"KDC" (space) message & send to 7575

فیلڈ مارشل عاصم منیر

وفاقی حکومت نے ملکی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے بھارت کو شکست دینے‘ عالمی سطح پر پاکستان کی عسکری قوت کو تسلیم کرانے اور جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن پاکستان کے حق میں کرنے پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے کر ایک اچھا قدم اٹھایا ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے بعد وہ ملکی تاریخ کے دوسرے فیلڈ مارشل ہیں۔ ساتھ ہی حکومت نے پاک فضائیہ کے سربراہ کی مدتِ ملازمت میں بھی توسیع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارت میں اب تک دو فیلڈ مارشل اور ایک 'مارشل‘ رہ چکے ہیں۔ 1971ء کی جنگ کے بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے پہلی بار انڈین کمانڈر انچیف جنرل سیم مانک شا کو فیلڈ مارشل کا عہدہ دیا تھا جبکہ جنرل کے ایم کریاپا کو ریٹائرمنٹ کے 33 سال بعد فیلڈ مارشل کا اعزاز دیا گیا۔ اسی طرح 1965ء کی جنگ کے بعد جی ارجن سنگھ کو مارشل آف دی ایئر کا اعزاز دیا گیاتھا۔
دراصل فیلڈ مارشل فائیو سٹار جرنیل رینک ہوتا ہے اور یہ حکومت کی جانب سے فوج کے سربراہ کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے۔خصوصاً ان سربراہان کو جنہوں نے جنگوں میں غیر معمولی خدمات انجام دی ہوں یا ملکی دفاع میں بڑا کردار ادا کیا ہو۔ اس عہدے کے ساتھ کسی خاص کمان کی ذمہ داری نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک اعزازی عہدہ ہوتا ہے۔
وزیر اعظم آفس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے معرکہ حق‘ آپریشن بنیانٌ مرصوص کی اعلیٰ حکمتِ عملی اور دلیرانہ قیادت کی بنیاد پر ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے اور دشمن کو شکست دینے پر جنرل سید عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کی منظوری دی گئی ہے۔ نیز یہ کہ وفاقی کابینہ نے قرار دیا کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے مثالی جرأت اور عزم کے ساتھ پاکستان فوج کی قیادت کی اور مسلح افواج کی جنگی حکمتِ عملی اور کاوشوں کو بھرپور طریقے سے ہم آہنگ کیا۔ اور آرمی چیف کی بے مثال قیادت کی بدولت پاکستان کو معرکہ حق میں تاریخی کامیابی حاصل ہوئی۔‘ وزارتِ دفاع نے پاکستان آرمی ریگولیشن رُولز 1998ء کے رُول199-A کے تحت صدرِ مملکت کی منظوری سے جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ اس موقع پر آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ یہ اعزاز اُن کے پاس قوم کی امانت ہے۔ میں یہ اعزاز پوری قوم‘ افواجِ پاکستان‘ خاص طور پر سول و ملٹری شہدا اور غازیوں کے نام وقف کرتا ہوں۔
جنرل ایوب خان کی بات کی جائے تو وہ 27 اکتوبر 1959ء کو پاکستان کے پہلے فیلڈ مارشل بنے تھے۔ متحدہ ہندوستان کے وہ واحد فوجی افسر تھے جو برطانوی رائل ملٹری اکیڈمی سینڈہرسٹ کے تربیت یافتہ تھے۔ سات اکتوبر 1958ء کو صدر اسکندر مرزا نے ملک کا آئین (1956ء) منسوخ کر کے جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کرتے ہوئے ملک کا وزیراعظم بھی بنا دیا تھا۔ بعد ازاں صدر اسکندر مرزا کو فوج کو تقسیم کرنے کی سازش میں ملوث ہونے پر 27 اکتوبر 1958ء کو صدرِ مملکت کے عہدے سے ہٹا کر جلاوطن کر دیا گیا اور جنرل ایوب خان نے صدارت کا عہدہ سنبھال لیا۔ تقریباً سات سال بعد دو جنوری 1965ء کو جب ملک میں پہلا صدارتی الیکشن منعقد ہوا تو اُس میں صدر ایوب خان کامیاب قرار پائے۔ ان کے دورِ حکومت میں چھ ستمبر 1965ء کو پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوا اور پاکستان کی افواج نے بھارت کے 550 مربع کلو میٹر رقبے پر قبضہ کر لیا جس سے بھارت کو سیزفائر کرنا پڑا اور 22ستمبر 1965ء کو اقوامِ متحدہ کی مداخلت اور بھارتی کے وزیراعظم لال بہادر شاستری کی استدعا پر جنگ بندی ہو گئی۔ بعد ازاں 25 مارچ 1969ء کو صدر ایوب خان جمہوری تحریک کے نتیجے میں صدارتی عہدے سے مستعفی ہو گئے اور ملکی سیاست سے لاتعلقی اختیار کر لی۔ وہ 20 اپریل 1974ء کو 69 سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔فیلڈ مارشل ایوب خان سے میری اکثر ملاقات رہتی۔ ان ملاقاتوں میں انہوں نے پاکستان کی تاریخ پر سے جو پردے اٹھائے ہیں وہ میری زیر طبع سرگزشت میں شامل ہیں۔
فیلڈ مارشل ایوب خان نے جب صدارتی انتخاب میں کاغذاتِ نامزدگی داخل کرائے تھے تو پاکستان کے سابق ایڈووکیٹ جنرل محمد انور کی طرف سے ان کے کاغذاتِ نامزدگی پر اعتراض اٹھایا گیا کہ صدر ایوب خان مسلح افواج سے منسلک ہیں اور اسی حیثیت سے فوج سے معاوضہ بھی وصول کرتے ہیں‘ اس بنیاد پر وہ 1962ء کے آئین کے مطابق صدر بننے کے اہل نہیں ہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ بطور فیلڈ مارشل وہ ریٹائر ہو چکے ہیں۔ اُس وقت کے اٹارنی جنرل منظور قادر نے چیف الیکشن کمشنر جی معین الدین کے پاس جو دستاویز جمع کرائی تھیں ان کے مطابق صدر ایوب خان 31 جولائی 1960ء سے بطور فیلڈ مارشل فوج سے ریٹائرڈ ہو چکے تھے۔ شیخ منظور قادر نے 19 اور 22 نومبر 1964ء کو اس ریٹارمنٹ کے باقاعدہ نوٹیفیکیشن بھی پیش کیے تھے جس کے بعد فیلڈ مارشل ایوب خان کے ملازمت سے ریٹائر ہونے میں کوئی شبہ باقی نہ رہا اور ریٹرننگ افسر اور چیف الیکشن کمشنر جی معین الدین نے ان کے کاغذاتِ نامزدگی کو درست قرار دے دیا۔ ایوب خان کے برعکس فیلڈ مارشل عاصم منیر کا معاملہ مختلف ہے‘ وہ ملکی سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
آج وفاقی حکومت‘ وزارتِ قانون و پارلیمانی امور میں جہاندیدہ افراد کا فقدان نظر آتا ہے۔ ان کی آئین پر دسترس نہیں ہے‘ ان کے ارد گرد بھی زیادہ تر وہی لوگ گھومتے رہتے ہیں جن کو آئین کے بارے میں زیادہ ادراک نہیں ہے۔ ان افراد کو اب محتاط رویہ اختیار کرنا پڑے گا جو ملک کے پہلے فیلڈ مارشل کے خلاف گفتگو کرتے رہے ہیں۔ ان میں خواجہ آصف اور سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل ہیں‘حالانکہ فائز عیسیٰ کے والد قاضی محمد عیسیٰ فیلڈ مارشل ایوب خان کے الیکشن ایجنٹ تھے۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر بھارت کو دھول چٹانے کے علاوہ داخلی سطح پر استحکام قائم کرنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ قومی سلامتی امور کا مشیر بھی اب ایک حاضر سروس جنرل ہے۔ آئی ایس آئی کو کمان کرنے والی اہم شخصیت وفاقی مشیر برائے سکیورٹی امور کے فرائض بھی سرانجام دے رہی ہے۔ جنرل عاصم منیر کے فیلڈ مارشل بننے کے بعد ملک سیاسی اور معاشی لحاظ سے مزید مستحکم ہو گا۔ تاہم ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے بھی ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔ خیبر پختونخوا میں 40 ارب روپے کا میگا سکینڈل سامنے آیا ہے جس سے صوبائی حکومت پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور کے پی حکومت عوام کا اعتماد کھو رہی ہے۔ بلوچستان میں بھی صوبائی حکومت کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ سندھ اور پنجاب میں صورتحال دیگر صوبوں سے بہتر ضرور ہے مگر اسے تسلی بخش بالکل بھی نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اسلام آباد انتظامیہ کی کارکردگی بھی عوام کے سامنے ہے۔ حکومت کو امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ فیلڈ مارشل عاصل منیر کی نگاہیں اب عوام کی خوشحالی پر لگی ہوئی ہیں۔ ملک کو معاشی استحکام کی جانب گامزن کرنے کیلئے وہ اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں