"KDC" (space) message & send to 7575

سانحہ نو مئی کے ماسٹر مائنڈ کی تلاش

دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود حکومت ابھی تک نو مئی کے ماسٹر مائنڈ کی تلاش میں ہے۔ نو مئی 2023ء کا دن ملکی تاریخ کا ایک ایسا المناک باب ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اُس روز مشتعل عناصر نے جو کچھ کیا‘ وہ ایک ایسا گھناؤنا عمل تھا جس کی امید کسی دشمن ملک سے بھی نہیں کی جا سکتی۔ نو مئی 2023ء کو ریاستی اداروں‘ قومی املاک‘ عسکری تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کرکے نہ صرف آئین و قانون کو چیلنج کیا گیا بلکہ ملکی سالمیت پر بھی کھلا حملہ کیا گیا۔ اس سانحے کے بعد سب سے بڑا سوال یہی تھا کہ کیا ملک کا نظامِ انصاف اتنا طاقتور اور مؤثر ہے کہ ان مجرموں کو انصاف کے کٹہرے تک لا سکے؟ آج‘ مختلف انسدادِ دہشت گردی عدالتوں کے شواہد کی روشنی میں دیے گئے فیصلے اس سوال کا واضح اور دوٹوک جواب ہیں کہ ملک کا عدالتی نظام قانون شکنوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
اگلے روز تمام شواہد اور مستند ثبوتوں کی روشنی میں فیصل آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے نو مئی کے دو اہم مقدمات میں فیصلہ سناتے ہوئے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب‘ شبلی فراز‘ زرتاج گل اور صاحبزادہ حامد رضا سمیت 108 ملزمان کو سزائیں سنائیں‘ جبکہ خیال کاسترو‘ فواد چودھری اور زین قریشی سمیت متعدد افراد کو بری کر دیا گیا۔ اس سے قبل بھی 22 جولائی کو سرگودھا‘ لاہور‘ فیصل آباد سمیت دیگر شہروں کی انسدادِ دہشت گردی عدالتوں نے نو مئی کے واقعات میں ملوث درجنوں سیاسی رہنماؤں اور کارکنان کو 10‘ 10 سال قید کی سزائیں سنائیں۔ افواجِ پاکستان کی اعلیٰ قیادت کا نو مئی کے سانحے کے حوالے سے مؤقف ابتدا ہی سے واضح‘ دوٹوک اور غیر متزلزل رہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر بارہا یہ واضح کر چکے ہیں کہ نو مئی صرف افواجِ پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری قوم کا مقدمہ ہے‘ اور اس کے ذمہ داران کو ہر صورت قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔ فوجی تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں پر حملہ کرنے والوں کے لیے کسی قسم کی معافی کی گنجائش نہیں ہے۔ملٹری کورٹس نے بھی سانحہ نو مئی کے ملزمان کو تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد‘ شواہد اور فوٹیج کی بنیاد پر سزائیں سنائیں۔ ملٹری کورٹس نے 21 دسمبر 2024ء کو اس واقعے میں ملوث 25 مجرمان کو سزا دی‘ جبکہ 26 دسمبر 2024ء کو مزید 60 مجرمان کو مستند شواہد کی روشنی میں سزا سنائی۔ تاہم دو جنوری 2025ء کو 19 مجرمان کی معافی کی درخواستیں منظور کر کے انہیں رہا کر دیا گیا۔ یہ فیصلے نہ صرف سانحہ نو مئی کے متاثرین کیلئے انصاف کی جھلک ہیں بلکہ لوگوں کو آئندہ کسی بھی ریاست دشمن سرگرمی سے باز رکھنے کیلئے ایک عملی مثال بھی ہیں۔
آئینی‘ قانونی اور سیاسی امور کے ماہرین کی جانب سے ان فیصلوں کو ایک بہت بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے‘ جو تحریک انصاف کیلئے شدید صدمے کا باعث ہو سکتا ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف کا سفر اب تحریک استقلال کی راہ پر گامزن ہے‘ جب ایئر مارشل (ر) اصغر خان اپنی اَنا پرستی‘ ہٹ دھرمی اور غلط فیصلوں کے باعث سیاسی طور پر غیر فعال ہو گئے تھے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کا انجام ''ایم کیو ایم‘‘ کے انجام سے بھی مشابہت رکھتا ہے‘ جو دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور آج اس کے بانی کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ دوسری جانب یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ مستقبل قریب میں شاہ محمود قریشی کی قیادت میں تحریک انصاف بہتر مستقبل کی طرف جست بھرے گی‘ اور ان کے گروپ میں مفاہمت پسند عناصر کو آگے لایا جائے گا۔ کسی مناسب وقت پر شیخ رشید احمد‘ فواد چودھری‘ پرویز خٹک اور ان کے ہم خیال افراد شاہ محمود قریشی کے معاون بن جائیں گے جبکہ جارحانہ فکر کے حامل تحریک انصاف کے رہنماؤں کی آخری منزل ممکنہ طور پر دس سال قید ہی ہو گی۔ شاہ محمود قریشی نہ صرف جنوبی پنجاب کی اہم ترین شخصیت ہیں بلکہ پاکستان کے روحانی پیشواؤں اور گدی نشینوں کے بھی بہت قریب ہیں۔ وہ پارٹی کو ایک نئے فلسفے اور نظریے کے ساتھ آگے لے جانے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ عمران خان شاہ محمود قریشی کو پارٹی کا جانشین مقرر کرکے پارٹی کو تقسیم ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ قریشی صاحب تحریک انصاف اور مقتدرہ کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ملک میں امن امان کی صورتحال کی بات کریں تو دو صوبے‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان بدترین دہشت گردی‘ انتشار اور خلفشار کا شکار ہیں‘ جہاں سول انتظامیہ مکمل طور پر مفلوج دکھائی دیتی ہے۔ بیرونی دشمن قوتیں ان صوبوں میں پراکسی وار میں سرگرم ہیں۔ اس کے باوجود حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہیں۔ اس وقت ملک کو دہشت گردی کی جس خوفناک لہر کا سامنا ہے‘ ضروری ہے ہر صورت ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ حکومت اور اپوزیشن میں مفاہمت کی فضا قائم ہو سکے۔ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی ملک میں گرینڈ مذاکرات کی تجویز دی تھی۔ اگلے روز وفاقی وزیر قانون نے بھی تحریک انصاف کو بند کمرے میں بیٹھ کر معاملات آگے بڑھانے کی تجویز دی ہے۔ موجودہ ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پیشکش پر غور کرنا چاہیے۔ عمران خان کی مزاحمت پر مبنی حکمتِ عملی ان کی اپنی ذات‘ ان کی جماعت اور جماعت کے رہنماؤں کے لیے کسی صورت فائدہ مند نہیں ہے۔ ان کا سیاسی مذاکرات سے انکار پارٹی کو اندرونی بحران کی طرف دھکیل رہا ہے۔
دوسری جانب بین الاقوامی تناظر میں محسوس کیا جا رہا ہے کہ فیڈریشن کی باگ ڈور کسی ایسی شخصیت کو دی جائے جو بین الاقوامی سطح پر بھی قابلِ قبول ہو اور ملک کے اندر بھی اس کی قیادت کو تسلیم کیا جائے۔ شنید ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا ایک طاقتور تھنک ٹینک میاں نواز شریف کی شخصیت کو ایک نئے انداز میں عوام میں متعارف کرانے کے لیے اپنے صحافی دوستوں کی خدمات حاصل کر رہا ہے‘ جو 1985ء سے ان کے مداح رہے ہیں۔ حالانکہ اس تھنک ٹینک کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ آج ملک کو جو سیاسی‘ معاشی اور سفارتی استحکام حاصل ہے‘ اس کی پشت پر فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا وژن ہے۔ لہٰذا ان کی خدمات کو نظر انداز کر کے ایک نیا سیاسی بیانیہ ترتیب دینا دانشمندی نہیں ہو گی۔ ایران کے صدر کی لاہور آمد کے موقع پر ان کی میاں نواز شریف سے خصوصی ملاقات پر سفارتی حلقوں میں یہ سوالات اٹھے ہیں کہ میاں نواز شریف کی حیثیت اس وقت محض مسلم لیگ (ن) کے صدر کی ہے۔ اگر ان کی ملاقات کا اہتمام ممکن تھا تو پھر پیپلز پارٹی کے چیئرمین سمیت دیگر اہم سیاسی جماعتوں کے قائدین سے بھی ملاقاتیں شیڈول کی جا سکتی تھیں۔
کچھ حلقوں میں یہ چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ چونکہ اب تحریک انصاف کا سیاسی کردار تقریباً اختتام پذیر ہو چکا ہے‘ اس لیے اب کچھ حلقوں کی طرف سے اہم شخصیات کی بین الاقوامی پذیرائی کو محدود کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں‘ جیسا کہ سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے ساتھ ہوا‘ جب وہ بینظیر حکومت کے خاتمے کے بعد ملکی سیاست میں ابھرے تھے‘ لیکن جیسے ہی وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے‘ میڈیا نے انہیں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا اور ان کی غیر سرکاری تنظیم بھی جلد ہی غیرفعال ہو گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں پاک امریکہ تعلقات ایک نئی سمت اختیار کر چکے ہیں۔ ان کی سوچ‘ تدبر اور خاموش سفارتکاری نے ملک کو عالمی سطح پر ایک باوقار اور مؤثر ریاست کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ برطانوی جریدے میں شائع مضمون اس بات کا ثبوت ہے کہ عسکری قیادت اب صرف دفاع تک محدود نہیں بلکہ سفارتی میدان میں بھی ملک کی عزت و وقار کی علمبردار بن چکی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں