"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن ٹربیونلز اور قائم مقام صدر کے اختیارات

اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نئے الیکشن ٹربیونل کو کام سے روک دیا ہے۔ اصولی طور پر اس صدارتی آرڈیننس کی قانونی حیثیت کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہو گا کہ بادی النظر میں آرڈیننس کا اجرا کسی مفاد یا بدنیتی کے سبب تو نہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر شعیب شاہین نے الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کے اجرا کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے‘ اس کیس میں ان کے علاوہ دیگر مدعی بھی ہیں۔ اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے ریمارکس بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بظاہر الیکشن کمیشن کا فیصلہ غلط ہے‘ ٹربیونل پر تعصب کا الزام لگانے والے تعصب ثابت کریں یا توہینِ عدالت کی کارروائی کا سامنا کریں۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری ہائیکورٹ کے معزز جج ہیں‘ الیکشن کمیشن نے چیف جسٹس کی سفارش پر ہی انہیں ٹربیونل کا جج بنایا‘ اگرچہ تعصب کی بنیاد پر کیس ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے مگر اس کا ایک طریقہ کار ہے۔ سب سے پہلے متعلقہ جج سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ کیس کی سماعت نہ کرے۔ وفاقی حکومت بریف کرے کہ سال پہلے یہ ترمیم ختم کی‘ اب آرڈیننس کے ذریعے دوبارہ یہ ترمیم لے آئے کہ ریٹائرڈ جج کا تقرر کیا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے کیا ہنگامی حالات تھے کہ راتوں رات الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس جاری کیا گیا۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہائیکورٹ جج سے متعلق توہین آمیز زبان استعمال کی گئی‘ اپنے فائدے کے لیے جج پر تعصب‘ اقربا پروری اور طرفداری کے الزامات لگائے گئے‘ اگر یہ الزامات غلط ہوئے تو رکنِ قومی اسمبلی کو اس کے نتائج کا علم ہونا چاہیے‘ وہ پانچ سال کے لیے نااہل ہو سکتے ہیں۔ بعض حلقے ان ریمارکس کو مسلم لیگی رہنماؤں کی قسمت کے فیصلے کی طرف ایک اشارہ قرار دے رہے ہیں‘ تاہم عدالتی فیصلے سے قبل کوئی نتیجہ اخذ کرنا درست نہ ہو گا۔ البتہ ان رہنماؤں کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزز جج کے خلاف الزامات کو ثابت کرنا پڑے گا۔ اگر وہ اس میں ناکام ہو جاتے ہیں تو آرٹیکل 63 (1)(g)کے تحت نااہل ہو سکتے ہیں۔الیکشن کمیشن نے الیکشن ٹربیونلز کی تبدیلی الیکشن ایکٹ کی دفعہ 151کے تحت کی ہے ‘ مگر اس کے مدمقابل رولز کو بھی یقینا سامنے رکھا ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہائیکورٹ کے معزز جج کو الیکشن ٹربیونل کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کرنے سے پیشتر ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا۔ دوسری جانب جسٹس (ر) شکور پراچہ کو الیکشن ٹربیونل میں تعینات کرنے سے ناقدین کے ہاتھ ایک اہم مواد لگ گیا ہے۔ جسٹس (ر) شکور پراچہ سے میری نیازمندی 1983ء سے چلی آ رہی ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ ایسے سیاسی آلودہ ماحول میں ان کو الیکشن ٹربیونل کی ذمہ داریاں سنبھالنے سے گریز کرنا چاہیے۔
حکومت نے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 151میں ترمیم کر کے ریٹائرڈ ججز کے تقرر کا دروازہ کھولا ‘ اور متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت کی شق کو حذف کر دیا۔مگر اس حکومتی فیصلے سے عدلیہ کے نظام کو زک پہنچی ہے۔ ہمیشہ سے یہی روایت رہی ہے کہ عدلیہ کی سربراہی میں کمیشن کی تشکیل ہوتی ہے یا الیکشن ٹربیونلز کو مقرر کیا جاتا ہے۔ عوامی مفاد میں کسی بھی کمیشن کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس سے مشاورت لازمی سمجھی جاتی ہے۔یہی دیکھ لیں کہ حکومت نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کی شکایت پر سپریم جوڈیشل کونسل میں کیس بھجوانے سے پیشتر چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت ہی سے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں یک رکنی کمیشن قائم کیا تھا۔مگر سیاسی معاملات نے جورُخ اختیار کیا اس کو دیکھتے ہوئے جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ تمام معاملات حکومت کے روبرو تھے۔ ماضی کے اہم کمیشنوں کی تشکیل کے طریقہ کار کو بھی وزیر قانون و انصاف بخوبی جانتے ہوں گے‘ اس کے باوجود الیکشن ٹربیونلز میں ریٹائرڈ ججوں کی شمولیت کیلئے متعلقہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو نظر انداز کر دینا ایک ایسا اقدام ہے جس سے ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ شاید موجودہ اور سابقہ نگران حکومت کے کچھ اہم افراد کی مشاورت سے ایسے فیصلے سامنے آئے مگر ان پر تنقید کے باوجود وزارتِ قانون و انصاف ٹس سے مس نہیں ہوئی اور اس پر بدنامی کا خمیازہ حکومت کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ نگران اور منتخب وفاقی و صوبائی حکومتیں ماضی میں بھی غلط فیصلوں کا دفاع کرتے ہوئے ناقص طریقے سے ''اوپر‘‘ کا اشارہ کرکے ناقدین کو خاموش کراتی آئی ہیں‘ حالانکہ یہ اپنی نااہلیت کو چھپانے کیلئے کمزور سہاروں کی تلاش سے زیادہ کچھ نہیں۔مختصراً یہ کہ الیکشن ٹربیونلز کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس کو کالعدم قرار دیا جانا چاہیے اور وزیراعظم کو کابینہ اور مشیروں میں اہم تبدیلیاں کرنی چاہئیں اورجن کے مشورے سے اس آرڈیننس کی سمری کو ایوانِ صدر بھیجا گیا اور قائم مقام صدر سے آرڈیننس جاری کرایا گیا‘ ان سے آئندہ مشورہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قائم مقام صدر ماضی میں بھی متنازع اقدامات کرتے رہے ہیں۔ ماضی میں ہر متنازع بل کی منظوری قائم مقام صدر ہی سے کرائی گئی ۔ البتہ صدارتی آرڈیننس پر قائم مقام صدر کے اختیارات کے حوالے سے اب اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ اہم ہو گا۔
دوسری جانب سیاسی افق کا جائزہ لیا جائے تو وفاقی وزارتِ خزانہ نے 18877ارب سے زائد کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ وزیرِ خزانہ نے ماضی کے وزرائے خزانہ کی طرح روایتی تقریر اور اعداد و شمار کے گورکھ دھندے پر اکتفا کیا۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی نے بجٹ سے لاتعلقی کا اظہار کر کے ایک سیاسی داؤ کھیلا ہے۔ حکومت کے اہم ترین آئینی مناصب پر ان کا غلبہ ہے۔ سینیٹ کی وزارتِ خزانہ اور داخلہ کی قائمہ کمیٹیوں میں بھی ان کے من پسند افراد چھائے ہوئے ہیں۔ البتہ حکومت اس وقت انتہائی کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے اور تمام تر عوامی تنقید کا سامنا مسلم لیگ (ن) کر رہی ہے۔ اب نواز شریف کو اہم فیصلہ کرنا ہو گا۔ موجودہ حالات میں ان کی پارٹی کے لوگ سرکاری سہولتوں سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن عوامی سطح پر ان کے قدم اُکھڑ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی مستقبل میں بھی سندھ پر حکومت کرتی نظر آتی ہے مگر مسلم لیگ (ن) کا پنجاب‘ وفاق اور دیگر صوبوں میں سیاسی طور پر صفایا ہوتا دکھائی دے رہا ہے؛چنانچہ نواز شریف کو بطور صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) وفاقی اور پنجاب کابینہ میں اہم تبدیلیاں لا نی چاہئیں۔ شنید ہے کہ نواز شریف اس کے لیے بجٹ کی منظوری کا انتظار کر رہے تھے اور اس کے بعد وہ وفاقی اور صوبائی کابینہ سے متعلق کوئی فیصلہ کریں گے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی نے حسبِ توقع بجٹ کی منظوری کیلئے اپنی حمایت کا یقین دلا دیا ہے اور بجٹ کی منظوری کے بعد کابینہ میں پیپلز پارٹی کی شمولیت کے حوالے سے تمام معاملات طے پا چکے ہیں۔ پارلیمانی راہداریوں میں ایسی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری وزیر خارجہ کا عہدہ دوبارہ سنبھالیں گے اور اسحاق ڈار وزیر خزانہ کا جبکہ نائب وزیراعظم کا عہدہ بھی وہ اپنے پاس رکھیں گے۔ موجودہ وزیر خزانہ کی قسمت کا فیصلہ نواز شریف ہی کریں گے۔ کابینہ میں نئے چہرے سامنے آئیں گے اور ایسی حکومت تشکیل دی جائے گی جس سے قومی حکومت کا تصور اُجاگر ہو۔دوسری طرف عمران خان کا چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھنا اور محمود خان اچکزئی کو مذاکرات کیلئے آگے بڑھانا مستقبل کے سیاسی روڈ میپ کی طرف ایک اشارہ ہے۔ جس دن حکومت اور اپوزیشن اتحاد کے مابین مذاکرات شروع ہوئے‘ حکومت کی الٹی گنتی شروع ہو جائے گی۔ اعلیٰ حلقوں کو احساس ہو چکا ہے کہ یہ حکومت عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں