ نہ ڈالی بلکہ ہر ممکن سفارتی سہولت فراہم کرتے رہے۔
امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے آٹھ فروری کے عام انتخابات میں بے قاعدگیوں کے حوالے سے جو مؤقف اختیار کیا ہے‘ اس کی ذمہ دار دراصل سابق نگران حکومت ہے جو بین الاقوامی اور مقامی مبصرین کو الیکشن کے حوالے سے بریف کرنے اور الیکشن قوانین کے حوالے سے انہیں مطمئن کرنے میں ناکام رہی۔ وفاقی سطح پر وزیر برائے پارلیمانی امور کی عدم موجودگی کی وجہ سے بین الاقوامی مبصرین کی یکطرفہ رپورٹ سامنے آئی۔ میں نے بین الاقوامی اور مقامی مبصرین کو مطمئن کرنے کیلئے نگران وفاقی وزیر قانون و انصاف‘ وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کو مکمل بریف کیاتھا اور ان خدشات کا بھی اظہار کیاتھا کہ بین الاقوامی مبصرین کے ذریعے الیکشن کے نتائج کو متنازع بنایا جاسکتا ہے لہٰذا بااثر اور قوانین پر گہری نظر رکھنے والے شخص کو وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور کی ذمہ داری سونپی جانی چاہیے۔ اب ڈونلڈ لُوکی بریفنگ کے بعد قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق کے ذریعے پارلیمانی کمیشن برائے الیکشن 2024ء تشکیل دیاجانا چاہیے اور الیکشن نتائج میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کیلئے ایک مؤثر اور جاندار ریفرنس تیار کیا جانا چاہیے۔ اس کمیشن کو ایک ماہ کے اندر اپنی تحقیقات مکمل کرکے قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا پابند بنایا جانا چاہیے۔ عمران خان کی پٹیشن پر بھی اسی انداز میں غور کیا جا سکتا ہے۔
نئی حکومت کو ملک کو درپیش سیاسی و معاشی حالات کی سنگینی کا ادراک تو ہے لیکن اس کے پاس ملک کو اس سنگین صورتحال سے نکالنے کا کوئی قابلِ عمل منصوبہ نہیں ہے۔ پنجاب کی بیورو کریسی وزیراعلیٰ کی معاونت تو کررہی ہے لیکن اسکے پاس وہ وژن نہیں جس سے صوبے کو ترقی کی راہ پر ڈالا جا سکے۔ صرف دوروں سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اس طرح سرکاری افسران ذہنی دبائو کا شکار رہیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ اپنے دفتر میں براجمان ہوکر پورے صوبے کی کمان سنبھالی جائے۔ مریم نواز صاحبہ کوصوبے میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے کیلئے قانون سازی کرنی چاہیے۔ اطلاعات ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر21اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد صوبے میں لوکل گورنمنٹ انتخابات کا شیڈول جاری کردیں گے۔ بلدیاتی اداروں کے انتخابات سیاسی طور پربڑی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ لہٰذا پنجاب حکومت کو اس حوالے سے پیشگی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں