جب اچانک ہمارے وزیر خزانہ نے خوشی سے لہکتے ہوئے‘ یہ خبر سنائی کہ وہ ایک دوست سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ لے کر آگئے ہیں تو مختلف قیاس آرائیاں ہوئیں کہ یہ دوست کون ہے؟ لیکن باخبر لوگ سمجھ گئے تھے کہ اتنا بڑا تحفہ وہی ملک دے سکتا ہے‘ جس کے پاس ڈالروں کا ذخیرہ موجود ہو۔ ہمارے دوست ملکوں میں‘ سعودی عرب ہی اتنی طاقت رکھتا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوا کہ سعودی عرب کو اچانک ایسی کون سی ضرورت آن پڑی کہ اس نے بغیر کسی ڈیل کے اچانک ڈیڑھ ارب ڈالر ‘ پاکستان کے حوالے کر دیے۔ مسلم لیگ(ن) کے قریبی حلقوں نے تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ رقم سعودی عرب کے حکمرانوں اور ہمارے وزیراعظم کے باہمی تعلقات کی بنیاد پر دی گئی ہے لیکن کوئی بھی ملک ذاتی دوستی میں اتنی بڑی رقم پیش نہیں کر سکتا۔ جلد ہی پتہ چلنا شروع ہو گیا کہ مسئلہ سعودی عرب کو پیش آنے والے خطرات کا ہے اور پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے‘ جو سعودی عرب کو قابل اعتماد اور آزمودہ عسکری طاقت مہیا کر سکتا ہے۔دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں‘ جس کی افرادی قوت پر‘ سعودی عرب بھروسہ کر سکے۔امریکیوں کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات بہت اچھے ہیں لیکن امریکہ ‘ بیرونی ملکوں کے بحرانوں میں‘ اپنے سپاہی جھونکنے کے لئے تیار نہیں۔ اب وہ‘ جس بحران میں بھی دلچسپی لے گا‘ وہیں کے مقامی حالات کے تحت‘ اپنے حواری کھڑے کر ے گا اور انہی کے ذریعے حالات کو اپنی ضروریات کے مطابق‘ ڈھالنے کے طریقے استعمال کرے گا۔ سعودی عرب کو اندیشہ ہے کہ اگر ایران اور امریکہ کے مابین ‘ایٹمی پروگرام پر کوئی سمجھوتہ ہو گیا تو خطے میں ایران اور امریکہ کے مفادات میں‘ کافی مماثلت پہلے سے موجود ہے ۔ مثال کے طور پر عراق میں داعش نے جو اسلامی خلافت قائم کر رکھی ہے‘ اسے ختم کرنے کے لئے امریکہ عملی طور پر جنگ میں شریک ہے اور وہاں ایران افرادی قوت مہیا کر رہا ہے۔ امریکہ کا اسلحہ اور ٹیکنالوجی اور ایران کی افرادی قوت مل کر‘ عراق اور شام کے علاقوں پرقائم شدہ داعش کی نام نہاد اسلامی خلافت کو شکست دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ اس طرح کی تحریکوں کا فوری طور سے خاتمہ نہیں ہوا کرتا۔اگر داعش کو اپنی حاصل کردہ سرزمین سے محروم ہونا پڑتا ہے تو اس کے جنگجو بہرحال موجود رہیں گے اور مشرق وسطیٰ کے بحرانی علاقے میں‘ وہ کہیں بھی اپنے ٹھکانے بنا سکتے ہیں اور وہاں سے اردگرد کے ملکوں میں کارروائیاں کر سکتے ہیں۔
داعش بظاہر تو امریکہ دشمنی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر‘ اپنے اہداف کا تعین کرتی ہے لیکن اس کے لٹریچر اور رہنمائوں کے بیانات کا تجزیہ کر کے دیکھا جائے ‘تو حتمی نتیجے میں سعودی عرب بھی اس کا ہدف ہے۔سعودی عرب سے قربت رکھنے والے ملکوں میں افغانستان‘ جہاں طالبان کی قوت ریاست کے اقتدار میں حصے دار بن سکتی ہے‘ ان کی قیادت کا القاعدہ سے تعلق رہا ہے اوراس تنظیم میں داعش کے اثرات بھی موجود ہیں اور افغانستان کے بعض لیڈرتو ابوبکر البغدادی کی بیعت بھی کر چکے ہیں۔یہی صورت حال الجزائر‘ مصر‘ لبیا‘ یمن اور پاکستان میں بھی ہے۔