مئی میں ہونے والی جنگی جھڑپ کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی کشیدگی اور بھارت کا مسلسل بڑھتا ہوا جنگی جنون پورے خطے‘ بالخصوص جنوبی ایشیا کے امن کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے۔ بھارت کی عسکری حکمتِ عملی ہمیشہ پاکستان کے گرد ہی گھومتی رہی ہے‘ چاہے وہ سرحدی خلاف ورزیاں ہوں یا ریاستی سرپرستی میں کی جانے والی دہشت گردی۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ کے ذریعے عالمی امن میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ دوسری طرف بھارت پاکستان میں ریاستی دہشت گردی کامرتکب ہونے کے باوجود خود کو دہشت گردی سے متاثرہ ملک کے طور پر پیش کرتا ہے۔ پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد جب اس نے پاکستان میں سویلین آبادی کو نشانہ بنایا تو پاکستان نے ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ بھارت کو جنگ بندی کے لیے امریکہ کے دروازے پر جانا پڑا۔
صرف پاکستان سے مقابلے اور پاکستان میں ریاستی دہشت گردی کیلئے بھارت ہر سال اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرتا ہے۔ مالی سال 2025-26ء کیلئے بھارت کا دفاعی بجٹ تقریباً 77.4 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 9.5 فیصد زیادہ ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے دفاعی اخراجات میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران 94 فیصد اور گزشتہ دس سالوں میں 170 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کا بنیادی مقصد جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا اور پاکستان کے خلاف اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنانا ہے۔حالیہ جنگ میں بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف جدید جنگی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ‘ خاص طور پر اسرائیلی ساختہ ہیروپ‘ ہارپی اور سوارم ڈرونز‘ جو خودکار یا انسانی کنٹرول والے خودکش ہتھیاروں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں‘ اور فرانسیسی ساختہ رافیل فائٹر جیٹس۔ لیکن پاکستان نے مذموم بھارتی عزائم کے ساتھ ساتھ اس جدید جنگی ٹیکنالوجی کو بھی شکست دی۔جنگ کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان کی سرحد کے قریب فوجی مشقیں بھی کی گئیں۔ ان مشقوں میں بھارتی فضائیہ کے رافیل‘ میراج 2000 اور سخوئی 30طیاروں نے بھی حصہ لیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی وزارتِ دفاع اب دس ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے I-STAR نگرانی اور سٹرائیک سسٹم کی منظوری دینے جا رہی ہے جس کا مقصد فضائی قوت میں اضافہ کرنا ہے۔
بھارت کے برعکس پاکستان کا دفاعی بجٹ خاصا کم ہے ‘مگر ان محدود وسائل کے باوجود ہماری مسلح افواج نہ صرف اپنی جنگی ٹیکنالوجی میں اضافہ کر رہی ہیں بلکہ دہشت گردی جیسے ناسور سے بھی نمٹ رہی ہیں۔ اور اسی بجٹ سے اپنے افسران و اہلکاروں کی تنخواہوں‘ پنشن اور شہدا فنڈز کا انتظام بھی کرتی ہیں۔موجودہ علاقائی صورتِ حال اور بھارتی جنگی جنون کے تناظر میں ملکی دفاعی بجٹ میں اضافہ ایک ایسی ضرورت بن چکا ہے جسے کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جدید دور کی جنگیں صرف میدان میں نہیں لڑی جاتیں بلکہ یہ سائبر حملوں‘ مصنوعی ذہانت اور معلوماتی جنگ (Information warfare) کی صورت میں بھی لڑی جا رہی ہیں۔ اگرچہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ ہماری افواج نے ان ذرائع کا بھرپور استعمال کیا مگر وقت کے ساتھ ان میں مزید جدت بہت ضروری ہے۔بھارت کی جانب سے مسلسل خطرات کے پیش نظر اور اپنی دفاعی ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو چین اور دیگر دوست ممالک کی جانب سے نئے دفاعی معاہدوں کی پیشکشیں موصول ہوئی ہیں جن میں ففتھ جنریشن J-35 سٹیلتھ جنگی طیارے‘ Shaanxi KJ-500 جیسا حملے کی پیشگی وارننگ اور کنٹرول کا جدید نظام اور HQ-19 لانگ رینج بیلسٹک دفاعی نظام شامل ہے۔یقینا دفاعی خودمختاری کے حصول کے لیے ان معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے اور جدید ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے ایک خطیر رقم درکار ہے۔ اگرچہ آئندہ مالی سال کے دفاعی بجٹ میں گزشتہ سال کی نسبت کچھ اضافہ کیا گیا ہے ‘ لیکن یہ بھارت کے مقابلے میں اب بھی کم ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے ملکی سلامتی اور دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے اس میں مزید اضافہ ناگزیر ہے۔
دوسری طرف آئندہ مالی سال کیلئے وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم ایک ہزار ارب روپے سے زائد مقرر کیا گیا ہے جبکہ صوبوں کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کیلئے 2869 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 682 ارب روپے سے زائد فنڈز اور حکومتی ملکیتی اداروں کیلئے 35 کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم مختص کی گئی ہے۔ این ایچ اے کو آئندہ مالی سال 226 ارب 98 کروڑ روپے سے زائد‘ پاور ڈویژن کو 90 ارب 22 کروڑ روپے اور آبی وسائل ڈویژن کو 133 ارب 42 کروڑ روپے دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ ارکانِ پارلیمنٹ کی ترقیاتی اسکیموں کیلئے 70 ارب 38 کروڑ روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبوں اور سپیشل ایریاز کیلئے 253 ارب 23 کروڑ روپے‘ انضمام شدہ اضلاع کیلئے 65 ارب 44 کروڑ روپے سے زائد اور صوبائی نوعیت کے منصوبوں پر 105 ارب 78 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کیے جائیں گے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کیلئے 82 ارب روپے‘ ڈیفنس ڈویژن کیلئے 11 ارب 55 کروڑ روپے جبکہ فیڈرل ایجوکیشن اور پروفیشنل ٹریننگ کیلئے 18 ارب 58 کروڑ روپے سے زیادہ مختص کیے گئے ہیں۔
وزیراعظم کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کے بوجھ کو کم سے کم رکھا جائے۔ اسی لیے نئے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کیلئے آمدنی کے تمام سلیبز میں انکم ٹیکس کی شرح میں نمایاں کمی کی تجویز دی گئی ہے۔ پنجاب سمیت صوبوں کے بجٹ میں بھی کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے۔ یہ ریلیف نہ صرف ٹیکس کے ڈھانچے کو آسان بنائے گا بلکہ متوسط آمدنی والے طبقے پر عائد ٹیکس کے بوجھ کو کم کر کے مہنگائی اور حقیقی تنخواہ (Home Take Income)کے درمیان توازن قائم کرے گا۔یہ اقدامات ٹیکسوں کے نظام کو منصفانہ بنانے اور ٹیکس ادا کرنے والے تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کو کم کرنے کے حکومتی عزم کا عکاس ہیں۔ اسی طرح حکومت اس بات سے بھی باخبر ہے کہ ملک کی بہترین پیشہ ور افرادی قوت کو اس خطے میں سب سے زیادہ ٹیکسوں کا سامنا ہے جس کے باعث باصلاحیت افراد ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اس لیے ملک سے برین ڈرین کو روکنے کے لیے ایک کروڑ روپے سے زیادہ آمدنی والے افراد پر عائد سرچارج میں ایک فیصد کمی کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
اُدھر گزشتہ ماہ سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ میں جو 600 فیصد اضافہ کیا گیا تھا‘ اس پر عوام کی طرف سے ردِعمل آنا فطری امر تھا۔ اگرچہ وزیراعظم نے اس اضافے کا نوٹس لیا تھا تاہم پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں اس حوالے سے وزیر خزانہ نے وزرا‘ ارکانِ پارلیمنٹ‘ چیئرمین اور سپیکر کی تنخواہوں میں اضافے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی تنخواہوں میں 2016ء سے اضافہ نہیں ہوا تھا‘ اس لیے اب اتنا زیادہ اضافہ کرنا پڑا۔ لیکن کیا یہ دلیل عوامی مشکلات کے تناظر میں قابلِ قبول ہے؟