"KDC" (space) message & send to 7575

سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کا اتحاد

تحریک انصاف کے رہنما اور ممبر قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے سنی اتحاد کونسل سے غیررسمی طور پر لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اشارہ دیا کہ سنی اتحاد کونسل سے اتحاد ان کی پارٹی کی غلطی تھی جس کا خمیازہ وہ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کی صورت میں بھگت چکے ہیں۔ قبل ازیں پشاور ہائیکورٹ کے لارجر بنچ نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو سنی اتحاد کونسل کو تفویض کرنے کی استدعا مسترد کردی تھی۔ اگر اس کیس کا عبوری جائزہ لیا جائے تو بظاہر نظر آتا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کے وکلا نے لارجر بنچ کو اپنے مؤقف سے متاثر نہیں کیا اور کمزور دلائل سے مقدمہ ہار گئے‘ حالانکہ قانونی و آئینی ماہرین اور سینیٹ میں آزاد اراکین نے سنی اتحاد کونسل کے مؤقف کی تائید میں دلائل دیے تھے کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 104کے تحت جو فیصلہ دیا وہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل 51اور 106سے متصادم ہے۔ اس حوالے سے یہ مثال کہ 2019ء میں بلوچستان عوامی پارٹی میں تین آزاد اراکین کی شمولیت سے بعد میں خواتین کی ایک نشست بی اے پی کو الاٹ کی گئی تھی‘ اس نکتے کو بھی سنی اتحاد کونسل کے وکلا بطور ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے۔ اگر یہ فیصلہ ہوا تھا تو اس کا ریکارڈ الیکشن کمیشن میں موجود ہونا چاہئے اور یہ ذمہ داری سنی اتحاد کونسل کے وکلا کی تھی کہ بلوچستان عوامی پارٹی کی جس خاتون ممبر صوبائی اسمبلی کو مخصوص نشست پر نامزد قرار دیا گیا تھا اس کا گزٹ نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کرتے۔ بہرکیف اب سنی اتحاد کونسل صوبوں اور وفاق میں87 مخصوص نشستوں سے محروم ہو چکی ہے اور یہ نشستیں الیکشن ایکٹ کی دفعہ 104 کے تحت دیگر بڑی پارلیمانی جماعتوں میں تقسیم کرنے کے بعد چاروں صوبائی ایوانوں اور قومی اسمبلی میں ان کی مجموعی نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔
سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کے معاملے پر سینیٹر علی ظفر نے بھی شیر افضل مروت کے مؤقف کی تائید کی ہے۔ اس طرح کے بیانات آگے چل کر قومی اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن کے انتخاب میں مشکل کھڑی کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا نے کہا ہے کہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا فیصلہ عمران خان نے کیا تھا‘ اُن کی طرف سے کوئی درخواست نہیں کی گئی تھی۔ اب تحریک انصاف ایک نیو تھیوری لے کر آئی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اگر ان کے انٹرا پارٹی الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرلیا تو سنی اتحاد کونسل میں تحریک انصاف کے جو حمایت یافتہ اراکین شامل ہوئے تھے‘ ان اراکین کو واپس تحریک انصاف میں ضم کرانے کا فیصلہ کیا جا ئے گا۔ اس صورت میں سپیکر قومی اسمبلی سنی اتحاد کونسل کی جانب سے عمر ایوب خان کو لیڈر آف اپوزیشن کیسے تسلیم کریں گے؟ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 200‘201‘202 اور 215کے تحت اور آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کے تحت سنی اتحاد کونسل کے اراکین تحریک انصاف میں ضم نہیں ہو سکتے‘ اگر انہوں نے یہ قدم اٹھایا تو چیئرمین سنی اتحاد کونسل آئین کے آرٹیکل (1)63 کے تحت اسے فلور کراسنگ قرار دیتے ہوئے ان اراکین کی نااہلیت کا کیس سپیکر قومی اسمبلی کی وساطت سے الیکشن کمیشن کو بھجوا سکتے ہیں۔ چونکہ موجودہ سیاسی ماحول سنی اتحاد کونسل اور تحریک انصاف سے مطابقت نہیں رکھتا‘ لہٰذا فوری طور پر ان اراکین کو اسمبلی کی رکنیت سے محروم کیا جا سکتا ہے۔
