اچھی خبر یہ ہے کہ ایشین ڈیویلپمنٹ بینک پاکستان کو اگلے پانچ سالوں میں دس ارب ڈالرز امداد دینے کا ارادہ رکھتا ہے‘ جس کا بیشتر حصہ ترقیاتی اور توانائی کے شعبوں پر صرف ہو گا۔ اس سلسلے میں وفاقی وزیر خسرو بختیار نے ایشین ڈیویلپمنٹ بینک کے صدر کے ساتھ ورچوئل میٹنگ میں معاملات طے کیے ہیں۔ دس ارب ڈالر ہر لحاظ سے ایک کامیاب ڈیل نظر آتی ہے۔ اس سے نہ صرف انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی بلکہ نئی انڈسٹری بھی لگائی جا سکے گی۔ نوکریوں کے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور ڈیمانڈ سپلائی کے فارمولے کے تحت ڈالر کے مقابلے میں روپے کو مزید استحکام مل سکے گا۔ یہ امدادایک طرح کا اعتماد ہے جو کہ پاکستانی معیشت پر کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ جون 2019 وہ وقت تھا جب پاکستان کو معاشی سہارے کے لیے تقریباً چھ بلین ڈالر قرض کی ضرورت تھی۔ کمزور معیشت اور بے یقینی کی کیفیت کے باعث اتنا قرض کسی بھی دوست ملک سے نہیں مل سکا۔ جب کہیں سے بھی امید نہ رہی تو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا اور سخت شرائط کے باعث ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کا وہ طوفان اٹھا جو ابھی تک قابو میں آتا دکھائی نہیں دے رہا۔ شرح سود پانچ فیصد سے بڑھا کر 13 فیصد کرنا پڑی اور ایک ڈالر 169روپے تک چلا گیا۔
یہ رقم حاصل کرنے کے لیے تحریک انصاف کا معاشی دماغ قرار دیے جانے والے وزیر خزانہ اسد عمر کی قربانی دینا پڑی‘ چین سے کیے گئے سی پیک منصوبے ظاہر کرنا پڑے اور وزیراعظم عمران خان کو آئی ایم ایف چیف سے خود ملاقات کر کے قرض کی درخواست کرنا پڑی۔یعنی چھ ارب ڈالرز کا یہ قرض پاکستان کو بہت مشکل شرائط پر دیا گیا ۔ لیکن آج حالات پہلے سے بہت مختلف ہیں۔ مضبوط معیشت کے راستے پر گامزن ہونے کے باعث اکنامک افئیرز کے وفاقی وزیر خسرو بختیار نے دس ارب ڈالرز کی ڈیل کر لی ہے اور کوئی خاص شرائط بھی ماننا نہیں پڑی ہیں۔ اگر دیگر عناصر کو بھی دیکھا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایشین ڈیویلپمنٹ بینک پر چین کا اثرو رسوخ زیادہ ہے۔ چین کی وجہ سے پاکستان پر خاص مہربانی ہوئی ہے۔ شاید چین اعلان کر کے براہ راست پاکستان کو اتنی بڑی رقم نہ دے سکے‘لیکن اے ڈی بی سے یہ آسانی سے ممکن ہے۔
آئیے اب قرضوں کی ادائیگی پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اس وقت جو ایشو سر فہرست ہے وہ سعودی عرب‘ متحدہ ارب امارات اور چین سے لیے گئے قرض ہیں۔ نومبر 2019ء میں سعودی عرب سے تین ارب ڈالر کا قرض لیا گیا تھا۔ جن کی ادائیگیاں نومبر‘ دسمبر 2020ء اور جنوری 2021ء تک کرنا تھیں۔ جنوری ‘فروری 2020ء کو متحدہ عرب امارات سے دو ارب ڈالرز لئے گئے تھے جن کی ادائیگی بھی اگلے سال جنوری‘ فروری میں کرنی ہے۔ اس کے علاوہ چین کا تین ارب ڈالر قرض بھی ہے جو کہ واجب الادا ہے۔ 23 اکتوبر تک سٹیٹ بینک آف پاکستان کے فارن ایکسچینج ذخائر 12.121 ارب ڈالر تھے ‘جس کا بیشتر حصہ قرضوں پر مشتمل ہے۔ قرض ادا کرنے کے دو منفی اثرات سامنے آئیں گے۔ اوّل سٹیٹ بینک ذخائر کم ہو جائیں گے۔ بہت سے ممالک اور ادارے پاکستان کو قرض صرف اسی بنا پر دے رہے ہیں کہ اس کے فارن ایکسچینج ذخائر میں مناسب ڈالرز موجود رہیں‘ لیکن ان ادائیگیوں سے پاکستان کی مالی حیثیت مستحکم نہیں رہے گی۔ دوسری طرف قرض کی ادائیگی سے ڈالرز کی طلب اور رسد میں فرق پڑے گا اور پاکستانی روپے کی قدر گر سکتی ہے۔
اگر قرضوں کا حساب لگایا جائے تو اعدادوشمار حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ سعودی عرب کے تین بلین ڈالرز قرض میں سے پاکستان نے ایک ارب ڈالر واپس کر دیے ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستانی معیشت پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ پاکستان نے چین سے ایک ارب ڈالر قرض لے کر سعودی عرب کو واپس کر دیا تھا۔ آج کی تاریخ میں سعودی عرب کے دو ارب‘ متحدہ عرب امارات کے دو ارب اور چین کے تین ارب ڈالرز فوری واجب الادا ہیں۔ دو تین ماہ میں سات ارب ڈالرز کی ادائیگی پاکستان کے لیے بظاہر ناممکن ہے۔ بارہ ارب ڈالر کے فارن ایکسچینج ذخائر کم ہو کر پانچ ارب ڈالر رہ جائیں گے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ میرے خیال میں ان قرضوں کی مدت مزید ایک سال تک بڑھا دی جائے تو اس بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے وزارت خارجہ کا کردار بہت اہم ہے۔ کامیاب سفارتکاری کے دعوے کیے جاتے ہیں‘لیکن ان کے عملی مظاہرے کا یہ درست وقت ہے۔ ان سات ارب ڈالرز میں سعودی عرب اور متحدہ ارب امارات کے چار ارب ڈالرز کی مدت میں توسیع زیادہ مشکل ہو سکتی ہے کیونکہ سعودی عرب حال ہی میں پاکستان کو تین ارب ڈالر تیل کی فراہمی کے معاہدے سے منحرف ہو چکا ہے اور کمزور معاشی حالات کے باوجود پاکستان سے ایک ارب ڈالر بھی واپس لے لیے ہیں‘ لیکن یہ بھی ہے کہ آج کے حالات ماضی کی نسبت کافی بدل چکے ہیں۔ امریکی صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی متوقع ہار سے سعودی عرب کی پوزیشن پر اثر پڑنے کا امکان ہے۔ یا د رہے کہ ٹرمپ کی ایران مخالف پالیسیز کا سب سے زیادہ فائدہ سعودی عرب کو ہوا ہے۔باراک اوباما کے دور حکومت میں ایران سے کیے گئے معاہدوں نے سعودی عرب کے معاشی حالات کمزور کر دیے تھے۔ اس کے علاوہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے حملوں کے تانے بانے بھی سعودی عرب سے ملائے جا رہے تھے۔ انٹرنیشنل میڈیا نے بھی اس ایشو کو اٹھائے رکھا۔ امریکہ اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بھی خراب رہے جو کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے چار سالہ دور میں کافی بہتر ہوگئے۔ جو بائیڈن باراک اوباما کے دو مرتبہ نائب صدر رہ چکے ہیں‘ لہٰذا یہ مؤقف تقویت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ اوباما پالیسیز دوبارہ سامنے آئیں گی اور سعودی عرب امریکہ تعلقات ایک مرتبہ پھر سرد مہری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ پاکستان ان حالات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ علاقے میں ایران کے اثرو رسوخ کو بڑھنے سے روکنے کے لیے سعودی عرب کی آخری امید پاکستان ہو سکتی ہے؛چنانچہسعودی عرب کسی بھی قیمت پر پاکستان کو ناراض نہیں کرنا چاہے گا‘ لہٰذا سعودی عرب سے دو ارب ڈالرز کے قرض کی مدت کو مزید ایک سال تک بڑھانے کے مطالبے پر عمل درآمد کروایا جا سکتا ہے۔ اسی پالیسی کے تحت متحدہ ارب امارات سے بھی قرضوں کی مدت بڑھانے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔اطلاعات کے مطابق حکومت کی جانب سے ایسی کوششیں شروع ہو چکی ہیں اور اگلے روز کی ایک اخباری خبر میں وزارت خزانہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے حوالے سے یہ کہا گیا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارا ت‘ دونوں پاکستان کے قرضوں کی مدت بڑھانے کے لیے آمادہ ہیں۔اگر چین کے تین ارب ڈالر قرض کی بات کی جائے تو اس کی مدت میں اضافہ نسبتاً آسان دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان چین کے تعلقات مثالی ہیں اور پاکستان کا معاشی طور پر مضبوط ہونا چین کے لیے بھی ضروری ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف شاید ان قرضوں کی مدت بڑھانے کی اجازت نہ دے‘ لیکن میری اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف معاہدے میں ان قرضوں کی مدت بڑھانے کی اجازت معاہدوں کے وقت لے لی گئی تھی۔ اس کے علاوہ پچھلے چار ماہ کی حکومتی معاشی کارکردگی بھی بہتر رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے ٹیکس اہداف کو حاصل کیا گیا ہے‘ بلکہ ٹارگٹ سے زیادہ وصولیاں ہوئی ہیں۔ آئی ایم ایف کے قرض کی ادائیگی بھی بروقت ہو رہی ہے۔ حکومت نے پچھلے چار ماہ میں کوئی اضافی قرض بھی نہیں لیا ہے اور سبسڈی دینے کی بجائے اداروں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی ہوئی ہے۔ یہ اعدادوشمار حوصلہ افزا ہیں اور پاکستان کی پوزیشن کو مضبوط کرتے ہیں۔ ان حالات میں آئی ایم ایف کو منانا زیادہ مشکل دکھائی نہیں دیتا ۔بہتر حکمت عملی اختیار کر کے سات ارب ڈالر کے اس معاشی مسئلے کو آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے۔