"KDC" (space) message & send to 7575

سیاسی نظام کو خطرے میں نہ ڈالیں

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ معزز جج صاحبان کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے گئے خط میں جن تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے وہ کافی سنگین نوعیت کے ہیں۔ معزز جج صاحبان کے احتجاجی خط کے بعد سے کئی طرح کے سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ جج صاحبان کے تحفظات کو دور کرنے کی مجاز اتھارٹی سپریم جوڈیشل کونسل نہیں بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان اور فل کورٹ کے معزز جج صاحبان ہیں۔ میری ناقص رائے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جن معزز جج صاحبان کو ریاستی اداروں سے تحفظات ہیں انہیں چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کر کے اپنے تمام تحفظات ان کے گوش گزار کرنے چاہئیں۔ مذکورہ خط میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کا حوالہ دیے جانے سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ جب جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کو سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے برطرف کیا گیا تو اُس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ کے کسی جج نے احتجاج نہ کیا۔اور جب جسٹس (ر) شوکت صدیقی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تو تین سال تک ان کے کیس کی سماعت نہیں ہو سکی۔ یہ کریڈٹ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان‘ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاتا ہے کہ انہوں نے شوکت عزیز صدیقی کیس میں انصاف کے تقاضے پورے کیے اور انہیں برطرف کے بجائے ریٹائر قرار دیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کا مراسلہ موصول ہونے کے بعد فُل کورٹ اجلاس طلب کیا اور اٹارنی جنرل آف پاکستان سے مشاورت کی۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے‘ خط کی چھان بین ضروری ہے‘ جس کیلئے حکومت نے خط کے معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے جبکہ چیف جسٹس نے بھی تحقیقاتی کمیشن بنانے پر اتفاق کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے واضح کیا کہ عدلیہ کی آزادی پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں ہوگا اور یقین دہانی کرائی کہ اس معاملے کی چھان بین ہونی چاہیے۔ اس معاملے کی سنگینی کے پیشِ نظر وزیراعظم بھی چیف جسٹس سے ملاقات کر چکے ہیں۔ پاکستان کی وکلا کمیونٹی کی تمام تنظیموں نے بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزز ججز کے مؤقف کی حمایت میں اعلامیے جاری کیے ہیں۔ بادی النظر میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے کُل8 میں سے 6 جج صاحبان کی جانب سے لکھے گئے اس خط سے سپریم کورٹ آف پاکستان دوراہے پر کھڑی نظر آ تی ہے۔
اسی طرح کا منظر نومبر 2007ء کو بھی دیکھنے میں آیا تھا جب صدر پرویز مشرف کویہ باور کرایا گیا کہ صدارتی الیکشن کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری ان کے کاغذاتِ نامزدگی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس لیے مسترد کر دیں گے کہ وہ آرمی چیف کے عہدے پر رہتے ہوئے صدارتی الیکشن لڑنے کے اہل نہیں‘ لہٰذا صدر مشرف نے محض ذاتی مفاد کی خاطر ملک میں ایمرجنسی پلس کا نفاذ کر دیا اور پی سی او کے تحت حلف نہ لینے پر چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری سمیت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے50 کے قریب ججز کو گھر بھیج دیا گیا‘ جس پر وکلا برادری اُٹھ کھڑی ہوئی اور عدلیہ بحالی کی تحریک شروع ہو گئی۔