تحریک انصاف کے بانی مختلف مقدمات میں گھرے ہوئے ہیں‘ مگر ان کے وکلا اور پارٹی رہنما اپنے اپنے سیاسی مفادات کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں پارٹی کا شیرازہ بکھر سکتا ہے ۔باہمی ریشہ دوانیوں‘ اندرونی اختلافات اور پارٹی کے بانی سے رابطے کے فقدان کی وجہ سے پارٹی منتشر ہو نے کا خدشہ ہے۔ چونکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اراکین کی بڑی تعداد سنی اتحاد کونسل کا حصہ بن چکی ہے لہٰذا جو اراکین سنی اتحاد کونسل کے مؤقف کو کمزور کریں گے سنی اتحاد کونسل بتدریج ایسے اراکین کے خلاف ضابطے کی کارروائی کرکے انہیں اسمبلی نشست سے نااہل کرا سکتی ہے۔ پھر ان خالی کردہ نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے۔ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے تناظر میں تحریک انصاف کے سرکردہ رہنما اب پیدا شدہ صورتحال کو اپنے ہی لوگوں کی غلطی قرار دے رہے ہیں اور اطلاعات ہیں کہ صاحبزادہ حامد رضا اتحادی حکومت سے مذاکرات شروع کرکے تحریک انصاف کے بانی سربراہ کیلئے محفوظ راستہ تلاش کرنے کی کوشش میں ہیں۔
دو اپریل کو سینیٹ کی 48نشستوں پر الیکشن ہو رہے ہیں اور 21 اپریل کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کی خالی کردہ نشستوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ اتحادی جماعتیں مزید نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ کراچی میں ایم کیو ایم دوبارہ طاقت پکڑتی نظر آ رہی ہے۔ باہمی اختلافات کی وجہ سے ایم کیو ایم پچھلی بار سینیٹ کی تمام نشستیں کھو بیٹھی تھی۔ اب بھی رابطہ کمیٹی کے 80 اراکین کی معطلی کے سبب ایم کیو ایم پاکستان اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے؛ تاہم اگر ایم کیو ایم پاکستان اپنی ماضی کی حکمت عملی کو برقرار رکھے تو اس کے دو اراکین جنرل نشستوں پر آسانی سے کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ٹیکنو کریٹ کی نشست پر ایڈجسٹمنٹ کرکے ایک ٹیکنو کریٹ کی نشست بھی اس کو مل سکتی ہے۔دوسری جانب تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن 22حلقوں میں کامیاب ہونے والے آزاد اراکینِ اسمبلی کے نتائج کو از سر نو گنتی کے مرحلے سے گزار کر ان کے کامیاب نتائج کو کالعدم قرار دے رہا ہے۔ اس کا قانونی پس منظر یہ ہے کہ الیکشن کے حتمی نتائج کو ریٹرننگ افسران الیکشن ایکٹ کی دفعہ95کے تحت تیار کرتا ہے اور اس دوران متاثرہ فریق از سر نو گنتی کا مطالبہ کرتے ہیں تو ریٹرننگ آفیسر کو یہ اختیار ہے کہ اگر کامیاب امیدوار اور ہارنے والے امیدوار کے ووٹوں میں دس ہزار تک کا فرق ہے تو وہ حتمی نتیجہ بھجوانے سے پہلے از سر نو گنتی کا حکم دے سکتا ہے۔ یہ نئی شق الیکشن ایکٹ 2017ء میں شامل کی گئی تھی اور جب اس پر قانون سازی ہو رہی تھی تو میں نے انتخابی اصلاحات کمیٹی کے چیئرمین اسحاق ڈار کو تجویز دی تھی کہ ووٹوں کا فرق کم کر کے 1500کے لگ بھگ قرار دیا جائے لیکن کمیٹی نے دس ہزار کے فرق پر از سرِ نو گنتی کا ایکٹ منظور کر لیا۔ اب چونکہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 98 کے تحت حتمی نتائج جاری ہو چکے ہیں اور قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں تشکیل پانے کے بعد حکومت سازی بھی مکمل ہو چکی ہے تو اس دوران بعض حلقوں میں از سر نو گنتی کروانے کے احکامات بھی جاری ہو رہے ہیں جبکہ الیکشن ٹربیونلز کا قیام بھی مکمل ہو چکا ہے۔ اس ضمن میں الیکشن ایکٹ کی دفعہ 9 بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس دفعہ کے تحت الیکشن کمیشن کسی بھی حلقے میں بدعنوانی‘ دھاندلی اور کرپٹ پریکٹسز کی شکایات وصول کرتا ہے تو 60روز کے اندر اندر ایسی شکایات پر بعض پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ انتخابات کرانے کا مجاز ہے اور از سر نو گنتی کے احکامات بھی دے سکتا ہے۔اگر ان شکایات کا 60روز کے اندر فیصلہ نہ ہو سکے تو تمام کیسز الیکشن ٹربیونلز میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن‘ الیکشن ایکٹ کی اسی دفعہ 9کے تحت کچھ حلقوں میں از سر نو گنتی یا پھر پولنگ کے احکامات جاری کر رہا ہے جو قانون کے عین مطابق ہے۔ یہ دفعہ مارچ 1977ء کے الیکشن کے خلاف احتجاج کو روکنے کیلئے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے شامل کرائی تھی تاکہ دھاندلی کی شکایات کا ازالہ کیا جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں