امریکی صدر‘ اوباما کا دورۂ بھارت سنسنی خیز میڈیا ایونٹ کے طور سے ایک بہت بڑا دھوم دھڑکا تھا لیکن مقاصد کے اعتبار سے دیکھا جائے تو‘ یہ دو چالاک اتحادیوں کی باہمی سودے بازی کا کھیل تھا‘ جس میں دونوں اپنے اپنے دائو پر تھے۔ امریکی مقاصددو نکات پر مبنی تھے۔ ایک‘ بھارت سے تجارتی اور دفاعی سازو سامان کے بڑے بڑے آرڈرز لینا ‘ جوکساد بازاری کے آنے والے خطرات سے بچانے میں مدد گار ثابت ہوں۔ دوسرا چین کے خلاف‘ مشرقی ایشیائی ملکوں کے اس حصار کو مضبوط کرنا‘ جو امریکہ چین کے گرد مکمل کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں جاپان‘ آسٹریلیا‘ جنوبی کوریا اور خطے کے دیگر امریکی اتحادیوں میں‘ بھارت کو شامل کر کے مزید مضبوط کرنا۔ جبکہ بھارت اپنے دائو پر تھا۔ وہ چین کے خلاف کسی ایسے اتحاد میں شامل ہونے سے گریزاں ہے جو امریکہ کی قیادت میں‘ چین کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتا ہو۔ یہ دو گھاگ کھلاڑیوں کے درمیان دائو و گھات کا ایک دلچسپ مقابلہ تھا۔ جس میں نہ کوئی ناکام رہا اور نہ کامیاب ہوا۔پہلے امریکہ کو دیکھتے ہیں۔ امریکہ نے بھارت سے بڑے بڑے آرڈرز حاصل کرنے کی جو امید باندھی تھی‘ ان میں سے کوئی بھی حقیقت میں نہیں بدل سکی۔صرف لاک ہیڈ کےC130طیارے‘ جو پہلے سے بھارت کے زیر استعمال ہیں‘ یہی مزید سات طیارے 2017ء تک ‘بھارت کے سپرد کئے جائیں گے اور ڈرونز کے جدید ماڈلز کی خریداری پر بات چیت جاری رہے گی۔ مودی نے ''میک ان انڈیا‘‘ کی جو مہم دورہ امریکہ کے دوران چلائی تھی اور جس کے تحت وہ بڑی بڑی‘ امریکی کمپنیوں سے بھارت میں سرمایہ کاری کی امید رکھتے تھے ‘وہ پوری نہ ہوئی۔ پر امن ایٹمی توانائی کے حصول پر لگائی گئی پابندیاں تو من موہن سنگھ کے دور میں ہی اٹھا لی گئی تھیں اوران کی حکومت نے پارلیمنٹ میں‘ بی جے پی کی شدید مخالفت کے باوجود‘ اس معاہدے کی منظوری لے لی‘ اس کا بھی خاطر خواہ فالو اپ نہیں ہو سکا کیونکہ پر امن ایٹمی توانائی کے پلانٹ لگانے کے لئے‘ کمپنیوں کے نمائندوں نے جب مذاکرات کئے تو بھارتی قوانین آڑے آگئے۔انہی دنوں ‘جاپان میں ایٹمی توانائی کے پلانٹ سے جوہری توانائی خارج ہونے لگی ‘ جس سے ملک میں وسیع تباہی پھیلی۔ اس میں بے شمار انسانی جانیں اور املاک ضائع ہوئیں۔ ظاہر ہے اس تباہ کن حادثے کا عالمی رائے عامہ پر گہرا اثر ہوا تھا‘ ایسے ماحول میں بھارت کے اندر نئے ایٹمی پلانٹس کی تعمیر پر بات کرنا بھی دشوار تھا۔بھارت کا سو ل لبرٹی فار نیو کلیئر ڈیمج ایکٹ2010ء ‘ معاہدے پر عملدرآمد کی راہ میں حائل ہے۔
بھارتی عوام اور میڈیا کو ابھی تک1984ء کا وہ عظیم سانحہ نہیں بھولا‘ جو بھوپال میں دسمبر دواورتین کی درمیانی رات کو رونما ہواتھا۔ یہ یونین کاربائیڈ لمٹیڈ کے کیمیکل پلانٹ میں ہوا تھا‘ جہاں سے خارج ہونے والی زہریلی گیس نے ‘اردگرد کے درجنوں دیہات کی آبادی کو متاثر کیا۔ قریباً پانچ لاکھ افراد۔ معاہدے کے تحت کمپنی حادثاتی نقصان پر معاوضہ ادا کرنے کی پابند تھی۔ اتنی بڑی تباہی کے نتیجے میں ہلاک شدگان سے لے کر متاثرین تک‘ معاوضے دینے کا جو معاہدہ طے ہوا‘ اس کے مطابق کمپنی کو907ملین ڈالر کا معاوضہ دینے پر رضا مند ہونا پڑا لیکن کمپنی اتنے بڑے نقصان کی متحمل نہ ہو سکی‘ اس کا کاروبار تباہ ہو گیا اور تمام متاثرین کو پورا معاوضہ بھی ادا نہ کیا جا سکا۔ اسی سے ملتا جلتا ایک حادثہ ممبئی میں ہوا‘ وہاں بھی توانائی کے ایک زیر تعمیر پلانٹ سے ماحولیاتی آلودگی کے خطرات پیدا ہوئے اور بیرونی کمپنی کو کاروبار بند کر کے‘ واپس جانا پڑا۔ یہ مثالیں آج بھی بھارت‘ امریکہ پر امن ایٹمی توانائی کی فراہمی کے معاہدے کی راہ میں حائل ہیں۔
ایک اور اعتبار سے صدر اوباما کا یہ دورہ‘ امریکہ کے لئے انتہائی اہم تھا‘ ورنہ صرف چار مہینے قبل امریکہ کے دورے پر آئے ہوئے‘ وزیراعظم کے ساتھ بات چیت کے لئے صدر اوباما کو بھارت آنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کی فوری ضرورت‘ غالباً اس لئے پیدا ہوئی کہ بھارتی حکومت ‘اپنے وزیراعظم کے دورۂ چین کے سلسلے میں‘ تیز رفتاری سے پیش رفت کر رہی تھی۔ بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج‘ جنوری میں ہی بیجنگ کا دورہ کرنے والی تھیں۔ ان کی واپسی پر نیشنل سکیورٹی کے ایڈوائزر کو بیجنگ کے دورے پر جانا تھا‘ جس میں انہیں اپنے وزیراعظم کے دورے کی‘ فائنل تفصیلات کو آخری شکل دینا تھی۔ چین کے صدرژی جن پنگ‘ مودی کی میزبانی کے لئے‘ گرم جوشی سے تیاریاں کر رہے ہیں۔ مودی کے دورہ چین سے پہلے‘ اوباما‘ بھارت آنے کی جلدی میں کیوں تھے؟ یہ سوال بھی کافی دلچسپ ہے۔ امریکیوں کو اندیشہ ہے کہ چین کے مقابلے میں‘ امریکہ دولت کے زور پر‘ بھارت کو اپنی طرف راغب نہیں کرسکے گا۔چین‘ بھارت میں سرمایہ کاری کے لئے‘ جو منصوبے تیار کر رہا ہے‘ امریکہ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مودی''میک ان انڈیا‘‘ کا جو منصوبہ لے کر امریکہ گئے تھے‘ اس پر انہیں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی تھی جبکہ چین‘ مودی کی ''میک ان انڈیا‘‘ کی پالیسی کو کامیاب بنانے کے لئے بھاری سرمایہ لگانے کو تیار ہے۔ صرف بھارتی ریلوے نیٹ ورک کی جدید کاری اور اس کے پھیلائو کے لئے‘ چین32ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور 20ارب ڈالر بھارت میں‘ صنعتی پارکس کی تعمیر پر صرف کیا جائے گا۔ سرمایہ کاری کے اتنے بھاری منصوبوں کے ساتھ ‘ بھارت چین تعلقات کی نوعیت ہی بدل جائے گی۔ مودی نے‘ جس انتخابی ایجنڈے پر انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے ‘ وہ بھارت کی شرح ترقی میں گراوٹ روک کے‘ اس میں اضافہ اور روزگار کے مزید مواقع کی گنجائش پیداکر سکتا ہے۔ امریکہ ان بڑے منصوبوں میں بھارت کی ضروریات اس طرح پوری نہیں کر سکتا‘ جیسے کہ چین۔اگر ایشیا کے ان ددنوں بڑے ملکوں میں تجارتی تعلقات کھربوں ڈالر کو محیط ہوں گے تو یقیناً ان کے عالمی اور علاقائی مفادات بدل جائیں گے اور امریکہ نے بھارت سے جو توقعات وابستہ کر رکھی ہیں‘ انہیں پورا کرنا مشکل ہو جائے گا۔پاکستان کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو مجھے وسیع پیمانے پر‘ بھارت اور چین کے مفادات کے اشتراک میں پاکستان کے لئے‘ بہتر مواقع نظر آتے ہیں۔ امریکہ‘ پاک بھارت تعلقات کو اپنی عالمی پالیسیوں پر عملدرآمد کے لئے ہی استعمال کر سکتا ہے ۔ خطے میں اس کی اپنی براہ راست کوئی سٹیک نہیں ہے جبکہ چین اس خطے میں براہ راست مفادات رکھتا ہے۔ چین اور بھارت کئی پہلوئوں سے دوسرے کئی شعبوں میں بھی‘ ایک دوسرے پر براہ راست اثر انداز ہو سکتے ہیں۔جو کہ امریکہ نہیں کر سکتا مثلاً مستقبل میں بھارت بھی ہماری طرح‘ پانی کے مسائل سے دوچار ہونے والا ہے۔ ایک طرف اس کا زیر زمین پانی تیزی سے کم ہو رہا ہے اور دوسری طرف‘ چین نے دریائے گنگا پر‘ جو بہت بڑا ڈیم تعمیر کر لیا ہے‘ وہ بھارت کے لئے خطرے کی گھنٹی کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر بھار ت اور چین میں محاذآرائی کی صورت حال پیدا ہوئی تو چین‘ بھارت کے ساتھ وہی کچھ کر سکتا ہے جو مشترکہ دریائوں کے منبعوں پر‘ بھارت ہمارے ساتھ کر رہا ہے۔گنگا میں پانی کی کمی‘ بھارت کو اسی طرح متاثر کرے گی جیسے کہ دریائے سندھ میں پانی کی کمی ‘ ہمیں کر سکتی ہے۔
تنازع کشمیر حل کئے بغیر‘ بھارت کبھی پائیدار امن حاصل نہیں کر سکتا۔ پاکستان اور بھارت‘ دونوں تنازع کشمیر پر ایسی پوزیشن لے کر بیٹھ گئے ہیں‘ جس سے دونوں نہیں ہٹ سکتے۔ بھارت ریاست جموں و کشمیر کا تنازعہ حل کرنے کے لئے‘ چین کو فریق بنانا ہی پڑے گا۔ یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ کشمیر کا وہ حصہ جسے اقصائے چین کہا جاتا ہے اس پر چین کا کنٹرول ہے۔ وہاں بھی چین اور بھارت ‘اسی طرح لائن آف کنٹرول کی پابندی کے معاہدے کر چکے ہیں‘ جیسے پاکستان اور بھارت کے مابین ہیں۔بھارت اور چین میں یہ معاہدے1993 ء اور1996ء میں ہوئے تھے۔ یاد رہے1962ء میں بھارت اور چین‘ اقصائے چین اور اروناچل پردیش پر ‘ایک بڑی جنگ بھی لڑچکے ہیں۔ وہاں بھی دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ‘ لائن آف کنٹرول پر بھارت اکثر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کرتا رہتا ہے جبکہ اروناچل پردیش میں دونوں کی فوجیں آمنے سامنے ضرورآتی ہیں لیکن ایک دوسرے کو گھورنے اور آنکھیں دکھانے کے سوا‘ کچھ نہیں کرتیں۔ تنازع کشمیر کا جب بھی فیصلہ ہوا‘ اس میں چین کو فریق بنانا پڑے گا۔ تاریخ اور جغرافیے نے بھارت‘ چین اور پاکستان کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ رکھا ہے۔یہ تینوں ملک چاہیں بھی تو ان میں سے دو‘ باہمی مسائل کو حل نہیں کر سکتے‘ جو تینوں کے درمیان موجود ہیں۔اس لئے پاکستان اور بھارت کی قیادتوں کو‘ مستقل امن کے لئے‘ چین کے ساتھ باہمی اعتماد کے تعلقات پیدا کرنا ہوں گے‘ ورنہ ہمارے اس خطے میں کوئی ایک ملک یا دو‘ علیحدہ سے امن کا خواب پورا نہیں کر سکتے۔جغرافیے نے تینوں ملکوں کی دُمیں‘ جموں و کشمیر کے مقام پر ایک دوسری کے ساتھ باندھ رکھی ہیں اور تینوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