یوم پاکستان کی تقریبات 7سال کے وقفے سے منعقد ہوئیں‘ لیکن عوام نے جس جوش و خروش اور وارفتگی سے ان کی پذیرائی کی اور جہاں جہاں ممکن ہو سکا‘ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا‘ وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام اس قومی دن پر‘ تقریبات سے محرومی کو بری طرح محسوس کر رہے تھے۔ کسی بھی قوم کی سالانہ پریڈ‘ اس کی عزت و وقار کا مسئلہ ہوتا ہے۔ جنگ اور کشیدگی کے دنوں میں ایسی تقریبات زیادہ اہتمام اور شان و شوکت سے منائی جاتی ہیں۔ سرد جنگ میں سوویت یونین‘ افواج کی پریڈ کو نفسیاتی جنگ کے حصے کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔یورپ کی قومیں بھی ایسے مواقع‘ دنیا کو مختلف پیغامات پہنچانے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ پاکستانی قوم نے 7برس تک اپنے قومی جشن کو معطل کر کے‘ عوام کو بہت بڑے امتحان سے گزارا۔ یہ ایک واضح بات تھی کہ جشن جمہوریہ کی تقریبات دہشت گردوں کے امکانی حملوں کے ڈر سے ملتوی کی گئیں۔ عوام بڑے حوصلے سے دہشت گردوں کے حملوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ بڑے سے بڑا سانحہ بھی ہوا‘ تو عوام نے چند روز کا صدمہ برداشت کر کے‘ دوبارہ معمول کی زندگی شروع کر دی اور دہشت گردوں نے مسلسل 8سال تک پاکستانی قوم کے حوصلوں کو آزما کر دیکھ لیا کہ ہمارے نہتے اور غیرمسلح عوام نے دہشت گردوں کے مسلسل حملوں کا سامنا کرتے ہوئے‘ اپنی معمول کی زندگی میں فرق نہیں آنے دیا۔ جب عوام ایسا کر رہے تھے‘ تو پھر پاک فوج کی سالانہ پریڈ کا التوا کس طرح قابل قبول ہو سکتا تھا۔ ہماری فوج نے بھی‘ عوام کی طرح دہشت گردوں کے حملوں کا سامنا کیا ہے۔ وہ مختلف مواقع پر چوری چھپے گھات لگا کر‘ پاک فوج کے چھوٹے چھوٹے دستوں یا افراد کو چوروں کی طرح نشانہ بنا کر فرار ہوتے رہے یا انہیں غیرمتوقع طور پر گھیر کے اغوا کرتے اور ظلم و تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ سب سے لرزہ خیز واقعہ کوہستان کے علاقے میں ہوا۔ یہاں سے ہمارے فوجیوں کو اغوا کر کے‘ افغانستان میں ملا فضل اللہ کے پاس لے جایا گیا‘ جہاں جنگوں کی تاریخ کا بدترین سانحہ پیش آیا۔ ہمارے سپاہیوں کی توہین کی گئی۔ انہیں گولیاں مار کے شہید کیا گیا۔ ان کے سر کاٹ کر فٹ بال کی طرح کھیلا گیا اور یہ اذیت ناک مناظرنیٹ پر ڈال کر وحشت و بربریت کا کھیل دنیا کو دکھایا گیا۔اس کے باوجود پاک فوج کے حوصلے اللہ کے فضل و کرم سے بلند رہے۔ ہماری فوج نے اس واقعہ کا جواب جس جوش و جذبے کے ساتھ دیا‘ اسے یاد کر کے بچ رہنے والے دہشت گردوں کی نیندیں موت آنے تک اڑتی رہیں گی۔ پاک فضائیہ اور بری افواج نے ان کے ٹھکانوں پر‘ جس طرح حملے کئے اور ان میں جو تباہی مچائی‘ اب وہ جگہیںدوبارہ انہیںحاصل نہیں ہوسکیں گی۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو دہشت گردوں کے لئے موت کی وادیوں میں بدلا جا چکا ہے۔ اب ان کی سرگرمیوں کا کوئی بھی مرکز‘ پاک فوج کی نگاہوں سے بچ نہیں پائے گا۔ ہم فاٹا کا بہت سا علاقہ ان سے پاک کر چکے ہیں اور جن علاقوں کی ابھی تک ''صفائی‘‘ نہیں ہو سکی‘ وہاں یہ کام جاری ہے۔
جشن جمہوریہ کا انعقاد چوری چھپے نہیں کیا گیا۔ اس کا باقاعدہ اعلان کر کے‘ ڈنکے کی چوٹ پر تیاریاں کی گئیں۔ یہ ایک طرح سے دہشت گردوں کو چیلنج تھا کہ اب وہ سکیورٹی کا حصار توڑ کر ‘ پاکستان کی افواج اور عوام کے خلاف ‘اپنی مذموم کارروائی کا جتن کر کے دیکھ لیں۔ یہ مظاہرے اسلام آباد ہی میں نہیں‘ تمام صوبائی دارالحکومتوں میں بھی اسی جوش و خروش کے ساتھ ہوئے۔ اسلام آباد میں اتنے لوگ آنا چاہتے تھے کہ شکرپڑیاں کی وہ جگہ کم پڑ گئی‘ جو سی ڈی اے نے پریڈ کے لئے تیار کرائی تھی۔ یہی صورتحال دوسرے شہروں میں تھی۔ عوام نے بڑھ چڑھ کر یوم جمہوریہ کی تقریبات میں حصہ لیا۔ اپنے شہروں میں ہر جگہ بے فکری اور آزادی کے ساتھ گھومے۔ خاندانوں کے ساتھ تفریحی مقامات پر گئے۔ بازاروں اور مارکیٹوں میں رونقیں رہیں۔ یہ ہے پریڈ کے مجاہدانہ انعقاد کا نتیجہ۔ نئے چیف آف آرمی سٹاف نے پریڈ کی بحالی کا مجاہدانہ فیصلہ کر کے‘ دہشت گردوں کو جس طرح للکارا‘ وہ پاکستانی قوم کے شایان شان تھا۔ مجاہد اسی طرح جیتے ہیں اور اسی طرح ظلم و جبر کی طاقتوں کے سامنے سینے تان کر پریڈیں کرتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ دہشت گردوں کا صفایا ہو گیا ہے۔ یہ انسانوں کی طرح نہ تو عام بستیوں میں رہتے ہیں اور نہ ان میں للکار کے حملہ کرنے کی جرأت ہوتی ہے۔ یہ چوہوں کی طرح چھپ کر جیتے ہیں اور سانپوں کی طرح گھاس اور جھاڑیوں میں چھپ کر حملے کرتے ہیں۔ یوم جمہوریہ کی تقریبات کا انعقاد کر کے پاک فوج نے بہت بڑا معرکہ سر کیا ہے۔ گزشتہ 7برس تک پریڈ کو ملتوی رکھ کر‘ عوام کو بے سہارا ہونے کا جو احساس دلایا گیا‘ وہ ریاست کی بزدلی کا اظہار تھا۔ عوام جیسی بھی حالت میں ہوں‘ جب فوج کے ساتھ قومی دن کے موقع پر انہیں اپنی آزادی اور خودمختاری کا احساس تازہ کرنے کا موقع ملتا ہے‘ وہ نہ صرف خوشی سے سرشار ہوتے ہیں بلکہ ان کا اعتماد مضبوط ہوتا ہے اور ریاست پر ان کے بھروسے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ریاست جب قومی تقریبات کا انعقاد روک کر پیچھے ہٹ گئی‘ تو عوام کا اعتماد مجروح ہوا۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہماری مسلح افواج کا شمار دنیا کی بہترین فوجوں میں کیا جاتا ہے۔ فن سپاہ گری میں ان کا کوئی جواب نہیں۔ یہ دنیا بھر کے میدانوں میں اپنی بہادری اور سپاہیانہ مہارت کے ثبوت دیتے رہتے ہیں۔ بدامنی اور انتشار کے شکار ملکوں میں جا کر انہوں نے امن بحال کیا۔ ان کے اپنے ملک میں دہشت گردوں کی اتنی طاقت اور جرأت کیسے ہو گئی کہ پاک فوج کی سالانہ پریڈ کو ملتوی کرا دیں؟ جن لوگوں نے یہ فیصلہ کیا‘ وہ پاک فوج کی کمان کرنے کے حق دار نہیں ہو سکتے۔ اس مرتبہ یوم جمہوریہ کی پریڈ سے عوام کے حوصلے ہی نہیں بڑھے بلکہ پاکستان کے دشمنوں کوہماری تازہ ترین جنگی صلاحیتوں کا بھی اندازہ ہو گیا۔ اب ہمارے پاس اپنے ڈرون طیارے ہیں اور خفیہ اطلاعات کا نظام بہت وسیع اور موثر ہو چکا ہے۔ تمام خفیہ ایجنسیاں ایک مربوط نظام کے تحت منظم ہو چکی ہیں۔ یہ سب کی سب اپنی اطلاعات میں‘ ایک دوسرے کو شریک کریں گی اور ان سب اطلاعات کی روشنی میں فوری ردعمل کی تیاری ہو گی اور ڈرون‘ کمیں گاہوں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کو بھی آسانی سے نشانہ بنا لیں گے۔ ابھی تک تو دہشت گردوں کو امریکی ڈرون حملوں کا سامنا تھا‘ اب پاکستان کے بنائے ہوئے ڈرونز‘ پاکستان ہی سے پرواز کر کے‘ جہاں بھی دہشت گرد اکٹھے ہوئے‘ وہیں پر انہیں نشانہ بنائیں گے۔ ہمارے اسلحہ خانے میں‘ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے جس چیز کی کمی تھی‘ اب وہ اللہ کے فضل سے پوری ہو چکی ہے۔ پاکستان کے
پاس ڈرونز کی ٹیکنالوجی تو موجود تھی مگر ہم نے اسے جنگی مقاصد کے لئے تیار نہیں کیا تھا۔ اب یہ ان کے لئے بھی تیار ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں یہ بات بہت دیر سے پھیلی ہوئی ہے کہ ہم شارٹ رینج ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار بنا رہے ہیں۔ یہ بھی اب اللہ کے فضل سے بنائے جا چکے ہیں۔ اسلام آباد کی پریڈ میں ان کی نمائش بھی ہو چکی ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے15سال تک وابستہ رہنے والے جنرل خالد قدوائی نے امریکہ میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں دور کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی ایٹمی طاقت ‘ ہمارے روایتی حریف بھارت سے کسی صورت بھی کم تر نہیں۔ بلکہ کونسل آن فارن ریلیشنز تھنک ٹینک کی ایک رپورٹ میں تو اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس وقت پاکستان ایٹمی ہتھیاروں میں بھارت سے آگے ہے۔ کونسل کے مطابق اس وقت پاکستان کے پاس 110 سے 120 ایٹمی ہتھیاروں کا فسل میٹریل موجود ہے‘ جبکہ بھارت کے پاس 90 سے 110 کامیٹریل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ''نصر‘‘ میزائل 60کلومیٹر تک نشانہ لگا سکتا ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ پاکستان کے ایٹمی ذخیرے پوری طرح محفوظ ہیں۔ کوئی فرد یا دہشت گرد گروہ وہاں پر نہیں پھٹک سکتا۔ اسی مہینے پاکستان نے 2750کلومیٹر دور تک نشانہ لگانے والے شاہین تھری کے نام سے ایٹمی میزائل تیار کر لئے ہیں۔ اتنی دور تک جانے والے ایٹم بردار میزائل سے اب بھارت کا کوئی بھی حصہ محفوظ نہیں۔ 23مارچ کی پریڈمیں یہ سب کچھ دکھایا جا چکا ہے۔ بھارت کو اپنی برتری کا پرانا تصور ترک کر کے‘ اب نئے حقائق کا ادراک کرنا پڑے گا۔ اب اسے تنازع کشمیر پر بات چیت کے لئے زیادہ وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ شاہین تھری کے کامیاب تجربے نے صورتحال کو یکسر بدل دیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی اسلحہ کے حوالے سے اس پوزیشن میں آ چکے ہیں ‘ جس میں کبھی ترقی یافتہ ایٹمی قوتیں تھیں اور انہیں پرامن بقائے باہمی کے سمجھوتے کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ بھارت اور پاکستان کی پوزیشن بھی قریباً اسی طرح کی ہے۔ یہ دونوں ملک ایک دوسرے کو پوری طرح تباہ کرنے کی پوزیشن میں آ چکے ہیں۔ بھارت کا یہ وہم دور ہو جانا چاہیے کہ خدانخواستہ پاکستان کو تباہ کر کے‘ اس کاکچھ نہ کچھ حصہ محفوظ رہ جائے گا۔ کچھ بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ شاید اسی خوف سے بھارت ‘اب اپنے کچھ ایٹم بم نکوبار اور انڈیمان میں نصب کرنا چاہتا ہے۔ یہ شکست خوردہ ذہنیت کی نشانی ہے۔ خدانخواستہ ‘ بھارت تباہ ہو گیا‘ تو نکوبار اور انڈیمان میں کیا رکھا ہے؟ محسوس ہوتا ہے کہ بھارت بھی اب ٹھوس حقائق کو سمجھ کر مذاکرات کی ضرورت کا احساس کرنے لگا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں حکمران بی جے پی نے پی ڈی پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنا کراس امر کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیرکے عوام کے ساتھ نرمی اختیار کرنے کی طرف مائل ہے۔ بھارت کی اسی حکومت نے دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر سے حریت کانفرنس کے لیڈروں کی ملاقات پر مذاکرات منسوخ کر دیئے تھے۔ لیکن اب اسی ہائی کمیشن میں سارے میڈیا کے سامنے‘ حریت کے لیڈروں سے پاکستانی حکام کی ملاقاتیں ہوئیں اور اس تقریب میں بھارت کے سابق کمانڈر انچیف وی کے سنگھ بھی شریک ہوئے اور میڈیا کے سوالوں پر انہوں نے جواب دیا کہ وہ اپنی پارٹی کے رہنما ئوںکی اجازت سے آئے ہیں۔ایٹمی طاقتیں بن جانے کے بعد‘ امن کے ساتھ رہنا‘ اب پاکستان اور بھارت کی مجبوری بن گیا ہے۔ کیوں نہ اس مجبوری کے تحت بقائے باہمی کا اصول اپناتے ہوئے امن کی راہیں تلاش کریں؟