"KDC" (space) message & send to 7575

نظامِ عدل پر عوام کا اعتمادمتزلزل؟

سپریم کورٹ اور اسلام آباد و لاہور ہائیکورٹ کے معزز ججز کو جو پُراسرار خطوط بھیجے گئے ہیں اُن میں سفید سفوف بھی موجود تھا۔ اس سفوف کی کمپوزیشن واضح ہونے سے ہی اصل صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معزز جج صاحبان کو بھیجے گئے یہ خطوط واقعتاً کسی خطرے کا اشارہ ہیں یا کسی شرپسند نے سماج اور نظام عدل میں صرف خوف پھیلانے کے لیے ایسا کیا ہے۔ اگر یہ سفوف انتھراکس ہے تو یہ فعل سیدھا سیدھا دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ بائیو ٹیرر ازم ہے جس میں مہلک بائیو کیمیکلز کو کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر ایسی کئی مذموم حرکتیں ہو چکی ہیں جن کا مقصد عوام اور حکومتی حلقوں میں خوف و ہراس‘ بے چینی اور بداعتمادی پھیلانا تھا۔ عالمی سطح پر مافیاز بڑی بڑی شخصیات پر دباؤ ڈالنے کے لیے بھی بائیو ٹیرر ازم کا سہارا لے چکے ہیں۔
ملکِ عزیز میں آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بعد سے جو کچھ ہو رہا ہے اس سے عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے‘ سارا نظام بکھرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک عدلیہ میں تقسیم کا بہت گہرا تاثر موجود تھا‘ اب یہ تقسیم کا تاثر تو ختم ہو چکا ہے لیکن ججز کو دھمکی آمیز خطوط والا نیا معاملہ سامنے آ گیا ہے۔ ان دھمکی آمیز خطوط سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ جج صاحبان کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں نظامِ عدل میں مداخلت کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے سات رکنی لارجر بنچ تشکیل دے کر سماعت بھی شروع کر دی ہے ۔تین اپریل کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے اس کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کا عندیہ دیا ہے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ معاملے کی سماعت کے لیے دیگر ججز اسلام آباد میں موجود نہیں تھے اس لیے دستیاب ججز کی بنیاد پر بینچ بنایا۔ اس وقت کچھ ججز لاہور اور کچھ کراچی میں ہیں۔ ممکن ہے کہ اگلی بار ہم سب ایک ساتھ بیٹھیں۔خط کے معاملے میں ہر موڑ پر سنجیدگی واضح ہے۔جس کے بعد یہ سماعت 29 اپریل تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
اس سے قبل حکومت کی طرف سے چیف جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کو اس معاملے کے لیے قائم کردہ کمیشن کی سربراہی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی لیکن انہوں نے اس تحقیقاتی کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی۔ چیف جسٹس (ر)تصدق حسین جیلانی نے محض انکوائری کمیشن کا سربراہ بننے سے ہی انکار نہیں کیا بلکہ انہوں نے بادی النظر میں انکوائری کمیشن کی تشکیل پر بھی سوالیہ نشان لگایا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ سپریم جوڈیشل کونسل کا ہی دائرہ کارہے اس لیے یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی دیکھے۔ وہ آئین کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے سات رکنی بینچ کے روبرو یہ مؤقف اختیار کیا کہ انکوائری کمیشن کے سربراہ کے لیے سابق چیف جسٹس ناصر الملک اور سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے نام تجویز کیے گئے تھے جبکہ وفاقی کابینہ نے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے نام پر اتفاق کیا تھا۔وفاقی کابینہ کے سامنے سابق چیف جسٹس ناصر الملک کا الیکشن جوڈیشل کمیشن کی سربراہی کا ریکارڈ موجود تھا‘ لہٰذا کابینہ نے ان کے نام پر اتفاق نہیں کیا تھا۔
