پاکستان کی معاشی ترقی اور تنزلی کا ذکر چین اور امریکہ کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے۔ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے ہم یا تو امریکی لابی کا حصہ رہے ہیں یا چین کے زیر اثر کام کیا ہے۔ بعض صورتوں میں تو دونوں کو ساتھ لے کر چلے ہیں۔ اگر امریکہ کی بات کی جائے تو حالیہ انتخابات کے نتائج کے مطابق جو بائیڈن صدر منتخب ہوں گے‘ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کا ہار نہ ماننا اور وائٹ ہاؤس کے باہر ان کے حامیوں کا احتجاج کرنے کا ارادہ ظاہر کرنا امریکہ کے لیے سنگین صورتحال کو جنم دے سکتا ہے۔ماہرین کے مطابق حالات کچھ بھی ہوں جوبائیدن ہی وائٹ ہاؤس کے اگلے مکین ہوں گے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ کا پاکستان سے تعلق کیسا ہو گا اور معاشی لحاظ سے پاکستان کو اس کا فائدہ ہو گا یانقصان؟ اس بارے کوئی حتمی رائے دینا قبل از وقت ہو گا لیکن ماضی میں ہونے والے واقعات کو بنیاد بنا کر ایک رائے ضرور قائم کی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ جو بائیڈن 2009ء سے2017ء تک باراک اوبامہ کے ساتھ امریکہ کے نائب صدر رہے ہیں اور امریکہ کے کامیاب سینیٹر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ جو بائیدن کی پاکستانی معاشی پالیسی میں اوبامہ پالیسی کی جھلک نظر آئے گی تو غلط نہیں ہو گا۔ باراک اوبامہ نے امریکی صدارت سنبھالنے کے اگلے ہی سال کیری لوگر بل منظور کیا تھا۔ کیری لوگر بل دراصل پاکستانی سویلین امداد کا بل تھا جس کے مطابق پاکستانی حکومت کو سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر امداد ملنا تھی جو کہ دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے استعمال ہونا تھی۔ یہ امداد 2009ء سے 2014ء تک مسلسل پانچ سال کے لیے منظور کی گئی تھی۔ اس بل کو منظور کروانے میں جو بائیڈن کا بہت اہم کردارتھا۔ جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معاشی مضبوطی کے لیے یہ امداد بہت ضروری تھی‘ جبکہ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ نے یکم جنوری 2018ء کوٹوئٹ کیا کہ امریکہ بیوقوفوں کی طرح پچھلے پندرہ سالوں میں پاکستان کو33 ارب ڈالر دے چکا ہے۔جبکہ پاکستان نے اس کے بدلے صرف جھوٹ بولا ہے اور ہمارے رہنماؤں کو بیوقوف بنایا ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ نے پاکستان کی مالی امداد بھی بند کر دی‘جو تھوڑے بہت اتار چڑھاو ٔکے بعد پرانی سطح پر واپس نہیں آ سکی۔ جوبائیڈن کے آنے کے بعد یہ امید کی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے لیے امداد کا پیکج منظور ہو سکے گا‘ جس سے پاکستانی معاشی صورتحال کو مزید بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
اس کے علاوہ ایران کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی بھی ممکن نظر آ رہی ہے‘ جس کا معاشی فائدہ پاکستان کو بھی ہوگا۔ قارئین یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ ایران امریکہ بہتر تعلقات کا فائدہ پاکستان کو کیسے ہوگا‘ آئیے جاننے کے کوشش کرتے ہیں۔ایران کے پاس دنیا میں تیل کا چوتھا بڑا ذخیرہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق وینزویلا‘ سعودی عرب اور کینیڈا کے بعد ایران کے پاس تیل کے سب سے بڑے ذخائر ہیں‘ جن کی مقدار 157.2بلین ڈالرز ہے جو کہ پوری دنیا کے تیل کا 9.3فیصد ہے‘ لیکن بدقسمتی سے امریکی پابندیوں کے باعث ایران تیل کے ذخائر سے مطلوبہ فوائد حاصل نہیں کر پا رہا۔ اول تو وہ پٹرولیم مصنوعات کو نکال ہی نہیں پا رہا اور جو نکال رہا ہے انہیں بیچ نہیں پا رہا۔ ان پابندیوں کا سب سے زیادہ فائدہ سعودی عرب اٹھا رہا ہے۔ ایران کی سپلائی بند ہونے سے سعودی تیل مہنگے داموں بکتا ہے‘یہی وجہ ہے کہ جب اوبامہ انتظامیہ نے ایران کے ساتھ معاہدے کیے اور پابندیاں اٹھا لی گئیں‘ ایرانی پٹرولیم مصنوعات بآسانی دستیاب ہونے لگیں تو ایران کے معاشی حالات بہتر ہوئے اور سعودی عرب کی معیشت بیٹھ گئی۔ اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ سعودی عرب جس ٹیکنالوجی سے تیل نکالتا ہے وہ دنیا میں سب سے سستی ہے‘پھر بھی ایرانی تیل سستا کیسے بکے گا؟دراصل اس کی بڑی وجہ سعودی عرب کی کمزور معاشی پالیسی ہے۔ تیل اورحج کے علاوہ تقریباً تمام سرکاری ادارے نقصان میں چل رہے ہیں‘ جن کے نقصان کے اخراجات فی بیرل تیل کی قیمت کا تعین کرتے وقت اس میں شامل کئے جاتے ہیں۔ جبکہ ایران سعودی ریٹ سے آدھی قیمت پر بھی تیل بیچ کر پیسے کما سکتا ہے۔اس کی عملی مثال فروری 2016ء میں سامنے آئی جب ایران نے یورپی ممالک کو سعودی عرب سے کم ریٹ پر تیل آفر کیا اور سعودی سے یہ مارکیٹ چھین لی۔ گو کہ ایران اوپیک کا رکن ملک ہے ‘ بلکہ اوپیک تنظیم کی بنیاد ہی ایران کے دارالحکومت تہران میں رکھی گئی تھی‘ لیکن ملکی مفاد کو ہمیشہ اوپیک معاملات پر ترجیح دی گئی ہے۔ اوپیک ممالک عمومی طور پر تیل کی پیداوار اور قیمتوں کا تعین ایک مخصوص طریقے کی تحت کرتے ہیں‘لیکن وہ ان کو ماننے کے پابند نہیں ہیں۔ اس کی حالیہ مثال فروری 2020ء میں سامنے آئی جب روس نے طے شدہ مقدار سے زیادہ تیل نکالنا اور کم قیمت پر فروخت کرنا شروع کیا تو سعودی عرب نے بھی روزانہ کی پیداوار بڑھانے کا اعلان کر دیا‘ جس نے پوری دنیا کی تیل مارکیٹ کریش کر دی۔ امریکہ میں حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ تیل مفت دیا جانے لگا اور اسے لے جانے کا خرچہ بھی ادا کیا گیا۔ مائنس تیس ڈالر فی بیرل کے حساب سے بھی تیل بیچا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اوپیک ممالک ذمہ داران کو کٹہرے میں لاتے لیکن ایسی کوئی بندش موجود نہیں ہے۔ اسی اصول کے تحت اگر مستقبل میں ایران تیل کی پیداوار بڑھا کر قیمتیں کم کر دیتا ہے تو اوپیک کچھ نہیں کر پائے گی۔
پاکستان سمیت پوری دنیا کو اس کا فائدہ ہو گا۔ زیادہ فائدہ ان ممالک کو ہو گا جو پٹرولیم مصنوعات کو درآمد کرتے ہیں‘ان میں چین سر فہرست ہے۔ پاکستانی معیشت پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ پاکستان کی سب سے بڑی درآمد پٹرولیم مصنوعات ہیں۔ ملک میں کاروباری طبقے کی اکثریت اشیا درآمد کرنے کی بجائے مقامی صنعت لگانے کو ترجیح دے رہی ہے جس کے لیے تیل کی قیمت کم ہونا کسی نعمت سے کم نہیں ہو گی۔ اگر تیل کی قیمت بڑھتی گئی تو ایک طرف ڈالر ملک سے باہر جاتا رہے گا اور دوسری طرف درآمدات کم ہونے کا فائدہ نہیں ہو گا۔ مقامی اشیا کی تیاری مہنگی پڑے گی اور عالمی مارکیٹ سے درآمد کرنے کا رجحان بڑھ جائے گا۔ پاکستان میں مقامی صنعتیں جو سامان بنا رہی ہیں ان کا خام مال زیادہ تر چین سے درآمد کیا جاتا ہے۔ تیل کی بین الاقوامی قیمت کم ہونے سے پاکستانی درآمدات کی قیمت پر بھی اثر پڑے گا اور مہنگائی کی شرح کم ہو سکے گی۔پاکستان ایران کو سبزیاں اور پھل محدود پیمانے پر برآمد کرتا ہے۔ پاکستانی ٹیکسٹائل کی دنیا میں ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے‘ لیکن ایران کے ساتھ یہ تجارت بھی محدود ہے۔ پچھلے سال 54 ملین ڈالرز کی کاٹن برآمد کی تھی جو کہ اس سال تقریباً 52 ملین سے کم ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایران خشک میوہ جات کی بہت بڑی مارکیٹ ہے لیکن بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے دیر پا اور بڑے معاہدے نہیں ہو پا رہے اور مطلوبہ فوائد حاصل نہیں کیے جا رہے۔ پاکستان کے وہ لوگ بھی وہاں کاروبار کرتے ہیں جس کی آمدن پابندیوں کے ڈر سے ظاہر نہیں کی جاتی اور نقصان پاکستانی معیشت کو ہوتا ہے۔ دوسری طرف ایران کی خوشحالی ہمسایہ ممالک کے لیے سود مند رہے گی۔بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ اگر ہمسایہ خوشحال ہوتو اس کا اثر ساتھ والے گھر پر ضرور پڑتا ہے‘ لہٰذا اگر امریکہ کا جھکاؤ ایران کی جانب ہو گیا تو پاکستان کو اس کا بہت زیادہ معاشی فائدہ حاصل ہو سکتے ہیں۔