اوبی او آر...یہ ترقی کے ایک نئے دور کی تلخیص ہے‘ جو چین تعمیر و ترقی کے عظیم منصوبے کی صورت میں ‘ پوری دنیا کو دے رہا ہے۔انگریزی میں اس کا نام ون بیلٹ‘ ون روڈ رکھا گیا ہے۔یہ مغربی ایشیا سے چین کو ملانے والے اس قدیم راستے کی نئی شکل ہے‘ جسے مٹی اور پانی پر تعمیر کیا جائے گا۔ اس کا پورا نام میری ٹائم سلک روڈ ہو گا۔ چینی دانشوروںکے مطابق‘ یہ چین کی نئی معاشی سفارت کاری کا ایک عظیم منصوبہ ہے۔ چین کی او بی او آر سٹریٹجی‘ آنے والے دور میں ‘ چین کی خارجہ پالیسی کا سنگ میل بھی ہو گی۔ اس منزل کی طرف بڑھتے ہوئے‘ چین معاشی‘سیاسی‘ فو جی ‘ اور تہذیبی پیش عملیاں کرے گا اور یہ عظیم خواب‘ آنے والے 10برسوں میں حقیقت کا روپ دھار چکا ہو گا۔ چینی ماہرین ان 10 برسوں کو مندرجہ ذیل ادوار میں سمیٹتے ہیں۔ 2013ء اس تصور کے جنم کا سال ہے۔ 2014ء آپریشنلائزیشن کا سال ہو گا اور 2015ء میں اس منصوبے پر مکمل عملدرآمد کے مراحل شروع ہو جائیں گے۔ اس عظیم منصوبے میں متعدد اور ہمہ جہتی اکنامک کوریڈورز کی تعمیر و تیاری شروع ہو جائے گی۔ جس کا تعلق چین اور آسیان کے اکنامک زون سے بھی ہو گا اور بحرالکاہل کے کنارے پر یہی منصوبہ ‘ ایشیا پیسفک فری ٹریڈ زون کہلائے گا۔ منصوبے کے یہ سارے حصے جب پایۂ تکمیل کو پہنچ رہے ہوں گے‘ تو چین کی سٹریٹجک خارجہ پالیسی کی بھی کایا پلٹ ہو جائے گی۔یہ پالیسی چینی حکومت کے لوپروفائل کے وداع اور پرعزم انٹرپرائزنگ دور کی ابتدا پر مبنی ہو گی۔ اس میں ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کی نئی وسعتیں اور امریکہ کے ساتھ چین کے ڈپلومیٹک تعلقات کی نئی جہتیں دریافت کی جائیں گی۔
حسن اتفاق دیکھئے کہ چین اس عظیم منصوبے پر عملدرآمد کے پہلے مرحلے کا آغاز پاکستان سے کر رہا ہے۔ یہ ایسا وقت ہے ‘ جب پاکستان اپنی تاریخ کے عظیم تر بحرانوں سے گزر رہا ہے۔ بجلی نے دیہات اور شہروںمیںلوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ صنعتی اور زرعی پیداوار تاریخ کے انتہائی نچلے درجے پر ہے۔ یہی صورتحال گیس کی ہے۔ موجودہ حکومت‘ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے وعدے پر اقتدار میں آئی تھی، مگر وہ تمام تر مخلصانہ کوششوں کے باوجود‘ قریباً دو سال کے دوران بجلی پیدا کرنے کے کسی بھی قابل ذکر منصوبے کا آغاز نہیں کر سکی۔ اگر وسائل دستیاب ہوتے‘ تو دو سال کے عرصے میں تھرمل پاور پلانٹ‘ پیداوار شروع کر سکتے تھے،لیکن ہماری مالی حالت نے اس کی اجازت نہیں دی۔ ہماری معیشت روز بروززوال کی طرف جا رہی ہے۔ یہ قدرت کی عطا ہے کہ ایسے وقت میں چین تاریخ کے سب سے بڑے‘ عالمی منصوبے کا آغاز پاکستان سے کر رہا ہے۔ اس منصوبے کے نتیجے میں تعمیروترقی کے جو ہمہ گیر کام شروع ہوں گے‘ ان کے نتائج دیکھنے کے لئے زیادہ عرصہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ نئے چین کی منصوبہ بندیوں کی صلاحیت اورمہارت کی مثالیں‘ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئیں۔ چین نے دیکھتے ہی دیکھتے دو اڑھائی عشروں کے دوران‘ دنیا کی بلند ترین اور طویل سڑک اور ریلوے لائن تعمیر کر کے ٹریفک بھی شروع کر دی۔ میرین سلک روڈ کا آئیڈیا2013ء میں سامنے آیا تھا۔ 2014ء میں اس پر عملدرآمد کی تیاریاں شروع کر دی گئیں اور 2015ء میں ہر شعبے کے تعمیراتی کام ہونے لگیں گے۔
اس وقت پاکستان‘ دہشت گردی کے خلاف‘ اپنی تاریخ کی سب سے بڑی اور خطرناک جنگ لڑ رہا ہے۔ ہم پاکستان کے اندر سرگرم دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کر کے انہیں ختم یا ملک سے باہر کھدیڑ رہے ہیں، لیکن دہشت گردی کی جڑیں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔امریکہ بظاہر اس منصوبے کی افادیت کا اعتراف کرتا ہے، لیکن اس کی سامراجی چالبازیاں ختم نہیں ہوتیں۔ ظاہر ہے اس نے عالمی سطح پر اپنے اثرات کا جال پھیلا رکھا ہے اور چین کا یہ منصوبہ ‘ اس کی برتری و بالادستی کے لئے براہ راست چیلنج بن سکتا ہے۔ چینی سٹریٹجسٹس پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اس منصوبے کو امریکہ کے لئے بھی ترغیب انگیز بنایا جائے اور اس کے مفادات کے لئے اتنی گنجائش پیدا کر دی جائے کہ امریکہ اس کی مخالفت کرنے کے بجائے‘ اپنے مفادات بھی اس منصوبے سے منسلک کرنے میں بہتری سمجھے۔ چینیوں نے عالمی تجارت میں لوپروفائل رکھتے ہوئے‘ جس طرح امریکہ کو منفی اقدامات سے دور رہنے پر تیار کیا‘ وہ چینیوں کی عالمی اقتصادی پالیسیوں کا مثبت پہلو ہے۔ مگر ہم سب جانتے ہیں کہ اعلیٰ سطح پر امریکہ کی پالیسی بدل بھی جائے‘ تو اس کے جو ادارے خفیہ انتظامات پر مامور ہیں‘ وہ تبدیلی آنے کے بعد بھی‘ اپنے زیرعمل منصوبوں پر کام جاری رکھتے ہیں۔ اس لئے کچھ بعید نہیں کہ پاکستان کے اندر کچھ لوگ امریکی ایجنسیوں کی جاری پالیسیوں کے زیراثر منفی سرگرمیاں برقرار رکھیں اور سڑک کی تعمیرمیں رکاوٹیں پیدا کرنے والے عناصر‘ رکاوٹیں پیدا کرتے رہیں۔ خصوصاً دہشت گردوں کی کارروائیوں سے محفوظ رہنا بے حد ضروری ہے۔ اس مقصد کے لئے چین اور پاکستان دونوں کے باہمی تعاون سے ایک خصوصی سپیشل فورس تیار کی جائے گی۔ جو پاکستان کے اندر سے گزرنے والے راستوں کی تعمیرو تیاری کے عمل کو اطمینان بخش تحفظ فراہم کرے۔ چین نے اپنی سرزمین پر انتہائی دشوارگزار راستوں کی تعمیر بھی مقامی مخالفتوں کے باوجود کامیابی سے جاری رکھی۔ اس کے تجربات یہاں بھی ہمارے کام آئیں گے اور خود پاکستانی فوج بھی گزشتہ چند سالوں کے دوران‘ داخلی سلامتی کے میدان میں کافی کامیاب تجربے کر چکی ہے اور اب ہم اس کی صلاحیتوں پر اعتماد کر سکتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یعنی گوادر کی بندرگاہ کی تکمیل اور راستوں کی فراہمی کا ہو گا۔اس
پر چین اور پاکستان کے ماہرین پوری احتیاط سے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اسی سال کے آخر میں ابتدائی کام شروع ہو جائیں گے اور 2016ء تک یہ خصوصی حفاظتی دستے اپنے فرائض ادا کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔ ہمارے معزز مہمان چین کے صدر شی چن پنگ اپنے اس دورے کے دوران ‘ پاکستان کے لئے 46بلین ڈالر کے ترقیاتی تحائف لے کر آئیں گے۔ یہ سارے منصوبے پاکستان ہی نہیں‘ پورے خطے کے لئے خصوصی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ بھارت‘ جنوبی ایشیا اور شرق اوسط کے لئے‘ ان منصوبوں میں افادیت کی وسیع گنجائشیں موجود ہوں گی۔یہ منصوبے خو د چین کے مغربی صوبوں کے اندر ترقیاتی عمل کو تیز کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔خصوصاً گوادر کی بندرگاہ‘ چین کے ان علاقوں میں شرق اوسط سے آئل اور گیس کی فراہمی کے فاصلے‘ بہت بڑی حد تک کم کرے گی۔ اس وقت یہ دونوں چیزیں چین جن راستوں سے حاصل کر رہا ہے‘ وہ پوری طرح محفوظ نہیں، جبکہ یہ نزدیکی راستے‘ مختصر بھی ہوں گے اور محفوظ بھی۔ جنرل مارشل فنڈ سے تعلق رکھنے والے چینی امور کے ماہر کے بقول‘ یہ منصوبہ وسیع تناظر میں یوریشیا اور گردونواح کے پورے خطے کامعاشی جغرافیہ بدل کے رکھ دے گا۔ معزز چینی مہمان کے اسی دورے میں‘ 5بلین ڈالر کی ایک اور ڈیل پر بھی بات ہو گی۔ جس کے تحت چینی آبدوزیں پاکستان کو دی جائیں گی۔ یہ سودا ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے‘ جب بھارت اس کوشش میں ہے کہ وہ بحیرہ عرب میں اپنی نیوی کی صلاحیتوں میں تیزرفتاری سے اضافہ کر کے‘ اپنا کنٹرول قائم کرے۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں گوادر پورٹ کی کمرشل بندرگاہ کو ترقی دے کر‘ چینی نیوی کے جہازوں کو خطے میں لاجسٹک سہولتیں فراہم کرنے کے انتظامات کا جائزہ بھی لیاجائے۔ یہی بندر گاہ‘ میری ٹائم سلک روڈ کو ‘ شرق اوسط کے سمندروں سے مربوط کرے گی۔ اس طرح میری ٹائم سلک روڈ ‘سری لنکا کی بندرگاہوں کو چین کی گہری بندر گاہوں سے ملا دے گی۔ چین اور پاکستان کی کوشش ہے کہ گوادر کی بندرگاہ کو تیزرفتاری سے کنٹینر پورٹ کے درجے تک لے جایا جائے۔اس کے بعد چین کی اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی‘ 40 سال کے لئے اس ترقی یافتہ بندرگاہ کا کنٹرول سنبھال لے گی۔ ان معاملات سے باخبر پاکستان کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق گوادر کی پورٹ‘ ماہ رواں کے آخر میں چینیوں کے زیرانتظام کام شروع کر دے گی۔ ظاہر ہے کہ اس منصوبے پر امریکہ اور بھارت دونوں فکرمند ہوں گے، جس کی طرف پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف نے حال میں اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''بیرونی ایجنسیاں ‘ پاکستان میں اپنی سرگرمیاں بند کر دیں۔‘‘ ظاہر ہے کہ یہ بلوچستان میں ہونے والی تخریب کاری کی طرف اشارہ ہے، لیکن اب چین اور پاکستان مشترکہ تعمیراتی منصوبوں کی حفاظت کے لئے‘ نئے اقدامات کرنے کے بعد آگے بڑھیں گے اور متعلقہ طاقتوں کی تشویش دور کرنے میں کامیاب ہو کر‘ خطے کے عوام کی زندگی میں خوشحالی لانے والے تعمیراتی منصوبے بخیرو عافیت پایہ تکمیل کو پہنچ سکیں گے۔