شنید ہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو جو خط لکھا ہے اس میں ان کے اہلِ خانہ پر دباؤ ڈالنے اور تشدد کرنے کا انکشاف بھی کیا گیا ہے‘ لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ تشدد کس کی طرف سے کیا گیا ہے۔ہائی کورٹ کے ججز کے پاس آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت توہینِ عدالت کی کارروائی کا اختیارہے‘ وہ اپنا یہ اختیار بھی استعمال کر سکتے تھے۔ بہر حال اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور سپریم کورٹ کے پاس مداخلت کی ان شکایات کو ختم کرنے کا یہ اچھا موقع ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے فل کورٹ تشکیل دینے کا عندیہ دیے جانے کے بعد یہ سرگوشیاں بھی ہو رہی ہیں کہ اس فل کورٹ پر ایک سیاسی جماعت کے تحفظات سامنے آ سکتے ہیں۔ شنید ہے کہ اُس جماعت کے وکلا کی طرف سے نگران حکومتوں کے خاتمے کے بعد بھی اُن کی غیرجانبداری پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور یہ کہ نگران حکومتوں کے خلاف جوڈیشل کمیشن میں پیش ہونے کی تیاری ہو رہی ہے جہاں نگران حکومتوں کی کارکردگی کو آئین کے آرٹیکل 224 اور الیکشن ایکٹ2017ء کی شق 230 کے مطابق جانچنے اور ان کے اختیارات کے دائرہ کار کا جائزہ لینے کا مطالبہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے 14 مئی 2023ء کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کرانے کے واضح احکامات جاری کیے تھے لیکن الیکشن کمیشن نے اس الیکشن شیڈول کو مسترد کر دیا تھا۔ جوڈیشل کمیشن کو اس خلاف ورزی پر بھی کارروائی کرنے کی استدعا کی جاسکتی ہے۔ راولپنڈی ڈویژن کے سابق کمشنر لیاقت علی چٹھہ بھی اس جوڈیشل کمیشن کے سامنے طلب کیے جا سکتے ہیں۔ اس ممکنہ صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لیے حکومتی سطح پر قانونی ماہرین کی ایک ایسی ٹیم تشکیل دینی چاہیے جو ان غیرضروری مطالبات کا سامنا کر سکے۔حکومت کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط کا معاملہ حساس ترین قرار دیا جا رہا ہے اور حکومت کی طرف سے اس معاملے پر سیاست نہ کرنے کے اعلانات کیے جا رہے ہیں‘ لیکن حکومت کے پاس قانونی ماہرین کا فقدان ہے۔
ماضی میں جب جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملازمت میں توسیع کا معاملہ درپیش تھا تو وفاقی وزیر قانون و انصاف ڈاکٹر فروغ نسیم نے وزارت سے مستعفی ہو کر عساکر کے مؤقف کا دفاع کیا تھا اور انہوں نے اپنے مدلل دلائل سے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو لاجواب کر دیا تھا۔ اسی طرح موجودہ چیف جسٹس کے خلاف تحریک انصاف کی حکومت نے شہزادا کبر کی ایما پر ریفرنس صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی وساطت سے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوایا تھا‘ اس وقت بھی ڈاکٹر فروغ نسیم نے وفاقی حکومت کا کیس لڑا تھا اور سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال ان کے دلائل سے متاثر بھی نظر آئے تھے۔ بہر حال اس حوالے سے صورتحال 29اپریل ہی کو واضح ہو سکے گی جب اس کیس کے لیے فل کورٹ تشکیل پا جائے گا۔
حالیہ انتخابی تنازعات کی وجہ سے قوم فارم 45 اور فارم 47 کے ایشو پر تقسیم ہو چکی ہے۔ سیاسی بے یقینی‘ معاشی بدحالی اور مغربی سرحد پر دہشت گردی ایک ہی مسئلے کے مختلف پہلو ہیں‘ لہٰذا 29 اپریل سے پہلے پہلے حکومتی حلقوں میں اہم تبدیلی ریاست کے مفاد میں ہے۔ آئین کے آرٹیکل پانچ کو مدنظر رکھتے ہوئے اہم فیصلے کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کے بعض جج صاحبان بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ جج صاحبان کی پیروی کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کو عدلیہ میں مداخلت کے حوالے سے خط لکھنے کا سوچ رہے ہیں۔ دیکھیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں