"KDC" (space) message & send to 7575

’’غیر مقبول بجٹ‘‘ اور وزیر خزانہ

ملک میں سیاسی محاذ روز بروز گرم ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت اور تحریک انصاف کے معاملات سلجھتے سلجھتے اچانک دوبارہ الجھنے لگتے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی چند شخصیات ایک عالمی سازش کے تحت عمران خان کو مقتدرہ سے لڑوا کر ملکی سالمیت کے خلاف عالمی سازش کا حصہ بن چکی ہیں اور اس سازش کے نتیجے میں وہ خان صاحب کو ہمیشہ کیلئے سیاست سے الگ کرنے کی کوشش میں ہیں‘ کیونکہ عمران خان بنیادی طور پر ایک مدبر سیاست دان نہیں بلکہ ان کا زیادہ جھکاؤ ذاتی انتقام کی طرف ہے۔ شنید ہے کہ تحریک انصاف کے ایک اہم ترین عہدیدار کے ایک امریکی ادارے سے کافی اچھے تعلقات ہیں‘ وہی اس سازش کا حصہ ہیں۔ یہ عہدیدار عمران خان کے مقتدر حلقوں سے مذاکرات کے حامی نہیں۔ اگر خان صاحب اس شخص کے بارے میں تفصیلاً جاننا چاہتے ہیں تو وہ عمر ایوب اور شبلی فراز سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ اس شخص کے بارے میں بنیادی معلومات اُن این جی اوز سے بھی حاصل کی جا سکتی ہیں جو افغانستان میں امریکی مؤقف کی حمایت کرتی اور لاکھوں ڈالرز ماہانہ حاصل کرتی رہی ہیں۔ نجانے ایسی شخصیات کو اپنی جماعت میں رکھ کر عمران خان ان سے کیا فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ عمران خان جب وزیراعظم تھے تو اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی اور موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے انہیں انکے ایک مخصوص قریبی گروپ کی کرپشن کے بارے میں ثبوت کے پیش کرکے مستقبل کے خطرات سے آگاہ کیا تھا لیکن عمران خان نے ان دستاویزات پر غور کرنے کے بجائے جنرل عاصم منیر کو ہی ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ عمران خان کو چاہیے کہ اب ٹھنڈے دل سے اس پر غور کریں اور ملک کے وسیع تر مفاد میں اپنی سوچ تبدیل کریں۔ مقتدرہ کے پیشِ نظر ہمیشہ ملکی مفاد ہوتا ہے‘ اس لیے کوئی بھی ایسا شخص جو ملکی مفاد کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا ہو‘ مقتدر حلقوں کی آنکھوں سے اوجھل نہیں رہ سکتا۔
سیاست سے ہٹ کر اگر معیشت کی بات کی جائے تو موجودہ وفاقی وزیر خزانہ سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ملکی معیشت کو چلا رہے ہیں۔ اب تو وزیر دفاع خواجہ آصف بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ نئے مالی سال کا بجٹ آئی ایم ایف کی مرضی سے بنایا گیا ہے اور اس سے ملکی خودمختاری خطرے میں ہے۔ اگر ہم ہر معاملے میں آئی ایم ایف کے محتاج ہو چکے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب بالکل دیوالیہ ہو جائیں گے۔ آئی ایم ایف کی مداخلت نے ہی مصری معیشت کو اس نہج تک پہنچایا۔ بعض حلقوں نے مطالبہ کرنا شروع کر دیا ہے کہ موجودہ وزیر خزانہ کو تبدیل کرتے ہوئے عوام کے ووٹوں سے ایوان میں پہنچنے والی کسی شخصیت کو اس عہدے پر منتخب کیا جائے۔ محمد اورنگزیب تو کسی جماعت کے باقاعدہ رکن بھی نہیں ہیں‘ انہیں بلا مقابلہ سینیٹر منتخب کرانے کے بعد یہ عہدہ ان کے حوالے کیا گیا۔ وہ ملک کے اہم ترین آئینی عہدے پر براجمان ہیں لیکن عوام میں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ انہیں موجودہ حکومت کی کسی پالیسی سے کوئی سروکار نہیں۔ بلاول بھٹو زرداری فی الحال تو نئے قومی بجٹ پر حکومت کی حمایت کر چکے ہیں لیکن اگر اس بجٹ سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا‘ جوکہ یقینی ہے تو وہ قومی اسمبلی کے ایوان میں یہ اعلان کرنے میں بھی کوئی تاخیر نہیں کریں گے کہ ان کی پارٹی کا اس عوام دشمن بجٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے وزیراعظم شہباز شریف کی تشکیل کردہ کفایت شعار کمیٹیوں کی تجاویز کو بھی بجٹ میں نظرانداز کر دیا۔ اس کے برعکس وزارتِ خزانہ کے اندرونی حلقوں سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ بجٹ میں وزرا کی تنخواہ کا پیکیج بین الاقوامی معیار کے مطابق رکھا گیا ہے۔ ملکی تاریخ میں یہ ایک انوکھا تجربہ ہے کہ ایک بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہونے والی شخصیت کو وفاقی وزیر خزانہ کا عہدہ تھما دیا گیا اور وہ زمینی حقائق اور عوام کی معاشی مشکلات کو پس پشت ڈالتے ہوئے آئی ایم ایف کی تجاویز کے مطابق ملکی معیشت کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اُن سے پہلے وفاقی وزیر خزانہ بننے والے شوکت عزیز‘ حفیظ شیخ اور شوکت ترین بھی ٹیکنو کریٹ تھے مگر وہ باقاعدہ طور پر کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کے رکن تھے لیکن محمد اورنگزیب کا تو کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق ہی نہیں اور اس لیے ان کی معاشی پالیسیوں کی ناکامی کی صورت میں کوئی بھی جماعت ان کو جوابدہی کا پابند نہیں بنا سکتی۔ مسلم لیگ کے سابق وزیر خزانہ اور موجودہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار بھی وزیر خزانہ کی پالیسیوں کی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ شاید اسی لیے قومی بجٹ ایوان میں پیش کرنے سے پیشتر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مابین اختلافات پیدا ہو گئے اور بلاول بھٹو زرداری غصے میں پارلیمنٹ ہاؤس سے واپس چلے گئے تھے اور کسی کارروائی کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔
دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کی سیاسی گیم اور دہری پالیسی سے سخت نالاں نظر آتی ہے۔ میاں نواز شریف بطور صدر مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی کی قیادت کے اس رویے کو گہری نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ایک طرف میاں نواز شریف پیپلز پارٹی کے رویے سے ناخوش ہیں تو دوسری جانب کچھ حلقوں میں یہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ شہباز شریف آئندہ تین ماہ میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا سوچ سکتے ہیں۔حکومت دہری مشکل میں پھنس چکی ہے۔ اگر وہ آئی ایم ایف کی شرائط نہیں مانتی تو قرضہ نہیں مل سکتا اور اگر ان کی شرائط کے آگے سر جھکاتی ہے تو حکومت مخالف عوامی احتجاج کے زور پکڑنے کا خطرہ ہے کیونکہ ایک طرف تحریک انصاف کا ناراض ووٹر تمام تر مشکلات کے باوجود حکومت کے خلاف سرگرم ہے اور دوسری طرف بڑھتی مہنگائی اور بجلی کے بھاری بلوں نے عوام کو حکومت کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔
اس سیاسی و معاشی کشمکش میں سپریم کورٹ سے مخصوص نشستوں کا فیصلہ بھی آنے والا ہے۔ اگر مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو تفویض کر دی گئیں تو شہباز شریف کی حکومت کو کسی بھی وقت آئین کے آرٹیکل 91 کے تحت اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بہانے گرایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح چھ معزز ججوں نے جو خط سپریم جوڈیشل کمیشن کو لکھا ہوا ہے‘ یہ فیصلہ اہم ترین نوعیت کا ہو گا۔ ادھر سپریم کورٹ نے الیکشن ٹریبونل کی تشکیل کے لاہور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلے معطل کر دیے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے لاہور ہائیکورٹ کے الیکشن ٹریبونلزکی تشکیل سے متعلق فیصلے پر الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت اور بینچ پر اعتراض مسترد کر کے کیس سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن ٹریبونل کی تشکیل سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے حلف کے فوری بعد الیکشن کمیشن اور ارکان چیف جسٹس سے بامعنی مشاورت کریں۔ قبل ازیں لاہور ہائیکورٹ نے آٹھ اضافی الیکشن ٹربیونلز تشکیل دے کر الیکشن کمیشن کے آئینی اختیارات مسدود کر دیے تھے جس پر الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ حکومت‘ عدلیہ‘ وزارتِ خزانہ‘ کمزور ترین گورننس‘ عوام کا شدید غم و غصہ‘ تاجر برادری کا خوف اور اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی‘ ان تمام عوامل کو بیرونی سرمایہ کار بھی دیکھ رہے ہیں اور دوست ممالک بھی‘ سب اپنی اپنی جگہ پر حیران و پریشان ہیں۔ سعودی عرب اور دوست ممالک سرمایہ کاری کے لیے حالات کے نارمل ہونے کے منتظر ہیں اور عالمی قوتیں بھی توقع کر رہی ہیں کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ ہی کو آگے آنا ہوگا۔ شہباز حکومت کمزور تر ہوتی نظر آ رہی ہے اور نواز شریف اپنی سیاسی مقبولیت کی بحالی کے لیے نئے بیانیے کے تحت مقتدرہ کے ماضی کے فیصلوں پر شدید تنقید کا راستہ اپنا سکتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں