"KDC" (space) message & send to 7575

پرویز الٰہی کو پی ٹی آئی کا چیئرمین ہونا چاہیے

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کئی ماہ کی قید کے بعد جیل سے رہا ہو گئے ہیں۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اب پاکستان تحریک انصاف میں ان کا مستقبل کیا ہوگا اور یہ کہ کیا چودھری پرویز الٰہی کی رہائی سے پی ٹی آئی سیاسی طور پر متحرک ہو پائے گی؟ایسے وقت میں جب عمران خان کے دیرینہ ساتھیوں نے اُن کا ساتھ چھوڑ دیا‘ چودھری پرویز الٰہی نہ صرف عمران خان کے ساتھ کھڑے رہے بلکہ اُن کی وجہ سے جیل کی سزا بھی بھگتی۔ اس لیے بادی النظر میں پاکستان تحریک انصاف میں چودھری پرویز الٰہی کامستقبل کافی روشن ہے‘ وہ مستقبل میں پارٹی کے چیئرمین بھی بن سکتے ہیں۔ بعض حلقوں کی جانب سے تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی شرائط اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 208 کے مطابق تحریک انصاف کے نئے انٹرا پارٹی الیکشن کا شیڈول جاری ہو سکتا ہے۔ انٹراپارٹی الیکشن میں چودھری پرویز الٰہی پارٹی چیئرمین شپ کے مضبوط امیدوار ہوں گے۔ چودھری پرویز الٰہی کی سیاست کمال کی ہے۔ انہوں نے عمران خان کے ساتھ کھڑے رہ کر اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط تر کر لی ہے اور اس دوران مقتدر حلقوں کے خلاف ایک لفظ نہ بول کر وہاں بھی اپنا اعتماد بنائے رکھا ہے۔ جب عمران خان قمر جاوید باجوہ کے خلاف الزام تراشی کر رہے تھے‘ تب بھی چودھری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی جنرل (ر) باجوہ کی حمایت میں کھڑے ہو گئے حالانکہ وہ تب پی ٹی آئی کی حمایت کی وجہ سے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پر براجمان تھے۔ اُنہوں نے تب عمران خان کو یہ بھی یاد دلانے کی کوشش کی تھی کہ قمر جاویدباجوہ ان کے محسن ہیں اور یہ کہ باجوہ صاحب کے عمران خان پر بہت احسانات ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی ہمیشہ سے مصالحت پسند سیاستدان رہے ہیں۔ ایسی مصالحت پسندی کی ان کی جماعت کو اشد ضرورت ہے۔ انہیں مقتدرہ اور عمران خان میں فائر فائٹنگ کی کوشش کرنی چاہیے۔ سیاسی حلقوں میں بھی چودھری پرویز الٰہی بڑے قد کاٹھ کی شخصیت ہیں‘ وہ سیاسی مفاہمت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ سیاسی مفاہمت سے ہی ممکن ہے۔ مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان محاذ آرائی کی وجہ سے جو اداروں کا تشخص مجروع ہوا ہے‘ سیاسی مفاہمت اس کا ازالہ کر سکتی ہے۔
دوسری طرف اگر انتخابی عذرداریوں پر بننے والے الیکشن ٹربیونلز کی بات کی جائے تو تحریک انصاف کو ان الیکشن ٹربیونلز کے حتمی فیصلوں کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ حتمی فیصلے میں یہ نتائج برقرار بھی رہ سکتے ہیں اور تبدیل بھی ہو سکتے ہیں۔ اس ضمن میں صوبائی حکومت کو الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہیے۔الیکشن ٹریبونلز کو اب تک اپنے فیصلے سنا دینا چاہئیں جبکہ عام انتخابات کو منعقد ہوئے تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اراکینِ اسمبلی الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں اور مخصوص نشستوں کے حوالے سے تین جون کے لارجر بنچ کے فیصلوں کی طرف نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ اگر مخصوص نشستوں اور الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں کے بعد اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کی نشستیں بڑھ گئیں تو وزیراعظم شہباز شریف اور سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف بیک وقت عدم اعتماد کی تحریک لانے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ اگر ایسی کوئی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو پیپلز پارٹی کا جھکاؤ کس کی طرف ہوگا‘ یہ فیصلہ پیپلز پارٹی کے تھنک ٹینک ہی کریں گے کیونکہ آصف علی زرداری ایسے معاملات میں مشاورت کے قائل ہیں۔
پنجاب کی بات کریں تو وزیراعلیٰ مریم نواز کی حلقہ پی پی 159 سے بطور ایم پی اے کامیابی کا نوٹیفکیشن چیلنج کردیاگیا ہے۔جسٹس سلطان تنویر احمد پر مشتمل الیکشن اپیلٹ ٹربیونل میں اس درخواست پر سماعت بھی ہو چکی ہے لیکن پہلی سماعت میں درخواست گزار ٹربیونل کو مطمئن نہیں کرسکا۔اسی طرح عون چودھری اور علیم خان کی کامیابی بھی الیکشن ٹربیونلز میں چیلنج کی جا چکی ہے۔ میاں نواز شریف کی حلقہ این اے 130 سے کامیابی بھی چیلنج کی گئی ہے۔ اگر ان میں سے کسی ایک کا نتیجہ بھی غلط قرار دے دیا گیا تو دیگر حلقوں کے نتائج بھی مشکوک ہو جائیں گے۔ اطلاعات ہیں کہ مقتدرہ بھی اس صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے۔
اُدھر اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتا شاعر احمد فرہاد کیس کی گزشتہ سماعت کے موقع پر لاپتا افراد کے تمام مقدمات براہِ راست نشر کرنے کا حکم دیتے ہوئے آج یعنی 29 مئی کو ہونے والی سماعت میں وفاقی وزیرقانون‘ سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی اورایم آئی‘ ڈائریکٹر آئی بی‘ سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ یہ اعلیٰ عہدیدار اس کیس کی سماعت میں ذاتی حیثیت میں پیش ہوتے ہیں یا نہیں۔ غالب امکان ہے کہ اس کیس میں سیکرٹری دفاع ہی باقی ریاستی اداروں کی نمائندگی کریں گے۔آج کی پیشی میں ان حکام کی حاضری سے نہ صرف اس کیس میں مثبت پیشرفت سامنے آ سکتی ہے بلکہ اداروں کے درمیان موجود تناؤ میں بھی کمی واقع ہو گی۔
دیکھا جائے تو حکومت کے مشکلات سے دوچار ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت کے قانونی مشیران و معاونین آئین و قانون کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خاطر کمزور بنیادوں پر قانون سازی کر رہے ہیں۔ زیادہ تر حکومتی وزرا اپنی ذاتی امیج بلڈنگ میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ذاتی امیج بلڈنگ کی یہ مشق انہیں عوامی مسائل سے دور رکھے ہوئے ہے۔ یہی حال اپوزیشن رہنماؤں کا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے نمائندے روزانہ کسی نہ کسی ٹی وی چینل پر بیٹھے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے مفادات کی آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ ان پروگراموں میں ہونے والے بحث و مباحثے دیکھنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ نہ تو حکومت اور نہ ہی اپوزیشن کو عوام کی کوئی فکر ہے۔ اگر انہیں فکر ہے تو صرف اقتدار کی۔
اب کچھ احوال خیبر پختونخوا کے بجٹ کا۔ خیبر پختونخوا نے تاریخ میں پہلی بار وفاق سے پہلے اپنا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ اس حوالے سے کوئی آئینی قدغن تو موجود نہیں لیکن چونکہ صوبوں نے اپنی آمدن کا زیادہ حصہ وفاق سے وصول کرنا ہوتا ہے اس لیے وفاق کی طرف سے ملنے والی رقم کا تعین ہونے کے بعد صوبائی بجٹ بہتر منصوبہ بندی سے تیار اور پیش کیا جا سکتا ہے۔ اگر صوبے اپنے اخراجات کا تخمینہ آمدن سے زیادہ لگا لیں تو اس سے صوبوں کو ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی کسی ریاستی یونین نے بھی مرکزی بجٹ سے پہلے اپنا بجٹ منظور نہیں کرایا۔
دوسری طرف پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن اور صحافتی تنظیموں کے تحفظات اور احتجاج کے باوجود ہتکِ عزت بل 2024ء منظور کرلیا گیا ہے۔ اس موقع پر اپوزیشن نے ہتکِ عزت بل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔بل منظور ہونے کے بعد گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر سے صحافتی تنظیموں نے اس بل کے حوالے سے ملاقات کی ہے جس میں صحافتی نمائندوں نے ہتکِ عزت بل 2024ء بارے اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ہتکِ عزت بل آزادیٔ اظہار کا گلا دبانے کی کوشش ہے۔ گورنر پنجاب نے صحافتی تنظیموں کو یہ یقین تو دلایا ہے کہ متنازع شقوں پر تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے گا‘ تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر بل پر دستخط نہیں کیے جائیں گے۔ دیکھیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں