وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کے اس بیان پرکہ انہوں نے ماڈل ٹائون میں گولی چلانے کا حکم نہیں دیا‘ ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔ کسی بھی ملک‘ صوبے ‘ حتیٰ کہ ضلع کا انتظامی سربراہ‘ تشدد کا حکم دے کر اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی نہیں مار سکتا۔ جس طرح ماڈل ٹائون آپریشن زیرعمل لایا گیا‘ اس کا پس منظر قابل غور ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری‘ پاکستان کے واحد عالم دین ہیں‘ جنہوں نے جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ دہشت گردوں کے خلاف انتہائی مدلل اور متاثر کن کتاب لکھی اور تقاریر کیں۔ اس وقت تک اسلامی دنیا کا کوئی بھی سکالر ‘ دہشت گردوں کے خلاف آواز اٹھانے پر تیار نہیں تھا۔ دہشت گردی کا پورا سلسلہ ہی‘ مذہبی اصطلاحوں اور دلیلوں کی بنیاد پر تیار کیا گیا۔ وہ اپنے ہر اقدام کا جواز اسلامی حوالوں سے نکالتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ملکوں میں ریاستی جبر اور ناانصافیوں کے ستائے ہوئے مسلمانوں کو ‘ ان کی دہشت گردی میں اپنے جذبات کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔اسامہ بن لادن کو دنیا کچھ کہتی رہے لیکن وہ اپنی پرتشدد پالیسیوں کی وجہ سے‘ مسلمانوں کے مقبول ہیرو بن گئے تھے۔ آج بھی ان کے پرستاروں کی کمی نہیں۔ سوویت یونین کے خلاف جہاد پر نکلنے والا یہ نمازی اور پرہیزگار انسان‘ دنیا بھر میں دہشت گردی کی علامت بننے پر کیسے مجبور ہوا؟ اس کی وجہ سعودی عرب کے حالات میں ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ بیشتر مسلمان ممالک کے عوام ‘ اپنے حکمرانوں کی ظلم و جبر پر مبنی پالیسیوں کا ذمہ دار امریکہ کو سمجھتے ہیں‘ جو ان کے ملک کے ظالم حکمرانوں کو مظلوموں کی جدوجہد کچلنے کے وسائل مہیا کرتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال آج کا مصر ہے۔ اس ملک کے عوام‘ تاریخ عالم کی طویل ترین آمریت سے نکل کر ‘ جمہوری معاشرہ تعمیر کرنے کی راہ پر گامزن تھے۔ بے شک ان کی قیادت جمہوری معیاروں پر پورا اترنے میں ناکام رہی‘ لیکن یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ وہ کس نظام سے نجات حاصل کر کے‘ ایک نئے نظام کا تجربہ کر رہے تھے۔ انہیں اس کا موقع ہی نہیں دیا گیا اور امریکہ نے کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر ان پر دوبارہ فوج کی حکمرانی مسلط کر دی۔ عوام اب مسلح جدوجہد کی طرف نہیں جائیں گے‘ تو کیا کریں گے؟
ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ پاکستانی عوام کو کبھی اپنے معاملات خود چلانے کا اختیار نہیں ملا۔ انسانی فطرت کے مطابق‘ پاکستانی عوام نے بھی اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کے لئے امن کا راستہ اختیار کیا‘ لیکن حکمرانوں نے طویل عرصے تک منصفانہ انتخابات ہی نہیں ہونے دیئے۔ 1970ء تک پاکستان میں کوئی بھی شفاف اور غیر متنازع الیکشن نہ ہو سکا اور جب مشرقی پاکستان کے عوام نے‘ اپنی منظم سیاسی طاقت کے بل بوتے پر‘ حکمران طبقوں سے‘ دھاندلی کرنے کی طاقت چھین کر مرضی کے نمائندے منتخب کر لئے‘ تو انہیں اقتدار منتقل کرنے سے انکار کر دیا گیا اور پھر ظلم و تشدد کا وہ بازار گرم کیا کہ بھارت کو دیرینہ حسابات چکانے کا موقع ہاتھ آ گیا۔ اس نے ہمارے ملک پر فوج کشی کر دی۔ یہ ایک ایسی جارحیت تھی‘ جس کی پوری عالمی برادری نے حمایت کی۔ ہم جو اپنے وطن کا دفاع کر رہے تھے‘ کسی طرف سے بھی حمایت یا ہمدردی سے محروم رہے۔قوموں کی تاریخ میں جب بھی پرامن جدوجہد کو کچلا گیا‘ ردعمل میں انتہاپسندی پیدا ہونے لگی۔ مشرقی پاکستان میں‘ جب زبان کے سوال پر مظاہرہ ہو رہا تھا‘ تو پولیس نے پرامن طالب علموں پر گولیاں چلا دیں۔ مشرقی پاکستان میں تشدد کا بیج بو دیا گیا۔ موجودہ پاکستان میں ہرچند مختلف بغاوتیں اور فسادات ہوتے رہے‘ مگر ان کا کوئی نہ کوئی قابل فہم جواز بھی نکالا جاتا رہا۔ بلوچستان میںمسلح بغاوتوں کو‘ وسیع تر عوامی ہمدردیاں کبھی حاصل نہیں ہوئیں۔ وہاں کے قبائلی سرداروں نے اپنے عوام کو حقوق دیئے بغیر‘ بزعم خود آزادی کی جدوجہد کی‘ جس کے اندر اپنے تضادات موجود تھے اور گزشتہ چند برسوں سے‘ محنت کی روٹی کمانے والے نہتے شہریوں کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ بلوچستان کے امن پسند عوام اسے قبول نہ کر سکے۔ یہ صورت حال آج بھی جاری ہے۔ خیبرپختونخوا کے عوام پر غیرملکی جنگ مسلط کی گئی۔ امریکہ کی سرپرستی میں جو دہشت گرد قوتیں منظم کی گئیں‘ وہ پختون عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔اس صوبے کے عوام نے دہشت گردوں کا کبھی ساتھ نہیں دیا۔ وہ تو خود ان کے مظالم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ کراچی کی صورت حال مختلف ہے۔ وہاں ہونے والی خونریزی کا تعلق عوامی جدوجہد سے نہیں۔ سیاسی طاقتوں نے ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے‘ بدامنی پیدا کی۔ لسانی‘ فرقہ ورانہ یا مجرمانہ بنیادوں پر اسلحہ کا استعمال بڑھتا گیا۔ و ہاں کے مظلوم عوام مختلف مافیائوں کے جبر کا نشانہ ہیں۔ عوامی حقوق کے لئے وہاں کوئی جدوجہد نہیں ہو رہی۔ یہی وجہ ہے کہ اتنا خون بہانے کے بعد بھی عوامی حقوق کی بحالی کی کوئی منظم تحریک سامنے نہیں آئی۔ ہر کوئی ایک دوسرے کی مخالفت میں لڑ رہا ہے۔
پنجاب میں عوامی حقوق کے لئے‘ پرامن سیاسی جدوجہد ضرور ہوئی۔ 1970ء میں یہ جدوجہد اس وقت نقطہ عروج پر پہنچ گئی‘ جب عوام نے روایتی حکمرانوں کو ٹھکرا کر‘ نچلے اور متوسط طبقے کے امیدواروں کو ووٹ دیئے اور وہ پارٹی اقتدار میں آ گئی جس نے عوامی حقوق کی بحالی کا نعرہ لگایا تھا۔ اقتدار حاصل کر کے‘ پیپلزپارٹی کی قیادت بھی اپنے منشور سے منحرف ہونے لگی اور جن طبقوں کو عوام نے ووٹوں سے شکست دی تھی‘ وہ دوبارہ اپنی طاقت بحال کرنے لگے۔ 70ء کے بعد سے آج تک عوام کو منصفانہ انتخابات نصیب نہیں ہو سکے۔ دنیا میں جگہ جگہ استحصالی نظام کے ستائے ہوئے لوگ‘ اپنی اپنی جدوجہد کر رہے ہیں اور جہاں جہاں جدوجہد کو کچلا جا رہا ہے‘ مقامی بغاوتیں پھوٹ رہی ہیں۔ ہمارے خطے میں تبدیلی کی تحریکیں مختلف طریقوں سے ابھرتی اور جابجا وہ دہشت گردی کی طرف جا رہی ہیں۔ ساری عرب دنیا میں دہشت گردی پھیل رہی ہے۔ اردگرد کے غیرعرب‘ مسلمان ملکوں میںبھی یہی کیفیت ہے۔ خطے کے تمام مسلم ملکوں میں‘ ایران کے سوا کہیں ریاست کی موثر عملداری باقی نہیں رہی۔ افغانستان میں تو صدیوں سے مرکزی اتھارٹی قائم نہ ہو سکی۔ نئی پرتشدد تحریکوں نے ریاستی ڈھانچے توڑپھوڑ کے رکھ دیئے ہیں۔ عراق میں نہ فوج باقی رہ گئی ہے اور نہ ریاستی انتظامیہ۔ یہی صورتحال شام اور لبیا میں ہے۔ خلیج کی ریاستوں کا دفاعی انحصار غیروں پر ہے۔ پورے خطے میںاگر کوئی ریاست اپنی عملداری قائم کرنے کی طاقت رکھتی ہے‘ تو وہ صرف پاکستان ہے۔ ہر طرح کے بحرانوں کے باوجود ہماری فوج ایک منظم ادارے کی حیثیت میں برقرار ہے۔ بیوروکریسی‘ کرپشن کی انتہائوں کو چھونے کے باوجود‘ اپنی روایات کے سہارے بڑی حد تک فنکشنل ہے۔ لیکن پورے ملک میں یہ صورت حال نہیں۔ فاٹا میں حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لئے باقاعدہ جنگ ہو رہی ہے۔ کراچی میں پولیس اور فوج دونوں ‘ حکومتی رٹ قائم کرنے کے لئے لڑ رہے ہیں۔ بلوچستان میں باغیانہ تخریب کاری کی جڑیں گہری ہو چکی ہیں۔ وہاں کے عوام کا انحصار قبائلی نظام کے خاتمے پر ہے‘ جو خود وہیں کے حالات کے زیراثر بدلے گا۔ پنجاب میں فرقہ ورانہ بدامنی ضرور موجود ہے‘ لیکن سیاسی طور پر ملک کے سب سے بڑے صوبے میں‘ بحالی امن کے امکانات سب سے زیادہ ہیں۔ بدقسمتی سے حالیہ انتخابی نتائج سے پیدا ہونے والے جھگڑے ختم نہیں کئے جا سکے‘ جس کی ذمہ داری تمام سیاسی عناصر اور خصوصاً حکومت پرآتی ہے۔ حالیہ انتخابات کے بعد قائم ہونے والی صوبائی اور وفاقی حکومتیں‘ روزاول ہی سے اپنے لئے کسی سمت کا تعین نہیں کر پائیں۔ سب نے عجیب و غریب اور خیالی منصوبے بنائے اور ایک سال گزرنے کے باوجود‘ ایک بھی ایسی تبدیلی نہیں لائی جا سکی‘ جو عوام کے مفاد میں ہو۔ عام آدمی سب سے پہلے اپنے حالات کو دیکھتا ہے۔ روٹی‘ رہائش‘ بجلی‘ تعلیم‘ علاج‘ امن و امان‘ یہ ہیں وہ بنیادی ضرورتیں جو عوام کی زندگی پر ہر لمحے اثرانداز ہوتی ہیں۔ حکومت ایک سال میں یہ مسائل حل کرنے کی ابتدا بھی نہیں کر پائی۔ سیاسی عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے۔ مایوسی اور بیزاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے ماحول میں شعلے بھڑکانے کے لئے صرف ایک
چنگاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماڈل ٹائون میں پرامن‘ نہتے اور بیگناہ شہریوں‘ عورتوں‘ بچوں اور بزرگوں پر جس بے رحمی کے ساتھ گولیاں برسائی گئیں‘ وہ کھلی اشتعال انگیزی ہے۔ بے رحمی کی انتہا پر عوام کے جذبات بھڑکے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری ان بھڑکے ہوئے جذبات کی فضا میں‘ احتجاجی تحریک کا اعلان کرنے والے ہیں۔ وہ معمول کے حالات میں پاکستان آتے تو ان کی تحریک پُرامن ہوتی۔ یہ واحد مذہبی جماعت ہے جس کا کوئی مسلح دستہ نہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا ماضی گواہ ہے کہ انہوں نے تشدد کی ہمیشہ مخالفت کی‘ لیکن ان کے حامیوں پر بلاجواز اور بے رحمی کے ساتھ فائرنگ کر کے حکومت نے خود تشدد کا بیج بو دیا ہے۔ اب اسے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس کے نتیجے میں جوابی تشدد بھڑک اٹھے۔ یہ خود حکومت اور صوبے کے مفاد میں ہے کہ ڈاکٹرطاہرالقادری کے راستے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ کی جائے۔ امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ داری ان پر چھوڑ دی جائے۔ سیاسی جدوجہد میں ان کا ساتھ دینے والی سیاسی قیادتوں سے مکالمہ شروع کر دیا جائے اور انہیں قائل کیا جائے کہ وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کواپنے پرستاروں کے جذبات سرد کرنے پر آمادہ کریں۔ ماڈل ٹائون کے واقعات کے ذمہ داروں کو نشان عبرت بنا دیں۔انتظامیہ میں شامل کسی بھی شرپسند نے معمولی سا ماڈل ٹائون بھی دہرا دیا تو صوبے کا رہا سہا امن و امان بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ یہ وقت حکمت‘ سیاست‘ دانش مندی‘ تحمل اور بردباری دکھانے کا ہے۔ معمولی سختی بھی ایک امن پسند تنظیم کو تشدد کی طرف دھکیل سکتی ہے۔