ان حالات میں پاکستان کی فوج ہی واحد طاقت ہے‘ جو ایسی انتہا پسند تنظیموں کا مقابلہ کر کے انہیں ختم کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔دوسرے کسی مسلمان ملک کے پاس نہ تو اتنی منظم ‘ اعلیٰ تربیت یافتہ اور مسلح فوج موجود ہے اور نہ ہی عقیدے کے اعتبار سے‘ سعودی عرب کے حکمران خاندان کے عقائد و نظریات سے اتنی قربت رکھتی ہے۔ جتنی بھاری اکثریت پاکستان میں سعودیوں کے تصورِ اسلام کے قریب ہے‘ وہ کسی اور مسلم ملک کی آبادی نہیں۔داعش کا خلیفہ‘ ابوبکر البغدادی اپنے وڈیو خطابات میں حکمران سعودی خاندان کے نظریات پر کھلی تنقید کرتا رہتا ہے۔ وہ‘ سعودی عرب کا حوالہ صرف حرمین شریفین کے نام سے دیتا ہے۔ اس طرح وہ‘ سعودی عرب کی حکومت اور خاندانِ سعود کا نام لئے بغیر‘ مکے اور مدینے کو ان سے علیحدہ کر کے دکھاتا ہے۔ وہ مختلف اسلامی ملکوں میں اپنے حامیوں کو بتاتا ہے کہ اس کی اسلامی فوج کسی نہ کسی دن مکہ مدینہ پر(خدانخواستہ) قبضہ کر کے صحیح اسلامی خلافت قائم کر ے گی۔سعودی عرب کی شمالی سرحدیں جوعراق کی جنوبی سرحدوں سے ملتی ہیں‘ اس کے اندر کچھ آبادیوں پر‘ داعش نے کنٹرول بھی قائم کررکھا ہے۔عراقی علاقوں میں موجود داعش کے دہشت گرد‘ سعودی عرب کی سرحدی چوکیوں پر حملے کر چکے ہیں۔ سعودی عرب کی بارڈر سکیورٹی فورسز کو کئی بار نشانہ بنایا گیا۔یہ خبر ایک سعودی پریس ایجنسی نے‘ بھی جاری کی تھی کہ سعودی عرب کے سکیورٹی آفیسرز کو ان دہشت گردوں نے تنگ کیا۔داعش کا پروپیگنڈا ونگ بہت مستعد اور سرگرم ہے۔اس کی طرف سے جو پروپیگنڈا مواد سامنے آرہا ہے‘ اس میں نام نہاد اسلامی ریاست کی سرحدیں پھیلانے کے ساتھ ساتھ‘ جو آخری منزل بتائی جاتی ہے ‘وہ حرمین شریفین (مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ) ہے۔گویا یہ تنظیم‘ واضح طور پر اپنی جنگ کی اصل منزل سعو دی عرب کو قرار دیتی ہے۔یمن میں باغیوں کے زور پکڑنے کے بعد‘ داعش کا اثر ورسوخ وہاں بھی آچکا ہے۔ اس ملک کی سرحدیں بھی سعودی عرب سے ملتی ہیں۔داعش اور ایران ایک دوسرے کے شدید دشمن ہیں۔یمن میں پراکسی وار ہوئی‘ تو اس کے اثرات یقینا سعودی عرب کی سرحدوں کے پار بھی جا سکتے ہیں۔داعش‘ سعودی عرب کے انتہا پسند نوجوانوں کو بھی بغاوت پر اکساتی رہتی ہے، خصوصاً سعودی عرب کے جنگجو‘ جو شام میں بشارالاسد کی حکومت سے برسرپیکار ہیں‘ انہیں بھی البغدادی کے کارندے متاثر کرنے میں مصروف ہیں اور خود سعودی عرب کے اندر بھی درپردہ یہ مہم چلائی جا رہی ہے کہ نوجوان اپنے ملک میں بغاوت کر کے اسلامی نظام کا نعرہ بلند کریں۔جس تیزی کے ساتھ یہ نام نہاد اسلامی ریاست‘ شام اور عراق میں ابھری ہے اور اسے ہر جگہ سے جنگجوئوں کی بھرتی دستیاب ہورہی ہے‘ یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ داعش کو امریکہ کی درپردہ مدد حاصل ہے۔داعش کے تمام مسلح حملوں کا ہدف‘ صرف اسلامی ملکوں میں نظرآتا ہے۔اسرائیل کے خلاف‘ نہ تو اس نے کوئی بات کی اور نہ ہی فلسطینیوں کی مدد کر کے‘ غاصب اسرائیلیوں پر ضرب لگانے میں ان کا ساتھ دیا۔یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ نام نہاد اسلامی ریاست کا سارا ڈھانچہ ہی امریکیوں نے کھڑا کیا ہے تاکہ ایران کو جھکنے پر مجبور کیا جائے۔داعش نے جس تیزی کے ساتھ‘ عراقی علاقوں پر قبضے کئے اور عراق کی شیعہ حکومت کو نقصانات پہنچائے‘ وہ ایران کے لئے انتہائی پریشان کن ہے اور بڑھتے ہوئے خطرے کو دیکھ کر‘ ایران کو جلدبازی میں اپنے رضا کار‘ عراقی حکومت کی مدد کے لئے میدان میں اتارنا پڑے۔کرد علاقوں میں تیل کے جن ذخیروں پر داعش نے قبضہ کر کے تجارت شروع کی ہے‘ اس پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے اور کہا جارہا ہے کہ داعش‘ سرمایہ دار منڈی میں تیل فروخت کر کے جو ڈالر کما رہی ہے‘ یہ بھی درپردہ امریکی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔اس پیچیدہ صورت حال میں سعودی حکومت کو امریکیوں کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں‘ خصوصاً اگر ایران اور امریکہ میں ایٹمی معاہدہ ہو جاتا ہے توسعودیوں کے خیال کے مطابق خطے میں امریکہ اور ایران کے مفادات ‘زیادہ ہم آہنگ ہو جائیں گے۔ایسی صورت میں سعودی عرب کے لئے شدید خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے حالات انتہائی پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ کسی کو اندازہ نہیں ہو رہا کہ آگے چل کر حالات‘ کیا رخ اختیار کرنے والے ہیں؟امریکہ‘ مشرق وسطیٰ کی ریاستوں میں عدم استحکام بلکہ بدامنی پیدا کرکے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ کیا وہ سعودی حکومت کا دوست ہے؟ یا اس کی دلچسپیاں کچھ اور ہیں؟ان حالات میں سعودی عرب‘ جلدازجلد ایک ایسی فوجی طاقت تیار کرنا چاہتا ہے‘ جو براہ راست اس کے اپنے کنٹرول میں ہو اور جو سعودی حکمرانوں کے نظریات و تصورات پر کامل اعتماد رکھتی ہو۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا اعتماد‘ صرف پاکستانی فوج پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب کے سکیورٹی سسٹم میں پاکستانی فوجی نئے نہیں ہوں گے۔ وہ پہلے بھی مختلف شعبوں میں وہاں خدمات انجام دے چکے ہیں اور کچھ آج بھی دے رہے ہیں۔سعودی عرب کو اچانک سرحدوں پر بڑے خطرات نظر آنے لگے ہیں‘ وہ سرحدوں کی دفاعی پوزیشن بہتر بنانے کا خواہش مند ہے۔سعودی عرب خود کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا۔ اس کی تمام جنگی تیاریاں اپنے دفاع کے لئے ہیں۔ سعودی سوچ کا اندازہ‘ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ عراق اور یمن کی سرحدوں پر ایک مضبوط دفاعی دیوار تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ عراق کی سرحد پر‘ چھ سو میل لمبی سکیورٹی وال تعمیر کی جائے گی اور یمن کی سرحد پر ایک ہزار میل لمبی۔سعودی سکیورٹی فورسز اندرون ملک‘ دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائیاں کر رہی ہیں چونکہ سعودی عرب نے بھی پاکستان کی طرح ہر قسم کے دہشت گردوں کے بارے میں یکساں پالیسی اختیار کر لی ہے‘ اس لئے دونوں حکومتیں اندرون ملک دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کے لئے‘ ایک دوسرے کی مدد کریں گی۔سعودی عرب میں کئی پاکستانی حکمرانوں کا استقبال اعلیٰ درجے کے پروٹوکول سے کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب سعودی بادشاہ نے خود پوری کابینہ سمیت ایئرپورٹ پر آکر‘ ہمارے وزیراعظم کا استقبال کیا۔اس روایت شکنی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ دورہ کتنی اہمیت کا حامل تھااور اس کے نتائج کتنے دوررس ہوں گے۔