اس تحریک کی وجہ سے تب پاکستان اہم بین الاقوامی معاہدوں سے محروم ہو گیا جبکہ اُنہی دنوں بھارتی وزیراعظم نے جموں و کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات کے لیے پاکستان آنا تھا‘ ان کا دورہ بھی اسی وجہ سے منسوخ ہو گیا۔ بعد ازاں صدر پرویز مشرف کو اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو این آر او دینا پڑا لیکن یہ این آر او بھی ان کے اقتدار کو نہیں بچا سکا۔ حالات تیزی سے تبدیل ہوتے رہے اور معاملات پرویز مشرف کے ہاتھ سے نکل گئے۔ حالات کو امن و امان کی طرف لانے کے لیے اُس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو مداخلت کرنا پڑی اور 21 مارچ 2009ء کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت تمام ججز بحال ہو گئے۔ افتخار محمد چودھری نے 30 جولائی 2009ء کو ان تمام ججز کو برطرف کر دیا جنہوں نے تین نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کے دوران پی سی او پر حلف اٹھایا تھا۔ ان ججز کی تعداد 115 کے لگ بھگ تھی۔ بلوچستان ہائیکورٹ کے تمام ججز برطرف کر دیے گئے جس کے نتیجے میں ملک کے ممتاز ماہرِ قانون جناب قاضی فائز عیسیٰ کو غیرمعمولی حالات میں براہِ راست بلوچستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا۔
چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 معزز جج صاحبان سے انفرادی طور پر تمام ججوں کا مؤقف سنا۔ فل کورٹ کے اعلامیے کے مطابق فل کورٹ کے اکثر اراکین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس خط میں اٹھائے گئے مسائل کے حوالے سے وزیراعظم سے ملاقات کریں۔ جس کے بعد چیف جسٹس نے وزیراعظم سے ملاقات کی اور معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ چیف جسٹس آف پاکستان اِن کیمرہ ملاقات میں ججز کے تحفظات کے حوالے سے متعلقہ ادارے کو ہدایات دے کر معاملے کو ختم کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر اُن حکام کو طلب کیا گیا تو معاملات دور تک جا سکتے ہیں جو موجودہ صورتحال کے تناظر میں ملکی مفاد میں نہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج صاحبان کے احتجاجی خط سے وہی صورتحال پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جیسی افتخار محمد چودھری کے دور میں پیدا ہوئی تھی۔ ریاستی اداروں کے خلاف مہم شروع کی گئی تو اس سے امن و امان کی صورتحال بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ اس وقت ملک دشمن عناصر سوشل میڈیا پر خوب سرگرم ہیں‘ ان کے آگے بند باندھنا حکومت کے لیے آسان دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے وفاقی وزرا جس قسم کے بیانات دے رہے ہیں اس سے حکومت کے خلاف ہی لاوا پھٹ سکتا ہے۔ ایچی سن کالج کے پرنسپل نے استعفیٰ دیتے ہوئے جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے وہ ہمارے سسٹم کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا نے بھی پرنسپل ایچی سن کے معاملے کو خوب اچھالا ہے اور پنجاب حکومت کی گورننس پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ چھ معزز جج صاحبان کے احتجاجی خط کے بعد دیگر ہائیکورٹس سے بھی ایسے خطوط آ سکتے ہیں۔ان حالات میں سفارتی حلقے پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اُدھرالیکشن کمیشن نے پنجاب میں سینیٹ الیکشن کے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کر دی ہے۔ ٹیکنوکریٹ کی 2 نشستوں پر 3 امیدوار مد مقابل ہوں گے۔جاری کردہ فہرست کے مطابق ٹیکنو کریٹ کی نشست پر وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب‘ لیگی رہنما مصدق ملک اور ڈاکٹر یاسمین راشد مد مقابل ہوں گے۔خواتین کی دو مخصوص نشستوں پر چار امیدوار مد مقابل ہوں گے۔ (ن) لیگی رہنما انوشے رحمان، بشریٰ انجم بٹ، پیپلز پارٹی کی فائزہ احمد اور سنی اتحاد کونسل کی صنم جاوید شامل ہیں۔ اقلیتی نشست پر لیگی رہنما خلیل طاہر سندھو اور سنی اتحاد کونسل کے آصف عاشق مد مقابل ہوں گے۔ پنجاب سینیٹ کی جنرل نشستوں پر(ن) لیگ کے پرویز رشید‘ ناصر محمود‘ احد چیمہ اور طلال چودھری بلا مقابلہ سینیٹر منتخب ہوچکے ہیں جبکہ حکومتی اتحاد کے محسن نقوی کے علاوہ مجلس وحدت المسلمین کے راجہ ناصر عباس اور حامد خان بھی بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوچکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں