"KDC" (space) message & send to 7575

چیئرمین سینیٹ کا انتخاب اور الیکشن کمیشن

آئین کے آرٹیکل 60 میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کیلئے ہاؤس مکمل ہونے کا واضح ذکر ہے اور اس کے مطابق سینیٹ کے سیکرٹری کو سینیٹ ایکٹ کے تحت انتخابی شیڈول جاری کرنا ہوتا ہے‘ الیکشن کمیشن کو سینیٹ کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا اختیار نہیں۔ الیکشن کمیشن کا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے کوئی تعلق نہیں۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ سینئر ایڈووکیٹ حامد خان‘ جو تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سینیٹر منتخب ہوئے ہیں‘ نے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی ہے کہ چونکہ سینیٹ کا ایوان نامکمل ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی نے 11 سینیٹروں کا انتخاب نہیں کیا اور الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے 30ارکان کا حلف نہ اٹھانے پر سینیٹ کا الیکشن ملتوی کر دیا‘ لہٰذا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب بھی مؤخر کیا جائے۔ الیکشن کمیشن اس استدعا کو آئینی طور پر مسترد کرنے کا مجاز ہے۔ اسی طرح قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب میں بھی الیکشن کمیشن کا کوئی سروکار نہیں‘ اسمبلی کے رُولز کے مطابق قومی اسمبلی سیکرٹریٹ ہی انتخاب کرانے کا مجاز ہے۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ حامد خان جیسے پائے کے قانونی اور آئینی ماہر نے بلاوجہ الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کر دی کہ چیئرمین سینیٹ کا انتخاب مؤخر کیا جائے۔
تحریک انصاف عمران خان کی غیر موجودگی میں خلفشار کا شکار ہے۔ تحریک انصاف کووکلا نے بندگلی میں کھڑا کر دیا ہے۔ آئے روز متضاد اور پارٹی کی گائیڈ لائن سے ہٹ کر بیانات دے کرپی ٹی آئی حامیوں میں مایوسی پھیلائی جا رہی ہے۔ شہریار آفریدی کی حالیہ بیان بازی بھی تحریک انصاف میں داخلی اختلافات کو واضح کرتی ہے۔ شہریار آفریدی کا سیاسی پس منظر بھی واضح کرتا چلوں‘ اُن کے آباؤ اجداد کا تعلق پاکستان مسلم لیگ‘ جس کے سربراہ خان عبدالقیوم خان تھے‘ سے تھا۔ انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی کی ذیلی تنظیم' پختون زلمے‘ کا سیاسی راستہ روکے رکھا تھا‘ لہٰذا شہریار آفریدی کا خاندانی سیاسی پس منظر بہت واضح ہے۔ اُنہوں نے پارٹی کے حوالے سے جو مؤقف اختیار کیا اس سے پارٹی بادی النظر میں انتشار کا شکار نظر آتی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اندرونی جمہوریت نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں سیاست محض کاروبار بن چکی ہے۔ اس طرح ملک و قوم کو مزید کمزور کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ سیاست میں پختگی نہیں‘ یہی وجہ ہے کہ خوشحالی آنے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ عقلمند قومیں آنے والی مشکلات کے مقابلے کے لیے قومی اثاثوں میں اضافہ کرتی ہیں اور حکومت ایسی سہولت فراہم کرتی ہے کہ کاروباری طبقہ اپنی صنعت اور تجارت کی مضبوطی کے لیے املاک خریدے‘ لیکن ہم تیس سال سے اپنے اثاثے فروخت کرنے یا انہیں غیروں کے حوالے کرنے میں ہی بڑائی سمجھتے ہیں اور قرضہ لے کر اور اثاثے بیچ کر خود پرفخر محسوس کرتے ہیں۔ گزشتہ چالیس سال کے اعداد و شمار دیکھ لیں‘ ملک کتنا مقروض ہوا‘ مگرچند خاندانوں کی دولت میں کتنا اضافہ ہوا۔ اقوامِ متحدہ کی انسانی ترقی کی 2023-24ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار 193 ممالک میں 184ویں نمبر پر ہے اور تشویشناک خبر یہ ہے کہ اب یہ ملک درمیانے ترقی پذیر ممالک کی صف سے خارج ہو کر کم آمدنی والے ممالک کی صف میں شامل ہو چکا ہے‘ جہاں اچھی زندگی گزارنے کی گنجائش ہے نہ تعلیم کی‘ نہ روزگار کی اور نہ ہی انسانی گزربسر کیلئے بنیادی سہولتیں موجود ہیں۔ معیشت کی سانسیں برقرار رکھنے کے لیے اگلے تین برس میں 72 ارب ڈالرز کے نئے قرض درکار ہوں گے جبکہ 2006ء میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں جو ملکی قرضے37 ارب ڈالرز تھے‘ اب131 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکے ہیں جو اگلے تین سال میں مزید بڑھ کر 200 ارب ڈالرز سے بھی تجاوز کر جائیں گے اور معیشت کیلئے عذاب بن جائیں گے۔ پاکستان معاشی طور پر ڈوب رہا ہے اور اس کے ساتھ اتحادی حکومت کا انتظامی ڈھانچہ بھی زمین بوس ہوتا جا رہا ہے۔ ملک میں سیاسی خلفشار کی وجہ سے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل میں بھی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ ملکی سرمایہ کار ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں اور غیرملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری سے اجتناب کر رہے ہیں۔ ان حالات میں وزیراعظم شہباز شریف کا سعودی عرب کا دورہ زمینی حقائق کے مطابق اہم ترین ہے‘ لیکن اس کے دور رس نتائج کے بارے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ ملکی اثاثے گروی رکھ کر قرضہ حاصل کرنے میں فخر محسوس کیا جا رہا ہے اور وہی پرانی روایت جو 2008ء سے چلی آ رہی ہے کہ قرض ملنے پر جشن کا سماں باندھا جا رہا ہے‘ حالانکہ ملک کے معاشی حالات اور بھاری بھرکم قرضوں کا حجم دیکھنے سے خوف طاری ہوجاتا ہے۔
آٹھ فروری کے قومی انتخابات کے بعد تشکیل پانے والی حکومت نے ملکی خزانہ کی ابتر صورتحال کے پس منظر میں قومی ایئرلائن کو فروخت کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے جس کے تحت تقریباً 51 فیصد سے 100 فیصد تک شیئرز فروخت کے لیے پیش کر دیے گئے ہیں۔ مگر پی آئی اے کو فروخت کرنا قومی المیہ ہی ہو گا۔ پی آئی اے نے اپنے ابتدائی دور میں بین الاقوامی طور پر نام بنایا‘ آج کی کئی کامیاب بین الاقوامی ایئرلائنز کو کامیاب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پی آئی اے سی ایل کے حصص کا تقریباً 90 فیصد حکومتِ پاکستان کے پاس ہے۔ قطر‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات و دیگر غیر ملکی ادارے یہ حصص خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ پی آئی اے نے صدر ایوب خان کے دورِ حکومت میں بڑا نام بنایا‘ کثیر منافع کمایا اور بالآخر مختلف حکومتوں کے ادوار میں مسلسل گراوٹ کا شکار ہوئی۔ گزشتہ کئی عشروں سے یہ مسلسل خسارہ اٹھارہی ہے۔ اس دوران قرضے بھی اٹھائے گئے اور حکومتوں نے ریلیف پیکیج بھی دیے مگر بالآخر یہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ پی آئی اے کم و بیش سالانہ 55 سے 60 لاکھ مسافروں کو سفری سہولتیں مہیا کرتی ہے اور دنیا بھر میں تین درجن سے زائد مقامات کے لیے ہر ہفتے تقریباً ڈھائی سو سے زائد پروازیں چلاتی ہے۔ یہ ایک سو کے قریب بین الاقوامی ایئر ٹریفک روٹس پر سفر کرتی ہے۔ پی آئی اے کی فروخت کا اعلان کرنے والی حکومت‘ قومی خزانہ کی آسودگی کے لیے قومی ایئرلائن کے زیادہ تر حصص فروخت کرنے کا اعلان کر چکی ہے۔ قومی پرچم بردار کمپنی کے تقریباً 51 فیصد سے 100 فیصد شیئرز نجی خریداروں کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس کے لیے تین مئی تک بولیاں طلب کی گئی ہیں۔ گویا تین مئی کو سقوطِ پی آئی اے کا دن ہو گا اور پی آئی اے اپنا وجود کھو بیٹھے گی۔
اس کے ساتھ ہی پاکستان کے اہم ترین اثاثوں کی فروخت یکے بعد دیگرے شروع ہوجائے گی مگر عوام کی توجہ فارم 45 اور 47پر ہی مبذول رکھی جائے گی اور اس کی آڑ میں قومی اثاثوں کا سودا ہوتا رہے گا۔ ریکوڈک اورسینڈک پروجیکٹ بھی عظیم قومی اثاثے ہیں۔ میں نے ان جگہوں کا 1999ء میں معائنہ کیا تھا۔ اُن دنوں میں بلوچستان کا چیف الیکشن کمشنر تھا‘ ان کی اندرونی کہانی بھی بڑی پُراَسرار ہے۔ سعودی عرب 500 ارب ڈالر کے ریکوڈک منصوبے میں اپنا حصہ ڈال کر پاکستان کی معاشی حالت کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرنے کا عزم رکھتا ہے اورپاکستان کے عوام سعودی سرمایہ کاری سے مطمئن رہیں گے۔ حاصلِ کلام یہ کہ 21اپریل اور 29 اپریل کے درمیانی عرصہ میں اہم پیشرفت ہونے جا رہی ہے۔ مقتدر حلقوں نے ریاست کے مفاد کو دیکھنا ہے اورکراچی کے امن و امان کی سنگین صورتحال سے خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے اور ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر نے اعلیٰ حلقوں کو سوچ بچار پر مجبور کر دیا ہے‘ نیز فل کورٹ میں بھی اہم راز سامنے آ سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں